آواز خلق اور نقارۂ خدا
تاریخ کے بارے میں سب سے بڑا المیہ یہ بھی رہا کہ لوگ اس سے سبق حاصل نہیں کرتے ....
ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کے بے تحاشہ فوائد ہیں۔ مگر ان کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگوں کو سیاست جیسی پیچیدہ شے کو بہت سطحی انداز میں دیکھنے کی عادت بھی ڈال دی ہے۔ چیک زبان کا ایک ناول نگار ہے میلان کندیرا۔ وہ اپنے ملک میں کمیونزم کے نام پر مسلط آمریت کا بہت بڑا نقاد تھا۔ اپنے ''باغیانہ'' خیالات کی وجہ سے اسے کئی برسوں تک جلاوطنی کے عذاب سہنا پڑے۔ اس نے اپنے ایک شاہکار ناول میں نہایت خوب صورتی سے میرے جیسے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ اقتدار کا کھیل کھیلنے والے اپنے مقاصد میں اکثر کامیاب بنیادی طور پر اس وجہ سے ہو جایا کرتے ہیں کہ خلقِ خدا کو بھول جانے کی عادت ہوتی ہے۔ اس کی بے پناہ اکثریت صرف حال میں زندہ رہنا چاہتی ہے۔
تاریخ کے بارے میں سب سے بڑا المیہ یہ بھی رہا کہ لوگ اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد کئی دانشوروں نے تو بلکہ ''تاریخ کی موت'' کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ ان کی نظر میں عالمی جنگوں کے بعد کی ''تاریخ'' دراصل سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ نظاموں میں کش مکش پر مبنی تھی۔ بالآخر سوویت یونین اور اس کی بنائی EMPIRE شکست کھا کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ پوری دُنیا نے مارکیٹ اکانومی کی برتری تسلیم کر لی۔ ملکوں کے اب محض نام باقی رہ گئے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے۔ آپ اس کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں۔ آپ کو wifi ملے گا۔ کھانے کو چند مشہور عالمی برانڈ کے بنائے ہوئے برگر اور پینے کو ایسے ہی مختلف النوع کولا وغیرہ۔ جینز دُنیا بھر میں مقبول ترین لباس ہے۔
فی الوقت مگر ''عالمی گاؤں'' کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے کے بجائے میں کندیرا کے اس دعویٰ پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہوں کہ خلقِ خدا کی اکثریت کو بھول جانے کی عادت ہوتی ہے اور اقتدار کے بچاری سیاست دان عام انسانوں کی اس عادت کا سفاکانہ انداز میں فائدہ اٹھایا کرتے ہیں۔ میری بات پسند نہ آئے تو ان دنوں ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر کئی ہفتوں سے برپا انقلابی تماشوں پر ریموٹ ہاتھ میں لے کر غور فرمانا شروع کر دیں۔ ہمیں شدت اور تواتر کے ساتھ یہ بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ 30 برسوں سے باریاں لینے والے ''نااہل اور بدعنوان'' سیاستدانوں کے دن پورے ہو گئے ہیں۔ اب نوجوان نسل کے جذبوں بھری توانائی کی بدولت نیا پاکستان بنایا جا رہا ہے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اس نئے پاکستان کے بنیادی معمار ہیں۔ ملک بنانا اور اسے سنوارنا تو کافی بڑا کام ہے۔ آج کل ڈھنگ کا کوئی گھر بھی صرف ایک معمار کے ذریعے تعمیر کرنا ممکن نہیں رہا۔ کوئی اس کا نقشہ بناتا ہے۔ ایک اور شخص اس کی تعمیر کا ٹھیکہ لاتا ہے۔ پھر وہ مستری اور مزدور ڈھونڈتا ہے۔ وہ اپنا کام مکمل کر لیتے ہیں تو لکڑی اور بجلی کے کام کے لیے دیگر ہنر مندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سینٹری کے سامان اور اس کے استعمال کے لیے اور طرح کے کاریگروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مکان کی تعمیر مکمل ہو جائے تو انٹریئر ڈیکوریٹرز وغیرہ آن ٹپکتے ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر قادری صاحب کو فی الحال نظر انداز کرتے ہوئے ہم ان دونوں کے دائیں بائیں کھڑے ہنر مندوں پر نگاہ ڈالنے پر مجبور ہیں۔ جس آزادی یا انقلاب کے لیے ان دنوں جدوجہد ہو رہی ہے اس کے اصل مفکر اپنے لال حویلی کے شیخ رشید صاحب ہیں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں یہ راولپنڈی کے کونسلر بنے اور اس شہر کے ایک مشہور اخبار کے صفحہ نمبر 2 کے لیے چٹکلے دار کہانیاں فراہم کرتے رہے۔ پھر آئے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات۔ موصوف ان کے ذریعے قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد کئی مہینوں تک سید فخر امام اور سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ مل کر اپوزیشن - اپوزیشن کھیلتے رہے۔ پھر دریافت کیا کہ حکومتی سرپرستی میسر نہ ہوئی تو اپنا ''حلقہ'' مضبوط نہ بنا پائیں گے۔ چوہدری خاندان سے تعلقات کے سبب پہلے نواز شریف اور پھر جنرل ضیا کے قریب ہو گئے۔
اسی قربت نے انھیں 1988 میں جنرل ٹکا خان کو ہرانے کی طاقت حاصل کی۔ محترمہ کو ان انتخابات کے بعد اسلام آباد تو ملا مگر تخت لہور نہیں۔ 1988 میں یہ تخت میاں صاحب ہی کے پاس رہا۔ میاں صاحب کو ان کے سرپرستوں نے سمجھایا کہ محترمہ ''سیکیورٹی رسک'' ہوا کرتی ہیں۔ جذبہ حب الوطنی کی حدت سے مجبور ہو کر پنجاب کے وزیر اعلیٰ پاکستان کی وزیر اعظم کے خلاف ڈٹ گئے۔ شیخ صاحب نے ان دنوں اس جہاد میں ایک جارح آل راؤنڈر کا کردار ادا کیا۔ محترمہ فارغ ہوئیں تو نئے انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب کے وزیر اطلاعات بن گئے۔ 1999 تک وہ ان کے دل و جان سے شیدائی رہے۔
بالآخر ہو گیا 12 اکتوبر 1999۔ شیخ صاحب کچھ دن تو کونے میں دب کر بیٹھے رہے۔ احتساب وغیرہ کا ڈر تھا۔ مگر راولپنڈی کے ایک خاکسار رہنما ہوا کرتے تھے اشرف خان ان کا نام تھا۔ مجھے خبر نہیں پنڈی والے انھیں اشرف سینڈو کیوں پکارا کرتے تھے۔ بہرحال ان صاحب کے ایک بیٹے جنرل مشرف کے معتمد میں سرفہرست ہوا کرتے تھے۔ موصوف نے ان سے گئے دنوں کے حوالے سے روابط استوار کیے اور ربّ کریم نے رونق لگا دی۔ 1985 سے کسی نہ کسی صورت پاکستانی سیاست دانوں کی صف اوّل میں موجود ان شیخ صاحب کو جب ''مفکرِ نیا پاکستان'' مان لیا جائے تو کندیرا بہت یاد آتا ہے۔ کندیرا مجھے شاہ محمود قریشی صاحب بھی اکثر یاد دلاتے رہتے ہیں۔ جہانگیر ترین کا ذکر چھڑے تو سمجھ نہیں آتی ابتداء کہاں سے کروں۔ ان جیسے بہت سے لوگ ہیں جو نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں گزشتہ 30 سالوں سے اقتدار میں ''باریاں'' لانے والے حضرات یا تو احتسابی عمل کی بدولت جیل میں ہوں گے یا اپنی جان اور ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت بچانے'' کی خاطر اس ملک سے فرار۔
قادری صاحب کے دائیں بائیں مجھے غلام مصطفیٰ کھر اور سردار آصف احمد علی بھی اکثر موجود نظر آتے ہیں۔ کھر صاحب کو اس وقت سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں جب وہ بھٹو کے ''شیر پنجاب'' ہوا کرتے تھے۔ سردار آصف احمد علی کے ساتھ بھی مراسم 1985سے شروع ہوئے اور باہمی عزت و احترام ہم دونوں میں اب بھی برقرار ہے۔ ''پرانے پاکستان'' سے وابستہ چونکہ میں اب ایک ''لفافہ صحافی'' بن چکا ہوں اس لیے روایتی منافقت سے کام لیتے ہوئے کھر صاحب اور سردار آصف احمد علی کے بارے میں خاموش رہنا مناسب سمجھتا ہوں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ میں اگر ان کے بارے میں آئیں، بائیں، شائیں کرتا بھی رہوں تو ہمارے پڑھے لکھے اور جذبوں کی توانائی سے مالامال نوجوانوں کی اکثریت ان حضرات کو نئے اور انقلابی پاکستان کے قیام میں پُر خلوص جدوجہد کرتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ آواز خلق کو نقارئہ خدا ماننے کا حکم ہے۔ میں اس حکم کے آگے اپنے سر کو جھکانے پر مجبور ہوں۔