پانچ بیٹے
رحمن صاحب کوئی پیدائشی امیر نہ تھے۔ ان کا گھرانا ہندوستان کے دل دلی سے 1947 میں ہجرت کرکے لٹے پٹے ۔۔۔
رحمن صاحب پانچ بیٹوں کے باپ اورکئی پوتے پوتیوں کے دادا ہیں۔ عمراس وقت 73 سال ہے۔ بیوی کا انتقال بارہ سال پہلے ہوگیا۔ صاحب حیثیت ہیں لیکن بیمار اور لاچار ایک پرائیویٹ اسپتال میں پڑے اپنے دوستوں سے ماضی کی خوشگوار یادیں تازہ کرکے حال کی بدنصیبیوں اور بے رحمی کو بھلانا چاہتے ہیں۔ پانچوں بیٹے شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔ لیکن کوئی بیٹا باپ کی خبر نہیں لیتا نہ ہی اسپتال آتے ہیں۔
بیٹوں کے اس رویے کی وجہ وہی عام سی ہے جو آج شاید ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ یعنی بیٹے بیاہ دیے اور پرائے ہوگئے۔ کچھ رخصتی کے بعد گھر داماد بن گئے، کچھ نے سسرالیوں کے مجبور کرنے اور بیویوں کے اوچھے ہتھکنڈوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور علیحدہ ہوگئے۔ بوڑھا باپ اکیلا رہ گیا۔ کسی نے پرواہ نہ کی۔ گیس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنی ہو تو کوئی نہ کوئی بیٹا براہ راست مطلوبہ رقم مانگ کر لے جاتے ہیں اور وہ دے دیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے رقم نہ دی تو واپسی پر ان کی بیویاں جو صلواتیں سنائیں گی وہ ان کے بیٹوں ہی کو سننی اور برداشت کرنی ہوں گی۔
رحمن صاحب کوئی پیدائشی امیر نہ تھے۔ ان کا گھرانا ہندوستان کے دل دلی سے 1947 میں ہجرت کرکے لٹے پٹے کراچی پہنچے تھے۔ ان کے والدین کو رات کی تاریکی میں اپنا بھرا پرا گھر یوں ہی چھوڑ کر جان بچانے کی خاطر بھاگنا پڑا تھا۔ کیونکہ کسی نیک دل ہندو پڑوسی نے سکھوں کے حملے کی پیشگی خبر دے دی تھی۔رحمن صاحب اپنے تین بھائیوں اور والدین کے ہمراہ کراچی پہنچے۔ بڑے بھائی اور والد نے ایک پریس میں نوکری کی۔ بندر روڈ پر ایک پرانی عمارت کی چھت پر دو کمرے کرائے پہ رہنے کے لیے مل گئے۔ یہاں ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی پیدا ہوئے۔ رحمن صاحب نے بھی چھوٹی موٹی نوکریاں کیں اور تعلیم بھی جاری رکھی۔ بعد میں ایک اخبار میں فل ٹائم جاب مل گئی۔ مالکان ان کی ایمانداری سے خوش تھے۔ رفتہ رفتہ پراپرٹی کا کام بھی شروع کردیا۔ خدا نے برکت دی۔
تمام بھائی بہن بھی اپنے اپنے گھروں کے ہوگئے۔ لیکن شادی کے بعد بھی رحمن صاحب والدین کے ہمراہ ہی رہے۔ ان کی بیگم نہایت سیدھی سادی نیک عورت جو سسرال والوں کی عزت اور محبت کو اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ اس اللہ کی بندی نے بھی اس نصیحت پہ ایسا عمل کیا کہ کبھی میاں کو شکایت کا موقع نہ دیا جب کہ رحمن صاحب ذرا مزاج کے تیز بھی ہیں اور غصہ بھی انھیں جلد آتا تھا۔ بہرحال اللہ نے دونوں کو پانچ بیٹوں سے نوازا۔ دونوں بہت خوش تھے اور ہر دم بیٹوں کے سروں پہ سہرے کے متمنی تھے۔ لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ چھوٹا بیٹا پندرہ سال کا ہوا تو رحمن صاحب کی چہیتی بیوی نے زندگی سے منہ موڑ لیا۔ اس اچانک صدمے سے وہ بے حال ہوگئے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح وقت تو گزر ہی جاتا ہے اور وقت کے ساتھ زخم بھی مندمل ہو ہی جاتے ہیں۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ وہ خود بچوں کے لیے کھانا پکاتے تھے روٹی تندور سے آجاتی تھی۔ بوا گھر کا کام کرجاتی تھیں۔ لیکن سالن وہ خود پکاتے تھے کہ کھانا نہ انھیں کسی کے ہاتھ کا پسند آتا تھا نہ ان کے پیارے بیٹوں کو۔ دلی والی بیوی کے ہاتھ کا ذائقہ بھلا کہاں ملتا؟ کہ یہی سچ ہے کہ جس نے دلی والوں کے ہاتھ کا پکا کھانا کھا لیا، پھر وہ کسی اور کا اسیر نہیں ہوسکتا۔ بہرحال آگے سنیے!
ایک دن رحمن بھائی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ آئے اور کہا کہ وہ دو بیٹوں کی شادی ایک ساتھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ بہوئیں آئیں اور گھر سنبھالیں۔ اس ویران گھر میں بہاریں آئیں۔ انھیں اس سلسلے میں میری مدد چاہیے تھی۔ وہ اس طرح کہ جہاں بھی ان کی بہن لڑکی دیکھنے جائیں گی میں ان کے ساتھ جاؤں گی اور جس گھرانے سے میں مطمئن ہوں گی وہ وہاں رشتہ کردیں گے۔ مہذب لوگوں کی طرح نہ ان کی کوئی ڈیمانڈ تھی نہ ان کے بیٹوں کی۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک بیٹے کی شادی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ دوسرے کی سسرال شاہ فیصل کالونی میں تھی۔ لوگ بظاہر سادہ اور شریف ہی دکھائی دیتے تھے۔ دونوں بہوئیں آگئیں۔ اوپر کی منزل پہ تین بیٹے اور نچلی منزل پہ دو بیٹے اور رحمن صاحب۔ چند ہی ماہ بعد بڑی بہو نے اپنی بہن سے دیور کی شادی بھی کروا دی۔ اور پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔
بڑی بہو پہلے الگ ہوئی، پھر اس کی بہن بھی میاں کو ساتھ لے کر اس کے ساتھ ہی آگئی۔ اور صرف دو سال کے بعد تیسرا بیٹا بھی الگ ہوگیا۔ مطالبہ تھا کہ گھر بیچ کر ہمارا حصہ دو۔ رحمن صاحب کے ابھی دو بیٹے اور تھے جن کی شادیاں کرنی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ڈانٹا ڈپٹا بھی۔ اب پھر وہی روٹین تھی کہ کام والی کھانا پکا جاتی تھی۔ چھوٹا بیٹا رحمن صاحب کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ ان کی خدمت بھی کرتا۔ اور انھیں خوش رکھنے کی بھی کوشش کرتا۔ اس نے کئی بار ہمارے روبرو یہ بات کہی کہ جس طرح تینوں بھائی ابا جان کو چھوڑ گئے وہ کبھی نہ چھوڑے گا۔
چار سال قبل ان دونوں بیٹوں کی شادیاں بھی ہوگئیں۔ وہ صاحب اولاد بھی ہوگئے۔ لگتا تھا سب ٹھیک ہے۔ البتہ بڑی بہو اور بیٹے سے وہ بہت ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارے فساد کی جڑ وہی ہے وہ نہ صرف شوہر کو باپ سے بدظن کرتی تھی بلکہ اپنی دیورانیوں کو بھی بدظن کرتی تھی۔ اسے ہر قیمت پر گھر اپنے نام کروانا تھا جو رحمن صاحب کر نہیں رہے تھے۔ مجھے بہت افسوس ہوتا تھا یہ سوچ کر کہ اس لڑکی کے معصوم چہرے سے میں دھوکہ کھا گئی۔ اسے میں نے اس لیے پسند کیا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر کی لڑکی تھی جہاں کمانے والا ایک تھا اور کھانے والے سات افراد۔ چار بہنیں ایک بھائی اور ماں باپ۔ رحمن صاحب کی بہن نے اپنی ذمے داری نہ نبھائی کیونکہ آگے کی تمام معلومات اور خاندانی کوائف طلب کرنا ان کی ذمے داری تھی۔ بس یہیں غلطی ہوگئی۔
نکاح کے بعد رحمن صاحب کو ان کے کسی عزیز نے بتایا کہ لڑکی کی ماں بہت تیز ہے اور باپ پوری طرح اس کے قبضے میں ہے۔ ان کی پہلی بڑی بیٹی نے بھی شادی کے دوسرے مہینے سے شوہر کو والدین سے اس طرح بدظن کیا کہ سگا بیٹا ماں کے مرنے پہ بھی نہ گیا۔ وہ ہر تکلیف کا ذمے دار اپنی ساس کو قرار دیتی تھی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ خالاؤں نے پوری کردی۔ اس طرح کہ سر میں درد ہو تو ساس نے تعویذ کروا دیے ہیں۔پیٹ میں درد ہے تو ساس نے تعویذ گنڈے کروائے ہیں ۔
ایک بار بھی ناسمجھ کہیے یا خوفزدہ شوہر یہ نہ پوچھتا تھا کہ بھلی مانس اگر میری ماں عملیات کی اتنی ہی ماہر ہوتی تو میں ان کے پاس ہوتا نہ کہ تمہارے پاس۔ سچ کہا ہے سیانوں نے ''اصل سے خطا نہیں اور کم نسل سے وفا نہیں۔''
بہرحال کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ رحمن صاحب بیٹوں اور پوتا پوتی کو یاد کر کرکے خود بھی روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اگر وہ لاوارث اور مفلس ہوتے تو ان کا ٹھکانہ کہاں ہوتا؟ پہلے لوگ مکافات عمل سے ڈرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونا اور بڑھتی ہوئی طلاقوں کی ایک سب سے بڑی وجہ اس تربیت کا فقدان ہے۔ جو تقسیم سے پہلے لڑکیوں کو دی جاتی تھی۔ آج ہر لڑکی چاہتی ہے کہ شادی کے بعد اس کا شوہر صرف اس کا اور اس کے گھر والوں کا غلام بن کر رہے۔ شریف زادے اس صورتحال میں مارے جاتے ہیں اور ان کی خاندانی شرافت کو کمزوری سمجھ کر لڑکیاں مسلسل شوہروں کا استحصال کرتی ہیں کیونکہ ان کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے۔ رحمن صاحب کے پوتے پوتیاں انھیں نہیں پہچانتے۔ انھیں بے حد تکلیف ہوتی تھی جب وہ ان سے کہتے تھے آپ گندے ہیں نانا ابو اچھے ہیں۔ فون پر رحمن صاحب کی آواز سن کر پوتا کہتا تھا۔ نانا ابو آپ کیسے ہیں، پوتی کہتی تھی امی کہتی ہیں آپ گندے دادا ہیں۔ آپ مجھے اچھے نہیں لگتے'' ان کے پاس تو یادیں بھی بڑی تکلیف دہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ''اچھا ہی ہوا جو نیک بخت جلدی چلی گئی۔ وہ خوش نصیب تھی جو مرگئی۔''
یہ کسی ایک رحمن صاحب کی روئیداد نہیں ہے۔ اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ بیٹے اتنے سنگدل اور ظالم کیوں اور کیسے ہوجاتے ہیں؟ مجھے خوف آتا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ مائیں اب بیٹوں کی شادیاں کرنے سے ڈرنے لگی ہیں۔