پاکستان ایک نظر میں تحریک انصاف سے میرا اختلاف

انقلاب کی آرزو ہرفرد کو ہےمگریہ جن لوگوں کے خلاف آنا چاہیے ان میں سے بہت سے کنٹینر پرخان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔

خان صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پنجاب کے علاوہ ہونے والی دھاندلی پر خاموشی، جاگیرداروں کو ساتھ ملانا مصلحت ہے تو پھر ایک منتخب پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو چار سال دینا ’’مصلحت‘‘ کیوں نہیں؟ پھر اس کے خلاف لشکرکشی کیوں؟ فوٹو: فائل

قائداعظم پاکستان کی واحد انتہائی غیر متنازع شخصیت ہیں۔ جنہیں ان کی ذات سے یا ان کی فکر سے اختلاف رہا، وہ بھی اس اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ان کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ بہت سے اختلافات کے باوجود ان کے مخالفین مانتے ہیں کہ ان کے دامن پر کرپشن، اقربا پروری، جھوٹ، خیانت سے جیسا کوئی الزام نہیں۔ اخلاص کا پیکر۔ ایک مقصد کی خاطر بہت کچھ داؤ پر لگادینے والا!!!

فرض کرتے ہیں کہ عمران خان کے دامن پر بھی کوئی داغ نہیں ہے۔ ان کی زندگی بھی ایک شفاف آئینے کی طرح ہے۔ انہوں نے بھی کبھی غیر ضروری مصلحت سے کام نہیں لیا۔ وہ بھی چور کو چور کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ہر ڈاکو ڈاکو ہی نظر آتا ہے۔ وہ کیسا ہی خوشنما لباس پہنے۔ چاہے وہ تحریک انصاف کی چھتری کے نیچے ہی کیوں پناہ نہ لیتا ہو۔ وہ واقعی ''اسٹیٹس کو'' کو نشانِ عبرت بنانے کی بھی علامت ہیں۔ وہ مردِ میدان بھی ہیں۔ وہ جو کچھ نہیں ہیں، وہ بھی ہیں۔ قصہ مختصر!!! وہ قائداعظم ثانی ہیں۔

لیکن فرض کریں عمران خان قائداعظم کی طرح جیت جائیں۔ وہ پرانے پاکستان کو ڈھاکر ''نیا پاکستان'' بنادیں۔ واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آجائیں اور اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں، تب کیا شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، خورشید محمود قصوری، شیریں مزاری، پرویز خٹک۔۔۔ وغیرہ وغیرہ انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے دیں گے؟ ان کے دائیں بائیں وہ لوگ جو انہیں 62، 63 کی سولی پر لٹکانے کی ہر وقت جستجو کرتے ہیں، کیا ان کے ہوتے ہوئے خان صاحب کچھ کرسکیں گے؟

کیا عمران خان کے ساتھ وہی نہیں ہوگا جو ظلم قائداعظم کے ساتھ ہوا؟ انگریز قائد اعظم کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ قائد نے انہیں بہت کچھ دُکھ دیے۔ لیکن خود قائد کو سب سے زیادہ دُکھ اپنے ساتھیوں کے سہنے پڑے۔ مزاحمت اور مایوسی اپنے ان ساتھیوں سے ہوئی جو محض اپنی چوہدراہٹ اور جاگیرداری کا بھرم قائم رکھنے کے لیے قافلے میں شامل ہوئے تھے اور جنہیں قائداعظم اپنی زندگی میں ''کھوٹے سکے'' قرار دے چکے۔ قائداعظم کی پراسرار موت انہی خون چوسوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔


سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان قائداعظم سے زیادہ ٹیلنٹڈ ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے؟ عمران خان کا سب سے پہلا امتحان یہ ہے جس کا نعرہ وہ بلند کرتے رہتے ہیں کہ وہ ''اسٹیٹس کو'' کے بت توڑیں گے۔ تو کیا وہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، خورشید محمود قصوری جیسے ''اسٹیٹس کو'' کی علامتوں کو ختم کردیں گے؟ وہ ان کی چوہدراہٹ، جاگیرداری ڈھادیں گے؟ اور اگر ڈھانے کی کوشش کریں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ میرے تحریک انصاف کے دوست کہیں گے کہ عمران خان مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔ انہوں نے مجبوری کی بنا پر ان لوگوں کو قبول کیا ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، شیریں مزاری، خورشید قصوری اور اس قبیل کے دیگر لوگوں کو ساتھ ملانا مصلحت کا تقاضا ہے۔ اگر حبیب جان جیسوں کو تحریک انصاف میں شامل کرانا حکمت ہے۔ اگرکراچی میں ہونے والے ظلم وستم اور تاریخی دھاندلی پر خاموشی اختیار کرنا مصلحت ہے۔ اگر زرداری کی کرپٹ حکومت کو پانچ سال برداشت کرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ اگر سندھ کابینہ اور اس کے وزیراعلیٰ کی انتہائی نااہلی اور سستی وکاہلی قابلِ قبول ہے؟ تو بتایا جائے، پھر ایک منتخب پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو چار سال دینا ''مصلحت'' کیوں نہیں؟ پھر اس کے خلاف لشکرکشی کیوں؟

میرے ''تحریکی'' بھائیو! قائد اعظم اپنی تمام تر صلاحیتوں، قابلیت اور اخلاص کے باوجود ان ''کھوٹے سکوں'' کی وجہ سے پریشان رہے۔ آپ ہی بتائیں کیا خان صاحب ان سے زیادہ قابل اور ذہین اور بہادر ہیں کہ ان کھوٹے سکوں کے کندھوں پر چڑھ کر انقلاب کی منزل طے کرسکیں گے اور اس کے نتائج اور ثمرات بھی سمیٹ سکیں گے؟ ''تحریکی'' بھائیو! انقلاب کی آرزو اس قوم کے ہر فرد کو ہے، لیکن انقلاب جن لوگوں کے خلاف آنا چاہیے، ان میں سے بہت سے کنٹینر پر چڑھ کر خان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ انقلاب میں سب سے پہلے جن محلات کو آگ لگانی ہوتی ہے، انہیں محلات میں خان صاحب کے اسکرپٹ رائٹر موجود ہیں۔ پھر بتایا جائے میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں؟
نہ وہ بدلے، نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلاب آسماں کرلوں

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story