پاکستان کوافغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ایکسپریس فورم
نومنتخب افغان حکومت بھی امریکاکی مرہون منت ہے، رہنما جماعت اسلامی حافظ سلیمان بٹ
افغانستان میں شراکت اقتدارکا نیا فارمولا مثبت تبدیلی ہے،اس فارمولے کے نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطے پرگہرے اثرات مرتب ہونگے،پاکستان کو سوچ سمجھ کرقدم اٹھانا ہوگا کیونکہ افغانستان میں استحکام ہی ہمارے قومی مفادمیں ہے۔
ان ملے جلے خیالات کااظہار مختلف سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں نے ''افغانستان میں شراکت داری کا نیا فارمولا اوراس کے خطے پر اثرات'' کے موضوع پرایکسپریس فورم میں کیا۔ مرکزی رہنماجماعت اسلامی حافظ سلیمان بٹ نے کہاکہ افغانستان میں نومنتخب حکومت بھی امریکاکی مرہون منت ہے، اس حکومت سے کسی ہمسایہ ملک کوکوئی فائدہ نہ ہوگا،اس کا فائدہ صرف امریکا کو ہے کہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے اور نیٹو فورسز کا انخلا آسان ہو جائے گا،اشرف غنی امریکا کے کہنے پر آگے آئے، پشتون قبیلے میں ان کی پوزیشن اچھی ہے لہذا وہ سب سے مذاکرات کریں گے۔
سیاف اور حکمت یارتو پہلے ہی اسمبلی میں موجود ہیں لیکن حقانی گروپ اورطالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کو فروغ دیا جائے گا، حکومت پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مرکزی رہنما اے این پی احسان وائیں نے کہا کہ افغانستان کی نومنتخب حکومت سے پاکستان اور سیاسی جماعتوں نے بہت زیادہ امیدیں وابسطہ کر رکھی ہیں جو کسی بھی طور پوری نہیں ہوسکتیں، اس وقت خطے کے جو حالات ہیں اس میں پاکستان کی فارن پالیسی بنانے والوں کا بھی قصور ہے،اس سال کے آخرمیں نیٹو فورسز کا انخلا ہوگاجس کے بعد خطے کے حالات مزید خراب ہونگے، اقتدار کیلیے جنگ و جدل ہوگی اور ہمیں ذہنی طور پر اس کیلیے تیار رہنا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر ) فاروق حمید نے کہا کہ رواں سال افغانستان میں ڈیولپمنٹ ہورہی ہے جن میں سے پہلی ڈیولپمنٹ شراکت اقتدار ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ پر امن انتقال اقتدار ہو رہاہے۔سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ افغانستان میں شراکت اقتدار ایک اچھی ڈیولپمنٹ ہے مگراس کے اچھے یا برے اثرات وقت کے ساتھ ظاہر ہونگے، اشرف غنی کا تعلق پشتون جبکہ عبداللہ عبداللہ کا تعلق تاجک قبیلے سے ہے، افغانستان میں شروع سے ہی قبائل میں خانہ جنگی رہی ہے بہرحال یہ ایک اچھی مثال قائم ہوئی ہے اوراس کا سہرا امریکاکے سر ہے۔
ان ملے جلے خیالات کااظہار مختلف سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں نے ''افغانستان میں شراکت داری کا نیا فارمولا اوراس کے خطے پر اثرات'' کے موضوع پرایکسپریس فورم میں کیا۔ مرکزی رہنماجماعت اسلامی حافظ سلیمان بٹ نے کہاکہ افغانستان میں نومنتخب حکومت بھی امریکاکی مرہون منت ہے، اس حکومت سے کسی ہمسایہ ملک کوکوئی فائدہ نہ ہوگا،اس کا فائدہ صرف امریکا کو ہے کہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے اور نیٹو فورسز کا انخلا آسان ہو جائے گا،اشرف غنی امریکا کے کہنے پر آگے آئے، پشتون قبیلے میں ان کی پوزیشن اچھی ہے لہذا وہ سب سے مذاکرات کریں گے۔
سیاف اور حکمت یارتو پہلے ہی اسمبلی میں موجود ہیں لیکن حقانی گروپ اورطالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کو فروغ دیا جائے گا، حکومت پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مرکزی رہنما اے این پی احسان وائیں نے کہا کہ افغانستان کی نومنتخب حکومت سے پاکستان اور سیاسی جماعتوں نے بہت زیادہ امیدیں وابسطہ کر رکھی ہیں جو کسی بھی طور پوری نہیں ہوسکتیں، اس وقت خطے کے جو حالات ہیں اس میں پاکستان کی فارن پالیسی بنانے والوں کا بھی قصور ہے،اس سال کے آخرمیں نیٹو فورسز کا انخلا ہوگاجس کے بعد خطے کے حالات مزید خراب ہونگے، اقتدار کیلیے جنگ و جدل ہوگی اور ہمیں ذہنی طور پر اس کیلیے تیار رہنا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر ) فاروق حمید نے کہا کہ رواں سال افغانستان میں ڈیولپمنٹ ہورہی ہے جن میں سے پہلی ڈیولپمنٹ شراکت اقتدار ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ پر امن انتقال اقتدار ہو رہاہے۔سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ افغانستان میں شراکت اقتدار ایک اچھی ڈیولپمنٹ ہے مگراس کے اچھے یا برے اثرات وقت کے ساتھ ظاہر ہونگے، اشرف غنی کا تعلق پشتون جبکہ عبداللہ عبداللہ کا تعلق تاجک قبیلے سے ہے، افغانستان میں شروع سے ہی قبائل میں خانہ جنگی رہی ہے بہرحال یہ ایک اچھی مثال قائم ہوئی ہے اوراس کا سہرا امریکاکے سر ہے۔