بڑھتی ہوئی آبادی لمحہ فکریہ

سیانے کہتے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں یہی بات خاندانی منصوبہ بندی پر بھی صادق آتی ہے ...

سیانے کہتے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں یہی بات خاندانی منصوبہ بندی پر بھی صادق آتی ہے. فوٹو؛فائل

KARACHI:
وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا حل طلب مسئلہ ہے ، قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران نوید سنائی ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.6فیصد سے کم ہوکر 1.95فیصد پر آگئی ہے تاہم حکومت کو تاحال بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ درحقیقت صحت کے شعبے میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ اول تو اس شعبے کے لیے انتہائی کم رقم بجٹ میں مختص کی جاتی ہے۔

جس کی وجہ سے عوام کو علاج ومعالجے کی سہولتیں سرکاری سطح پر نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ کنبہ چھوٹا رکھنے کے سلسلے میں شعور وآگہی کی بھی بہت کمی پائی جاتی ہے۔ غریب طبقے میں تو بچوں کی تعداد سات یا آٹھ بچے فی گھرانہ سے کسی طور کم نہیں ہے ۔ بعض دینی و مذہبی حلقے خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں گوکہ پاکستان سارک ممالک میں بہبود آبادی پروگرام شروع کرنے والا پہلا ملک ہے۔ لیکن جس طرح پولیوکے خلاف حکومتی مہم شدت پسند عناصرکے منفی پروپیگنڈے اور جارحانہ کارروائیوں کے باعث تعطل کا شکار ہوئی ہے، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو پولیو کی روک تھام میں ایک رکاوٹ ملک قرار دیا ہے، یہ درجہ بندی افسوس ناک ہے۔ اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی اورمانع حمل ادویات کے استعمال کے خلاف بھی عوام کے ذہنوں میں ابہام اور غلط فہمیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔


سیانے کہتے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں یہی بات خاندانی منصوبہ بندی پر بھی صادق آتی ہے ۔ پاکستان میں ابھی تک آبادی کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ، عملی طور پر صحت کے بارے میں عوام میں شعوروآگہی کی بہت زیادہ کمی ہے ، بے روزگاری ،غربت ،امن وامان کی صورتحال میں بگاڑ اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل کی جڑ صرف اور صرف آبادی کی شرح میں اضافہ ہے ۔ جب تک ہم خواتین میں اس سلسلے میں شعور پیدا نہیں کریں گے ، اس وقت تک آبادی کی شرح میں اضافے کو روکنا ممکن نہیں ہوگا ۔

آبادی بم سے پوری دنیا ہمیں خبردار کر رہی ہے، تعلیم ، رہائش اور روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے تو آبادی کا پھیلاؤ مسائل ہی پیدا کرے گا ۔ بہبود آبادی کے حوالے سے مواد کو نصابی کتب کا باقاعدہ حصہ بنانا چاہیے ، خواتین میں آگاہی پیدا کرنے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے ۔
Load Next Story