آزاد امداد باہمی کا سماج

ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے۔ حسد تھا، کینہ تھا اور نہ بغض۔ محبتوں، خوشیوں اور...

zb0322-2284142@gmail.com

ریاست کیوں جبر کا ادارہ ہے؟ اس لیے کہ ریاست وجود میں آنے سے قبل طبقات نہیں تھے۔ جب نجی ملکیت وجود میں آئی اور کچھ لوگ صاحب جائیداد بنے اور باقی لوگ بے جائیداد، تو صاحب جائیداد طبقات کی دولت کی حفاظت کے لیے ریاست وجود میں آئی۔ 300 سال قبل از مسیح اشتمالی دانشور باؤ جینگ جیانگ نے کہا تھا کہ ''چین میں 6 ہزار سال تک جنت نظیر سماج قائم تھا، جہاں لوگ پانی سے مچھلی پکڑتے اور درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے تھے۔

سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا تھا۔ ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے۔ حسد تھا، کینہ تھا اور نہ بغض۔ محبتوں، خوشیوں اور عشرتوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے، رات کو پھلوں کے مشروبات پیتے اور اپنے لطیف جذبات اور خیالات پر بحث کرتے۔ اس سماج کو مقا می لوگ 'بلیو ہیوّن' (یعنی نیلی جنت) کہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں کچھ فرمانروا جنت میں آئے اور آئین و قوانین نافذ کر کے کہا کہ یہاں جانا ہے، وہاں نہیں جانا ہے، یہ کھانا ہے اور وہ نہیں کھانا ہے، اس سے ملنا ہے اور اس سے نہیں ملنا ہے۔

اس دن سے ان کی نیلی جنت کا خاتمہ ہو گیا''۔ مقامی لوگ خواہ کچھ بھی کہیں، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت بے ریاستی آزاد امداد باہمی کا سماج قائم تھا، جس کا ریاست کے وجود میں آنے سے اور طبقاتی سماج کی تشکیل کی وجہ سے خاتمہ ہو گیا۔ نجی ملکیت اس وقت وجود میں آئی جب کسی شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ زمین میری ہے۔ کروپوتکن کہتا ہے کہ 'یہ کتنا اچھا ہوتا کہ اگر کوئی شخص اس وقت مدمقابل آ جاتا، زمین کے اس گڑھے کو مٹی سے پر کر دیتا اور پگڈنڈیوں کو توڑ کر برابر کر دیتا اور کہتا کہ یہ زمین اور چیزیں ہم سب کی ہیں، تو پھر آج دنیا کی شکل کچھ اور ہی ہوتی۔ طبقاتی نظام اور ریاست کے بجائے اجتماعی سماج ہی رہتا۔ غلامی کو بے چوں و چرا قبول کر لینے سے ہی طبقات کو تقویت ملی۔

جب سماج کی مزید ترقی ہوئی تو قبیلوں نے اپنے علاقوں کی دولت کو محفوظ رکھنے کے لیے (جس کے مالک قبیلے والے نہیں بلکہ قبیلوں کے سردار ہوتے تھے) علاقوں کی سرحدوں پہ محافظ مقرر کیے۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف قومی ریاستوں نے اسلحے کا انبار جمع کر لیا۔ ریاست کے چار بڑے ستون فوج، اسمبلی، عدلیہ اور میڈیا ہیں۔ اگر ان کا جائزہ لیں تو دنیا کے سارے ممالک کے اسمبلی ارکان کی موٹی موٹی تنخواہوں کے علاوہ لوٹ مار کے ذریعے دولت کا انبار جمع کر لیتے ہیں۔ جب لوٹ مار انتہا کو پہنچ کر بے نقاب ہو جاتی ہے تو پھر حکمران اپنی اسمبلی اور حکمرانی کو جاری رکھنے کے لیے چند ایک پر مقدمات چلاتے ہیں۔ بھلا کون غریب آدمی اسمبلی میں پہنچ سکتا ہے۔

اسمبلی ارکان تو پہلے ہی سے دولت مند ہوتے ہیں اور مزید اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، جب کہ یہی لوگ بھوکے، ننگے، بے گھر اور لاعلاج لوگوں کے نمایندے اور خدمت گار کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کے لیے عدلیہ بھی وجود میں آئی۔ 16 ویں صدی کا ذہین دانشور، شا عر، ادیب اور فلسفی 'سولونو' کہتا ہے کہ 'قا نون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے'۔ بھلا پاکستان کی سپریم کورٹ میں کوئی مزدور یا کسان کیسے جا سکتا ہے؟ یہاں وکیل کی فیس ہی لاکھوں کروڑوں کی ہوتی ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو وہ دولت مندوں کی ہی خبر چھاپتا اور نشر کرتا ہے۔


محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی اور جرات مندانہ اقدامات کی خبریں یا تو دیتا ہی نہیں یا پھر دیتا بھی ہے تو جھلکیوں میں ۔ جیسا کہ 'وال اسٹریٹ قبضہ تحریک' 88 ملکوں کے 900 شہروں میں چلی، مگر صرف اس کی جھلکی دکھائی گئی۔ فلسطینیوں پر جب اسرائیلی حکومت بمباری کر رہی تھی تو اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی نے جو مظاہرے کیے اسے کسی چینل نے نہیں دکھایا۔ جب کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، اس لیے کہ 77 لاکھ کی آبادی میں 3 لاکھ کے مظاہرے تھے۔

یوکراین کی کمیونسٹ پارٹی نے گزشتہ انتخاب میں 26 لاکھ ووٹ لیے اور اب یوکراین کی فاشسٹ حکومت کمیونسٹوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے، ان کے دفتروں اور گھروں پر حملے کر رہی ہے، اس کی خبر کوئی بھی میڈیا نہیں دے رہا ہے۔ کروپوتکن کہتا ہے کہ 'بہترین طبیعت کے آدمی کو بھی اگر اختیار اور اقتدار مل جائے تو اس میں رعونت آ جا تی ہے۔ اس لیے انقلاب کے بعد فوراً ریاست کے خاتمے کا اعلان ناگزیر ہے اور اس کی جگہ پر خودکار، علاقائی اور پیشہ ورانہ کمیٹیاں معاشرے کا سارا کام انجام دیں گی، جو ریاست کرتی ہے۔ اگر وال اسٹریٹ کریش ہوتا ہے تو اس کے اثرات ہانگ کانگ اور سڈنی تک جاتے ہیں۔

اسی طرح محنت کشوں کی عالمی یکجہتی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نیویارک سے شروع ہو کر نیوزی لینڈ تک جا پہنچتی ہے۔ یہ تحریک تب جا کر کامیابی سے ہمکنار ہو گی جب عالمی مزدور طبقہ، شہری اور پیداواری کارکنان کی فکر اور جڑت میں زیادہ یکجہتی پیدا ہو گی۔ بجلی، ٹیلی فون، ریل، جہاز، اسٹاک ایکسچینج، فوج، زرعی اور دیگر اداروں کے محنت کش کام کرنا بند کر دیں تو عالمی طور پر سارا نظام ٹھپ ہو سکتا ہے۔ اور ایسے واقعات معلوم تاریخ میں 3 بار جزوی طور پر ہو چکے ہیں۔

جیسا کہ 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں کی حمایت میں ساری دنیا میں ہڑتال ہوئی۔ 1919ء میں سوویت یونین پر جب 20 سامراجی ملکوں نے حملہ کیا تو دنیا بھر کے محنت کش خاص کر گودی کے محنت کشوں کی ہڑتالوں، جس میں انھوں نے سامراجی ممالک کے اسلحے کی لوڈنگ، اَن لوڈنگ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے دوران ایسی ہی عالمی یکجہتی نظر آئی۔

جب عوام بھوک، افلاس، غربت، علاج، غذائی قلت، ذلت اور اذیت سے بلک اٹھیں گے تو عالمی کمیونسٹ یا پنچایتی یا امداد باہمی یا نسل انسانی کی برادری کا انقلاب برپا کر کے ملکوں کی سرحدوں کو توڑ دیں گے۔ پھر ساری دنیا کے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے۔ اس وقت دنیا کے 85 ارب پتی آدھی دنیا کے مالک ہیں اور دوسری جانب ساڑھے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

اگر انقلاب کے بعد ریاست کے وجود کو ختم نہیں کیا جاتا تو پھر سوویت یونین، چین، مشرقی یورپ، عرب ممالک اور ہند و چین کا جو حشر ہوا وہی ہو گا۔ اس لیے ریاستی انتظام سے ملکوں میں عوام کو دی جانے والی سہولتوں میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے مگر نا برابری مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی۔ وہاں پھر طبقات جنم لیں گے اور اس سے زیادہ جبر کی سرمایہ دارانہ ریاست وجود میں آ جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جہاں ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار اطراف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے اور لوگ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔
Load Next Story