روشن خیالی کا قتل

ڈاکٹر شکیل اوج محنتی آدمی تھے، اپنی زندگی خود بنانے پر یقین رکھتے تھے۔ کچھ عرصے نیوی اکاؤنٹس میں کام کیا۔ ....


Dr Tauseef Ahmed Khan September 24, 2014
[email protected]

ڈاکٹر شکیل اوج کا شمار روشن خیال اساتذہ میں ہوتا تھا۔ ان کا قتل علمی آزادی اور روشن خیالی کا قتل ہے۔ شکیل اوج کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ وہ کراچی کی شاہ فیصل کالونی بلاک نمبر 3 کے ایک چھوٹے سے مکان میں پیدا ہوئے اور ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے اور ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں کم عمری میں ہی اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ وہ زندہ رہتے تو یقیناً وائس چانسلر یا اس سے بڑے عہدے پر فائز ہوتے ۔

انھیں چند ماہ قبل یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین ڈگری ڈی لیٹ عطا کی گئی۔ صدرِ پاکستان نے ان کی علمی اور تعلیمی خدمات پر ستارئہ امتیاز دینے کا فیصلہ کیا۔ 23 مارچ 2015ء کو ڈاکٹر شکیل اوج کو یہ ایوارڈ دیا جانا تھا۔ شکیل اوج نے ابتدائی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔ انھوں نے معروف عالم اور محقق ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کے مرکز عالم اسلامی سے فقہ اور حدیث کی سند حاصل کی۔ انھوں نے اسلامیات میں ایم اے کر نے کے ساتھ صحافت میں بھی ایم اے کی ڈگری لی۔

ڈاکٹر شکیل اوج محنتی آدمی تھے، اپنی زندگی خود بنانے پر یقین رکھتے تھے۔ کچھ عرصے نیوی اکاؤنٹس میں کام کیا۔ پھر طبیعت نہیں لگی تو کراچی سے شایع ہونے والے ایک اخبار'' امن'' میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔جب اردو کالج میں ایم اے اسلامیات میں داخلہ لیا تو بعض اساتذہ ڈاکٹر شکیل کے مطالعے، تحقیق کی جستجو اور خیالات کے تیز بہاؤ کے اظہار سے اپنی علمیت کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے مگر شکیل اوج کو ان کی قابلیت کی بناء پر انھیں پہلی پوزیشن دینے پر مجبور ہوئے ۔

ڈاکٹر شکیل اوج کو اردو کالج میں لیکچرار کے عہدے کی پیشکش ہوئی ، یوں وہ اپنی قابلیت کی بناء پر استاد کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے محض چند مضامین کی تدریس پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ مختلف موضوعات پر تحقیق شروع کردی۔ جامعہ کراچی میں لیکچرار کے انٹرویو کے لیے ایک جامع سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس وقت کے شعبہ اسلامیات کے چیئرپرسن کی مخالفت کے باوجود انھیں کلیہ اسلامیات کے فیکلٹی رکن کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر اختر سعید صدیقی کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔

ڈاکٹر اخترسعید صدیقی ہمیشہ اپنے کلیہ میں راندہ درگاہ رہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے 8کتابیں اور 103 کے قریب ریسرچ آرٹیکلز تحریر کیے۔ ان کے زیرِ نگرانی تحقیقی رسالہ التفسیر باقاعدہ شایع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اوج کی تحقیق ہی انھیں سب سے نمایاں کرگئی مگر روایتی خیالات سے روگردانی کی سزا انھیں ان دوگولیوں کی صورت میں ملی جو ایک نوجوان نے موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہوئے عقب سے تیز رفتاری سے جاتی ہوئی اس کار کے عقبی شیشے کو عبور کرتے ہوئے تین افراد کے درمیان بیٹھے ہوئے ڈاکٹر شکیل اوج کے دماغ کے قریب پیوست کردی ۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی تحقیق کے ذریعے مروجہ نظریات کو چیلنج کردیا تھا۔ وہ فرقہ واریت کے شدید خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ علمائے کرام کی محدود سوچ اور رجعت پسندانہ طرزِ عمل فرقہ وارانہ کشیدگی کو تقویت دے رہا ہے۔ وہ نہ صرف مختلف فرقوں کے علماء بلکہ مختلف مذاہب کے ماہرین او رعلماء کے درمیان بھی مکالمے کی کوشش کررہے تھے۔

ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا تھا کہ طالبانائزیشن تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے اور طالبان کے نظریات کا اسلام سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ انھوں نے خودکش حملوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے کئی مضامین لکھے۔ وہ مختلف چینلز کے ٹاک شوز میں بلاخوف و خطر اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ خودکش حملوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے فقہ کے بنیادی معاملات پر دقیق تحقیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں عورت پر اپنا چہرہ چھپانے کی پابندی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن اور حدیث کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ عورت چہرہ چھپائے بغیر زندگی کے معاملات ادا کرسکتی ہے۔

اسی طرح انھوں نے طلاق کے معاملے پر اپنے آبائی فرقے کے مؤقف سے انحراف کرنے والے ایک اور زاویے کی توثیق کی تھی۔ انھوں نے مسیار کی اصطلاح پر بھی تحقیق کی تھی۔ ڈاکٹر پروفیسر شکیل اوج کی تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب النسایات دو سال قبل شایع ہوئی۔اس کتاب کے اجراء کی تقریب کراچی یونیورسٹی کے آرٹس آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی تھی۔ جو رجعت پسند ڈاکٹر شکیل اوج کی تحقیق کا تحقیق کے ذریعے جواب نہیں دے سکتے تھے انھوں نے اس کتاب کی تقریبِ اجراء کو روکنے کے لیے گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کردیا تھا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو دھمکی آمیز SMS بھیجے گئے، یوں یہ تقریب ملتوی ہوگئی۔ مگر ان کی کتاب علمی حلقوں میں مقبول ہوگئی۔ شکیل اوج علمی آزادی کے پیامبر تھے۔ وہ تمام معاملات اور مسائل پر آزادانہ بحث و مباحثے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی کلاس میں طالب علم آزادی سے سوال کرنے کا حق استعمال کرتے تھے۔

پروفیسر صاحب جدید دور کے تقاضوں کے تحت اسلام میں دیے گئے اجتہاد کے ادارہ کے ذریعے مسائل و معاملات کا حل تلاش کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اساتذہ کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے، اساتذہ کے حقوق ، یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں کی بالادستی اور یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد میں ہمیشہ شریک رہے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اساتذہ تدریس اور تحقیق کے بنیادی فرائض ایمانداری سے انجام دینے چاہئیںاور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اساتذہ کے حقوق اور علمی آزادی کے ادارے کے استحکام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ ان کی زیرِ نگرانی بہت سے طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ان طالب علموں کا کہنا ہے کہ پروفیسر صاحب ہمیشہ طالب علموں پر مکمل توجہ دیتے تھے اور بغیر کسی لالچ کے طلبہ کو پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے میں مدد دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی علم دوستی اور روشن خیالی ان کی موت کا سبب بن گئی۔ اگرچہ کراچی پولیس کے عہدیدار یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ قاتلوں کو گرفتار کرلیں گے مگر ڈاکٹر شکیل اوج کو جس منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک منظم گروہ اس جرم میں ملوث ہے جس میںماہر نشانہ باز قاتل شامل ہیں اور صبح 10 بجے کے قریب گلشنِ اقبال کی معروف شاہراہ پر قاتلوں کا اپنا ہدف بغیر کسی رکاوٹ کے پورا کر کے اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہونے کا مطلب کراچی میں ریاست کی عمل داری کے خاتمے کا ایک دفعہ پھر اعلان ہے۔ یہ اموات کا شہر ہے ۔

کراچی میں محسوس ہوتا ہے کہ قاتلوں کا گروہ با شعور اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلاء اور پروفیشنلز کو قتل کر کے شہر کو بانجھ کررہا ہے۔ یہ صرف شکیل اوج کا قتل نہیں بلکہ ہر باشعور فرد کا قتل ہے مگر قاتلوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شکیل اوج کے قتل سے روشن خیالی کی تحریک کو مزید جلا ملی ہے، ہر باشعور فرد موت کو گلے سے لگانے کے لیے تیار ہے۔ کیا معاشرے کو بچانے کے لیے ریاست حرکت میں آئے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔