دو مسئلے انتخاب اور امداد
ہری بھری کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ کسانوں کا صرف کاشت کا نقصان نہیں ہوا بلکہ مکانات اور جمع شدہ...
CHICAGO:
گئے ہفتے دو خبریں سرسری طور پر سننے میں آئیں جن کی بظاہر کوئی اہمیت نظر نہیں آتی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سیاسی کیمسٹری میں بھی دو یا کم و بیش عناصر ملنے پر نئی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اپنے اصل سے مشابہہ نظر نہیں آتی۔ گویا ایک نئی ہیئت ہوتی ہے جسے پانی کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس گڈمڈ ہو کر پانی بن گئیں جن کا گیس سے کوئی علاقہ ہی نظر نہیں آتا۔
کچھ ایسا ہی اب حوالہ دی ہوئی خبریں شکل اختیار کر لیں گی۔ ایک تو بہت عام سی بات ہے کہ جاوید ہاشمی اپنی چھوڑی ہوئی نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے دوبارہ انتخاب میں حصہ لیں گے جاوید ہاشمی کی شخصیت کا تجزیہ یا تحلیل نفسی ہمارا مقصود نہیں ہے۔ ہم تو ان کے سیاسی اقدام کے اثرات کی چھان پھٹک کریں گے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ واقعہ کس حد تک سیاسی شدت کے طور پر اثرانداز ہو کر نئی شکل اختیار کرے گا۔
ایک ایسے مسئلے پر جب تحریک انصاف ایک کٹھن مرحلے سے گزر رہی ہے جاوید ہاشمی کا اختلاف کر کے قومی اسمبلی میں تقریر کے بعد جماعت سے استعفیٰ دینا، ایسا بھرپور وار ہے کہ جس سے تحریک انصاف کے مخالفین کو فائدہ پہنچا ہی پہنچا لیکن تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا۔ ایک جو راستہ ہے وہ جاوید ہاشمی کو انتخاب میں ہرا کر دوسرے امیدوار کو جتانے سے ہو سکتا ہے جس سے کچھ آنسو پونچھ جائیں گے مگر ایسا ہونا ایک معجزے سے کم نہیں ہو گا کیونکہ پنجاب کی حکومت جاوید ہاشمی کی حامی ہو گی۔
اس انتخاب سے مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے فاصلے سیاسی طور پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے وجود کے بارے میں اختلافات زیادہ بڑھ جائیں گے گویا یا تم نہیں یا ہم نہیں والی دشمنی ابھر کر آئے گی یہ اس لیے ہو گا کہ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کی نظر میں منحرف ہیں حالانکہ سیاسی طور پر یہ اختلاف کا شاخسانہ ہے یا اناؤں کا تصادم۔ دنیا کا اصول ہے غدار کو جو پناہ دیتا ہے اس سے بھی دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔
جاوید ہاشمی کا اختلاف کرنا اور تحریک انصاف سے قطع تعلق یقینا سیاسی عمل تھا لیکن چھوڑی ہوئی اپنی ہی سیٹ پر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینا دراصل تحریک انصاف کو چیلنج کرنا یا للکارنا ہو گا کہ میں نہیں بلکہ پورا حلقہ انتخاب خلاف ہو گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے اس خبر کو سرسری طور پر لے کر کسی رد عمل کی ضرورت کو اجاگر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اب انتخابات ہی فیصلہ کریں گے کہ بظاہر چھوٹا سا عمل کتنے گہرے سیاسی اثرات چھوڑتا ہے۔
اوپر جن دو خبروں کا اشارہ تھا ان میں جاوید ہاشمی کی خبر کے بعد دوسری خبر کسی قدر پیچیدہ اور گہری خبر ہے کہ کابینہ نے سیلاب سے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے غیر ملکی امداد کی پیشکش اگر ہوئی تو اسے نظر انداز کر دیا جائے گا کی پالیسی بنائی ہے۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ نے اس قدرتی آفت یعنی سیلاب کے مقابلے میں غیروں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرنا طے کیا ہے۔ ایسا جرأت مندانہ قدم اٹھانے پر غور کرنے سے قبل ہم سیلاب کی اس افتاد پر نظر ڈالیں کہ جس میں بڑی تباہ کاری سے بچنے کے لیے مختلف مقامات پر بند توڑے گئے جس سے پانی کا زور ٹوٹا۔
ہری بھری کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ کسانوں کا صرف کاشت کا نقصان نہیں ہوا بلکہ مکانات اور جمع شدہ پونجی بھی بہہ گئیں۔ یہ 2010ء کے بعد کا سیلاب ہے جس نے پھر دیہات اور فصلوں کو اجاڑ دیا۔ پانچ سو سے زیادہ افراد سیلاب میں بہہ کر ڈوب گئے۔ زندہ بچ جانے والے لواحقین کے پاس مرنے والوں کے لیے آنسو اور آہیں رہ گئیں۔ اتنے بڑے قومی سانحے پر نواز شریف اور ان کی کابینہ نے جو رومانوی غیرت اور خود انحصاری کا سبق دہرایا ہے وہ قابل تحسین تو ہے لیکن ناقابل فہم بھی ہے۔
امریکا سے تو امداد کی پیشکش آ ہی چکی تھی اس سے پہلے بھارت نے بھی آزاد کشمیر کے حوالے سے ہی مدد کی بات اٹھائی تھی جسے نواز حکومت نے بجا طور پر مسترد کر دیا تھا۔ دیگر دوست ممالک یقینا پاکستان کی دست گیری کرتے جس کے نتیجے میں ساٹھ فی صد امداد اگر کرپشن کی نظر ہو جاتی تو چالیس فی صد مدد کم سے کم عوام تک پہنچ جاتی۔ مثال کے طور پر حکومت سے متاثرین کو اگر سو روپے کی مدد ملنے والی ہے تو بیرونی امداد ملا کر ایک سو تیس روپے ہو جاتی لیکن حکومت نے خودی کا جو مظاہرہ کیا ہے اس پر ایک شعر یاد آ گیا:
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
لطف کی بات یہ ہے کہ قرضے حاصل کرنے کے لیے شرطیں بھی مانی جاتی ہیں اور خوشامدیں بھی ہوتی ہیں لیکن رضاکارانہ امداد لینے سے پہلی بار انکار کر دیا گیا۔ اس صورتحال کا اگر تجزیہ کریں تو پہلا نکتہ یہی سامنے آتا ہے کہ حکومت اپنی قوم اور دیگر اقوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے یا ثابت کر رہی ہے کہ معاشی طور پر وہ اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اپنے مسائل اپنے ذرایع سے حل کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔
اس کے کیا اثرات ہوں گے یہ تحقیق طلب ہے ہو سکتا ہے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رجحان بڑھے کیونکہ پیغام میں خود انحصاری کا پہلو شامل ہے یا دوسرا نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ دھرنا دینے والوں کو یہ تاثر نہیں دینا ہے کہ غیر ملکی امداد لے کر قومی وقار کو نقصان پہنچایا گیا۔ جسے دھرنے والے مختلف رنگ سے موضوع سخن بنا لیتے۔ اگر یہ پہلو مان لیا جائے تو یہ بات بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے کہ اپنی انا کے لیے قوم کے حق میں آنے والی مدد کو ٹھکرا دیا جائے۔ یا ایک پہلو اور بھی ہے کہ شاید حکومت کو اندازہ ہے کہ بات بھی کھوٹی التجا کرنے والی بات نہ ہو جائے۔
اگر امداد کے لیے اپیل بھی کی جائے تو گنتی کے دو چار ملک تیار ہوں گے بین الاقوامی برادری میں کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی جائے گی اور مدد دینے والے بھی امداد کی تقسیم سے متعلق شرطیں لگا سکتے جس سے حکومت کی ساکھ پر اثر پڑتا اس لیے بھی اس مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
حکومت کے اس اقدام پر بھی گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے جب سیلاب ختم ہو کر بحالی کا کام شروع ہو گا تو دھینگا مشتی اور شکایتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا۔ چھوٹے پیمانے پر لپاڈگی بڑھ جائے گی حکومت کے خلاف تنفر پھیلے گا۔ بڑی انارکی کی جو تیاریاں ہو رہی ہیں اس میں یہ مسئلہ مددگار بن جائے گا کہ عوام کو صحیح ریلیف نہیں مل رہی سیاسی استحکام کی منزل تو دور ہے حکومت کی بنیادوں پر بھی ضرب کاری لگے گی۔