عوام کو ریلیف دینے کے لئے وفاقی کابینہ کے اہم فیصلے
وفاقی کابینہ کی جانب سے سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی ختم کئے جانے کے بعد اب تمام سرکاری اداروں میں خالی آسامیوں۔۔۔
پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کی آوازیں اٹھنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک تقریباً تمام عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کا لگایا جانا کوئی ایسا حیران کن اور بلا جواز بھی نہیں رہا لیکن 1988 کے بعد پیش آنے والے واقعات نے بظاہر ثابت کیا کہ پاکستان میں منظم طریقے سے پولنگ سے قبل، پولنگ کے دن اور پولنگ کے بعد دھاندلی کی جاتی رہی ہے۔ 2013 میں ہونے والے انتخابات دھاندلی کے اعتبار سے گزشتہ انتخابات سے بالکل مختلف ہیں جس میں ہارنے اور جیتنے والی تمام جماعتیں دھاندلی کے الزمات لگا رہی ہیں اور رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جائزہ رپورٹ نے پوری کردی ہے جو ایک ویب سائٹ پر پیش کی گئی، جس میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انتخابات میں آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق درست طریقے سے نہیں ہو سکا ہے۔
سولہ رکنی کمیٹی طرف سے انتخابات سے متعلق تیار کردہ اس جائزہ رپورٹ کو اگرچہ کافی عرصہ قبل تیار کیا جا چکا تھا مگر اس رپورٹ کو جاری اب کیا گیا ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے 62 اور 63 کا اطلاق کرتا رہا ،انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کیلئے کم وقت ملنے کے باعث انتخابی امیدواروں کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیر کلیئر کر دیا گیا، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، نادرا اور نیب نے بھی مکمل تعاون نہیں کیا الیکشن کمیشن میں قائم سکروٹنی سیل بھی صحیح طریقے سے کام نہ کر سکا۔
یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم بھی ناکام رہا اور چھپائی میں تاخیر کے باعث بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز دیر سے پہنچے اور بڑی تعداد میں ریٹرننگ افسران نے ہاتھ سے بنائے ہوئے نتائج الیکشن کمیشن بھیجے جبکہ فارم 16 میں نقائص کے باعث ریٹرننگ افسران مذکورہ فارم خود بناتے رہے، پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کے اضافے کے فیصلہ سے ابہام پیدا ہوا، یوں معلوم ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کو اس رپورٹ کی فائنڈنگ بارے ادراک ہو چکا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے جو الزامات عائد کئے جا رہے تھے، وہ رپورٹ میں کئے جانے والے انکشافات سے ملتے جلتے ہی ہیں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کی آوازیں اٹھنا ہی موجودہ سیاسی بحران کی وجہ بنی ہیں۔
انہی الزامات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا اور اس مقصد میں پاکستان عوامی تحریک نے دست و بازوکا کردار ادا کیا۔ اگر عوامی تحریک آج ڈی چوک پر اس طرح منظم اور پُرعزم انداز میں موجود نہ ہوتی تو شائد عمران خان کے سیاسی غُبارے سے کب کی ہوا نکل چُکی ہوتی کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں جتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرکے خود کوووٹرز کی تعداد کے حوالے سے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کروایا تھا، لانگ مارچ اور دھرنے اس کے لئے بڑا دھچکے کا باعث بنے کیونکہ دھرنے کے شرکاء کی تعداد انتخابی نتائج کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کے شایان شان نہیں ہے۔
اس سے زیادہ لوگ گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے شرکاء کی تھی اس میں کوئی شک نہیں کراچی کے جلسے نے تحریک انصاف کی قیادت کو حوصلہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 28 ستمبر کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ تحریک انصاف حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد اپنی چالیس دن کی کوششوں کو بے ثمر ہونے سے بچانے کیلئے اس کا رُخ اپنی جماعت کو مضبوط اور متحرک بنانے کی طرف موڑنا چاہتی ہے اسی لئے ملک بھر میں جماعت کو متحرک بنانے کیلئے اس قسم کی سرگرمیاں تمام بڑے شہروں میں شروع کردی جائیں۔
ایسی سرگرمیوں سے جہاں ایک طرف حکومت پر دباؤ بڑھے گا تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت کا ووٹ بینک اگر بڑھتا نہیں تو کم نہیں ہوگا۔ بعض حلقوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ق)،عوامی مسلم لیگ ،عوامی تحریک ،متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر چند چھوٹی موٹی دینی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نیا اتحادبنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان پس پردہ رابطوں کے سبب خاموش مفاہمت بھی ہوگئی ہے اور ایم کیو ایم و پی ٹی آئی کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ بہتر بنانے میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہی سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اتوار کو عمران خان کی کراچی آمد سے قبل ایم کیو ایم کا اہم بیان جاری ہوا جس میں ان کو کراچی میں جلسہ کرنے پر خوش آمدید کہا گیا اور پھرعمران خان کا جلسہ میں وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی پر توتنقید کرنا مگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بات نہ کرنا اور پھر عمران خان کی تقریر پر ردعمل میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا یہ بیان آنا کہ عمران خان سندھ کے عوام کو جگانا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن کراچی جاگا ہوا ہے اس کے بعد گورنر پنجاب کی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے لندن میں ملاقات میں الطاف حسین کا دو سال کیلئے پاکستان میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کرنا، یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ تاہم سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں جماعتوں میں خاموش مفاہمت کب تک قاہم رہتی ہے۔
البتہ ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال نے حکومتی توجہ عوام کی طرف ضرور مبذول کروادی ہے بالآخر پیر کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے چار ایسے اہم فیصلے کئے ہیں جو براہ راست عوامی مفادات و خواہش سے متعلق ہیں۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک نے پریس کانفرنس میں ان فیصلوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔
اب تمام سرکاری اداروں میں خالی آسامیوں پر ملازمین کی بھرتیاں شروع ہوجائیں گی، جبکہ اجلاس میں وزیراعظم نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے اضافی رقم کی وصولی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کا آڈٹ کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کے تحت متاثر ہونے والے فی خاندان کو پچیس ، پچیس ہزار روپے عید سے قبل ادا کئے جائیں گے اور فصلوں، جائیداد ، مال مویشی پر ہونے والے نقصانات کامکمل جائزہ لیا جائے گا، ملازمین کی اجرت کو بارہ ہزار روپے مقرر کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان کی فوج میں چھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدے پر ترقی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ روانہ ہونے سے پہلے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے پیر کو ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف ایک روز بعد امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں وہ 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اہم خطاب کریں گے۔ لگ یہ رہا ہے کہ حالات واپس معمول پر آجائیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ حکومتیں اکثریت سے نہیں تدبر سے چلتی ہیں اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے آنے سے کسی حد تک فوج اور حکومت کے تعلقات بہتر ہوجائیں گے تاہم اس کا انحصار بڑی حد تک موجود حکومت کے تدبر اور حکمت پر ہی ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کا لگایا جانا کوئی ایسا حیران کن اور بلا جواز بھی نہیں رہا لیکن 1988 کے بعد پیش آنے والے واقعات نے بظاہر ثابت کیا کہ پاکستان میں منظم طریقے سے پولنگ سے قبل، پولنگ کے دن اور پولنگ کے بعد دھاندلی کی جاتی رہی ہے۔ 2013 میں ہونے والے انتخابات دھاندلی کے اعتبار سے گزشتہ انتخابات سے بالکل مختلف ہیں جس میں ہارنے اور جیتنے والی تمام جماعتیں دھاندلی کے الزمات لگا رہی ہیں اور رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جائزہ رپورٹ نے پوری کردی ہے جو ایک ویب سائٹ پر پیش کی گئی، جس میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انتخابات میں آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق درست طریقے سے نہیں ہو سکا ہے۔
سولہ رکنی کمیٹی طرف سے انتخابات سے متعلق تیار کردہ اس جائزہ رپورٹ کو اگرچہ کافی عرصہ قبل تیار کیا جا چکا تھا مگر اس رپورٹ کو جاری اب کیا گیا ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے 62 اور 63 کا اطلاق کرتا رہا ،انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کیلئے کم وقت ملنے کے باعث انتخابی امیدواروں کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیر کلیئر کر دیا گیا، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، نادرا اور نیب نے بھی مکمل تعاون نہیں کیا الیکشن کمیشن میں قائم سکروٹنی سیل بھی صحیح طریقے سے کام نہ کر سکا۔
یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم بھی ناکام رہا اور چھپائی میں تاخیر کے باعث بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز دیر سے پہنچے اور بڑی تعداد میں ریٹرننگ افسران نے ہاتھ سے بنائے ہوئے نتائج الیکشن کمیشن بھیجے جبکہ فارم 16 میں نقائص کے باعث ریٹرننگ افسران مذکورہ فارم خود بناتے رہے، پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کے اضافے کے فیصلہ سے ابہام پیدا ہوا، یوں معلوم ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کو اس رپورٹ کی فائنڈنگ بارے ادراک ہو چکا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے جو الزامات عائد کئے جا رہے تھے، وہ رپورٹ میں کئے جانے والے انکشافات سے ملتے جلتے ہی ہیں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کی آوازیں اٹھنا ہی موجودہ سیاسی بحران کی وجہ بنی ہیں۔
انہی الزامات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا اور اس مقصد میں پاکستان عوامی تحریک نے دست و بازوکا کردار ادا کیا۔ اگر عوامی تحریک آج ڈی چوک پر اس طرح منظم اور پُرعزم انداز میں موجود نہ ہوتی تو شائد عمران خان کے سیاسی غُبارے سے کب کی ہوا نکل چُکی ہوتی کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں جتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرکے خود کوووٹرز کی تعداد کے حوالے سے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کروایا تھا، لانگ مارچ اور دھرنے اس کے لئے بڑا دھچکے کا باعث بنے کیونکہ دھرنے کے شرکاء کی تعداد انتخابی نتائج کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کے شایان شان نہیں ہے۔
اس سے زیادہ لوگ گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے شرکاء کی تھی اس میں کوئی شک نہیں کراچی کے جلسے نے تحریک انصاف کی قیادت کو حوصلہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 28 ستمبر کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ تحریک انصاف حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد اپنی چالیس دن کی کوششوں کو بے ثمر ہونے سے بچانے کیلئے اس کا رُخ اپنی جماعت کو مضبوط اور متحرک بنانے کی طرف موڑنا چاہتی ہے اسی لئے ملک بھر میں جماعت کو متحرک بنانے کیلئے اس قسم کی سرگرمیاں تمام بڑے شہروں میں شروع کردی جائیں۔
ایسی سرگرمیوں سے جہاں ایک طرف حکومت پر دباؤ بڑھے گا تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت کا ووٹ بینک اگر بڑھتا نہیں تو کم نہیں ہوگا۔ بعض حلقوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ق)،عوامی مسلم لیگ ،عوامی تحریک ،متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر چند چھوٹی موٹی دینی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نیا اتحادبنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان پس پردہ رابطوں کے سبب خاموش مفاہمت بھی ہوگئی ہے اور ایم کیو ایم و پی ٹی آئی کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ بہتر بنانے میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہی سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اتوار کو عمران خان کی کراچی آمد سے قبل ایم کیو ایم کا اہم بیان جاری ہوا جس میں ان کو کراچی میں جلسہ کرنے پر خوش آمدید کہا گیا اور پھرعمران خان کا جلسہ میں وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی پر توتنقید کرنا مگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بات نہ کرنا اور پھر عمران خان کی تقریر پر ردعمل میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا یہ بیان آنا کہ عمران خان سندھ کے عوام کو جگانا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن کراچی جاگا ہوا ہے اس کے بعد گورنر پنجاب کی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے لندن میں ملاقات میں الطاف حسین کا دو سال کیلئے پاکستان میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کرنا، یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ تاہم سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں جماعتوں میں خاموش مفاہمت کب تک قاہم رہتی ہے۔
البتہ ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال نے حکومتی توجہ عوام کی طرف ضرور مبذول کروادی ہے بالآخر پیر کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے چار ایسے اہم فیصلے کئے ہیں جو براہ راست عوامی مفادات و خواہش سے متعلق ہیں۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر مصدق ملک نے پریس کانفرنس میں ان فیصلوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔
اب تمام سرکاری اداروں میں خالی آسامیوں پر ملازمین کی بھرتیاں شروع ہوجائیں گی، جبکہ اجلاس میں وزیراعظم نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے اضافی رقم کی وصولی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کا آڈٹ کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کے تحت متاثر ہونے والے فی خاندان کو پچیس ، پچیس ہزار روپے عید سے قبل ادا کئے جائیں گے اور فصلوں، جائیداد ، مال مویشی پر ہونے والے نقصانات کامکمل جائزہ لیا جائے گا، ملازمین کی اجرت کو بارہ ہزار روپے مقرر کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان کی فوج میں چھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدے پر ترقی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ روانہ ہونے سے پہلے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے پیر کو ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف ایک روز بعد امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں وہ 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اہم خطاب کریں گے۔ لگ یہ رہا ہے کہ حالات واپس معمول پر آجائیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ حکومتیں اکثریت سے نہیں تدبر سے چلتی ہیں اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے آنے سے کسی حد تک فوج اور حکومت کے تعلقات بہتر ہوجائیں گے تاہم اس کا انحصار بڑی حد تک موجود حکومت کے تدبر اور حکمت پر ہی ہوگا۔