انٹر پلینیٹری نیٹ ورک

یہ ٹیکنالوجی خلائی مہمات کو نئی جہت دے گی

یہ ٹیکنالوجی خلائی مہمات کو نئی جہت دے گی۔ فوٹو: فائل

چند عشرے قبل صرف روس اور امریکا ہی زمین کے مدار میں اسپیس کرافٹ اور مصنوعی سیارے پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے، مگر اب چین، جاپان اور بھارت بھی اپنے خلائی جہاز زمین کے مدار بلکہ چاند کی جانب روانہ کرچکے ہیں۔

زمین کی طرح اب خلا پر بھی ترقی یافتہ اور طاقت ور ملکوں کے درمیان راج کرنے کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ اسی لیے اب خلائی ٹیکنالوجی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ زمین کی طرح خلا میں بھی امریکا کو اپنی حریف طاقتوں پر برتری حاصل ہے۔ اس وقت امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے روبوٹک خلائی جہاز چاند سے بھی لاکھوں میل کے فاصلے پر مریخ کو کھنگال رہے ہیں، جب کہ اس کے کئی اسپیس کرافٹ مشتری اور عطارد کے مدار میں گردش کرتے ہوئے ان سیاروں کے بارے میں معلومات ارسال کررہے ہیں۔

ناسا کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ خلا میں امریکی برتری برقرار رکھنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز ڈیولپ کی جائیں اور موجود ٹیکنالوجیز کو بہتر بنایاجائے۔ حال ہی میں ناسا نے خلائے بسیط میں معلومات کی ترسیل کے ضمن میں اہم کام یابی حاصل کی ہے، ناسا نے ایک نئی قسم کے انٹرنیٹ، نیٹ ورک کا کام یاب تجربہ کیا ہے جسے خلا میں لاکھوں میل کے فاصلے تک معلومات بھیجنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ناساکی جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل) کے انجینئروں نے دو کروڑ میل کے فاصلے پر مریخ کے مدار میں گردش کرتے ہوئے خلائی جہاز تک درجنوں تصاویر بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے ایک نیا سوفٹ ویئر استعمال کیا، جسے انھوں نے (Disruption-Tolerantnetworking (DTN کا نام دیا ہے۔




خلا میں سیارے اور سورج کی جانب سے آنے والے ذرات کے طوفان مواصلاتی رابطوں میں خلل کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن ناساکا یہ انٹر پلینیٹری انٹرنیٹ سسٹم اس صورت حال میں بھی فعال رہتا ہے۔ اگرچہ ڈیٹا کی منتقلی میں تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں بھی ڈیٹا ضایع نہیں ہوتا۔ ڈی ٹی این کی بنیاد پر زمینی انٹرنیٹ پروٹوکول کی طرح یہ نہیں ہے کہ وہاں بھی اینڈ ٹو اینڈ کنکشن موجود ہوںگے، اسی لیے کسی خرابی یا رکاوٹ کی وجہ سے ڈیٹا اپنے مطلوبہ مقام تک نہ پہنچ سکے، تو وہ ضایع نہیں ہوتا بلکہ ہر نیٹ ورک نوڈ اس وقت تک اس ڈیٹا کی حفاظت کرتا ہے، جب تک کہ دوسرے نوڈ سے اس کا رابطہ بحال نہیں ہوجاتا، اور وہ معلومات آگے نہیں بھیج دی جاتیں۔

ناسا کے سائنس دانوں نے اپنے پہلے انٹرپلینیٹری نیٹ ورک کے لیے دس نوڈز بنائے تھے جن میں سے ایک اسپیس کرافٹ ''ایپوکسی'' ہے، جو مریخ کے مدار میں موجود ہے، جب کہ باقی نو نوڈز جے پی ایل میں تھے، ناسا کے منیجر ایڈریان ہک کے مطابق وہ ایک نیا انٹر پلینیٹری انٹرنیٹ نیٹ ورک تخلیق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام یاب تجربہ اس مقصد کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انٹر پلینیٹری انٹرنیٹ نیٹ ورک کی تخلیق خلائی مہمات کو ایک نئی جہت عطا کرے گی۔ اس نیٹ ورک کے وجود میں آنے کے بعد نئی اقسام کے اسپیس مشن روانہ کیے جاسکیںگے، جن میں ایسی فلائٹس بھی شامل ہیں جن پر ایک سے زیادہ اسپیس کرافٹ بیک وقت موجود ہوںگے۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹر پلینیٹری انٹرنیٹ چاند پر موجود خلا نوردوں کے لیے بھی زمین سے رابطے کا ایک قابل بھروسا نظام ثابت ہوگا۔

سائنس داں انٹر پلینیٹری انٹرنیٹ نیٹ ورک پر مسلسل تجربات کررہے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کے خلائی مشنز کے لیے اس ٹیکنالوجی کو قابل استعمال بنانے کے لیے مزید تجربات کریں گے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ڈی ٹی این ٹیکنالوجی کی آزمائش آئندہ برس موسم گرما میں کی جائے گی۔
Load Next Story