چین کی سرمایہ کاری
ان دوبڑی یعنی زمینی اور آسمانی آفت کے بیچ رونما ہونے والا ایک اور واقعہ بھی تھا ۔۔۔
سیاسی بحران کی وجہ سے مسائل کا شکار پاکستان اب قدرتی آفت کی زد میں ہے۔ دھرنوں کی وجہ سے قومی معیشت کو ایک ہزار ارب روپے کے قریب نقصان پہلے ہی ہو چکا تھا کہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کو شامل کرنے سے یہ تخمینہ کئی ہزار ارب روپے تک جا پہنچے گا۔ حکومت بھی ایک کے بعد ایک نئی آزمائش سے گزر رہی ہے۔ اسلام آباد میں جاری دو دھرنے والوں کا موقف اپنی جگہ مگر اس احتجاج کے نتیجے میں عوام سے متعلق بہت سے اہم ترین ایشوز پس پشت چلے گئے۔
ان دوبڑی یعنی زمینی اور آسمانی آفت کے بیچ رونما ہونے والا ایک اور واقعہ بھی تھا جو حکومت پر قیامت بن کر ٹوٹا وہ تھا چینی صدر کے پاکستان دورے کا التوا۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق ان کا یہ دورہ ملکی معاشی ترقی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ چین نے پاکستان میں آیندہ 7 برسوں کے دوران 34 ارب ڈالر کی مبینہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے ہیں مگر چینی صدر کے تشریف نہ لانے سے یہ منصوبے طوالت کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کی طوالت کی وجہ سے افادیت کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ چینی صدر کے ہمراہ چین کے مقتدر کاروباری حضرات اور بڑے بڑے سرمایہ کار اداروں کے سربراہان بھی پاکستان آ رہے تھے جس کے نتیجے میں پرانے منصوبوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کے متعدد نئے معاہدے بھی متوقع تھے۔
پاکستان اور چین کا اقتصادی اور معاشی تعاون گزشتہ چند برسوں سے انتہائی عروج پر ہے، گزشتہ 15 سال کے دوران چین کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کا کل حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھا جب کہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں چین اور پاکستان کے مابین 34 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے ہیں، جن میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے نام سے پاک چین اقتصادی تعاون کا سب سے بڑا اور تاریخی منصوبہ بھی شامل ہے جس کی تکمیل سے ایشیا میں بسنے والی دنیا کی نصف آبادی معاشی خوشحالی سے ہمکنار ہو گی۔ اگر یہ منصوبہ مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے چین اور پاکستان سمیت، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں رہنے والے 3 ارب نفوس کے لیے معاشی خوشحالی کے وسائل پیدا ہوں گے جب کہ سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا۔
چین جو کہ دنیا کا دوسرا تیل کا سب سے بڑا صارف ہے اور خلیجی ممالک سے درآمد کیا جانے والے تیل کا 60 فیصد حصہ 16ہزار کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد چین تک پہنچتا ہے جب کہ اکنامک کوریڈور منصوبے کی تکمیل کے بعد یہ فاصلہ سکڑ کر محض ڈھائی ہزار کلومیٹر رہ جائے گا جو کہ ہر حوالے سے زیادہ محفوظ اور آسان راستہ بھی ہو گا۔ دوسری طرف پاکستان کو اس منصوبے کا یہ فائدہ فقط اتنا ہی ہو گا کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کا ایک ٹرانزٹ ہب بن جائے گا۔ اسی طرح چین کو اپنی برآمدی مصنوعات کی ترسیل پر لاگت میں بھی 80 فیصد کمی آئیگی جس سے وہ اپنی مصنوعات عرب، یورپی اور امریکی ممالک میں اور بھی سستی فروخت کر کے عالمی مارکیٹ میں غلبے کی راہ ہموارکر سکے گا۔
حکومتی ذرایع کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کاتعلق توانائی کے شعبے سے ہے اور اس ضمن میں سابقہ منصوبوں کے برعکس کوئلے اور سولر ذرایع پر مبنی ایسے منصوبے شامل ہیں جو صارفین کو ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کریں گے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میںEarly Harvest Projects کا اعلان کیا ہے جنھیں 2017ء تک پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ چین کی شرط ہے کہ چونکہ یہ منصوبے دونوں حکومتوں کے مابین کیے جا رہے ہیں لہٰذا انھیں پیپرا قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
چین اگرچہ پاکستان کا ایک مخلص دوست ہے مگر جہاں بات کاروبار کی، سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، وہاں حکومت کے ساتھ ساتھ نجی سرمایہ کاروں کے مفادات بھی کارفرما ہوتے ہیں اور کسی بھی ملک کا سربراہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ اس کے سرمایہ کار بیرون ملک خسارے کی سرمایہ کاری کریں۔
چین کی جانب سے کی جانے والی یہ ''سرمایہ کاری'' جسے حکومت ''براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری'' (ایف ڈی آئی) کا نام بھی دے رہی ہے، درحقیقت اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی متنازعہ صورت اختیار کر چکی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاری کے نام پر چین پاکستان کو قرضے دے رہا ہے، اور وہ بھی انوکھی طرز پر، کہ ''قرضے'' تو پاکستان کو دیے جائیں گے مگر ''رقم'' پاکستانی حکومت کو نہیں دی جائے گی بلکہ ان اشیا یا مشینوں کے عوض ان کمپنیوں کو ادا کی جائے گی جو پاکستان کو یہ مشنری فروخت کریں گی۔ پاکستان کے لیے یہ مشینری بھی صرف اور صرف چین ہی سے خریدنا لازمی ہو گا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ قرضے چین کی حکومت نہیں بلکہ چین کے بینک (پاکستان کے نام پر چینی کمپنیوں کوہی) فراہم کریںگے ۔
یہ چینی سرمایہ کاری جو حقیقی معنوں میں قرضے بھی نہیں بلکہ ادھار کی مشینری ہو گی، اس کی قیمت کی رقم پاکستان کے قرض کھاتے میں چڑھائی جائے گی اور اس پر سود بھی کمرشل ریٹ پر وصول کیا جائے گا جو کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سود کی شرح سے چار گنا زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ ان سب میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ''سرمایہ کاری'' کو گارنٹیڈ ریٹرن بھی24 فیصد دیا جائے گا جو کہ پاکستان کی حکومت پیداواری کمپنیاں لگانے والوں کو ادا کرے گی (یعنی یہ ادھار کی مشینری لگنے کے بعد حکومت اس بات کی ضامن بھی ہو گی کہ ان کمپنیوں کو اگر نقصان ہو تو پاکستانی حکومت بہر صورت انھیں 24 فیصد منافع فراہم کرے گی)۔
قابل غور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت نے اتنی خطیر رقم پاکستان کے سر قرض چڑھانے سے پہلے یہ تحقیقات کرنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ایسے پلانٹس کیا کبھی کسی اور ملک نے بھی چین سے خریدے ہیں؟ اور نہ خریدنے کی وجہ کیا ہے؟، کہیں ایسا تو نہیں چینی مصنوعات کا معیار ان کے آڑے آ گیا ہو؟،جیسا کہ ہم ریلوے انجنوں کی خریداری میں بھگت چکے ہیں اور دیگر اشیا کے معیار سے بھی کون آشنا نہیں؟۔ مزید یہ کہ ان پلانٹس کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں 4 سال کا عرصہ درکار ہو گا، حکومت 4 سال کے دوران بجلی کی کمی پر کیسے قابو پائے گی؟۔
کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ چلانے کے لیے کوئلے کی کانوں کی ڈیویلپمنٹ بنیادی کام ہے، کیا یہ کام حکومت کو پلانٹس کی خریداری سے پہلے نہیں کر لینا چاہیے؟ کیونکہ پلانٹس آنے کے بعد کوئلے کی کانوں پرڈیویلپمنٹ کا کام شروع ہونے سے (ختم ہونے تک) پاکستان کو بلاوجہ ہی (ان پلانٹس پر) سود کی ادائیگی کرنا پڑے گی اور پلانٹس بھی پڑے پڑے خراب ہوتے رہیں گے۔
کیا اتنی بڑی رقم کا کچھ حصہ بھی حکومت ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری پر خرچ کر سکے گی؟ کیونکہ اس وقت ملک میں 20 فیصد بجلی تو لائنوں کی خرابی سے ضایع ہو جاتی ہے جب کہ24 فیصد بجلی کے بل وصول نہیں ہو پاتے۔ اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 4 سال بعد مسلم لیگ ن ہی کی حکومت ہو گی؟
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اس وقت پاکستان کے کل بیرونی قرضے 60 ارب ڈالر یعنی 6ہزار ارب روپے ہیں جن کے عوض ملک کی آزادی کے ساتھ عزت و آبرو بھی گروی رکھوائی جا چکی ہے، تو پھر چین سے اتنی خطیر رقم اور وہ بھی عجیب و غریب قرضوں کی صورت میں، 4 گنا زیادہ سود پر حاصل کرنے کے نتائج ہمیں کن صورتوں میں بھگتنا پڑ سکتے ہیںِ؟۔
یہ سب معاہدے اپنی جگہ بہت اچھے، یقینا ان سے فائدہ بھی پہنچے گا، ہمیں یہ غور بھی سنجیدگی سے کرنا چاہیے کہ کہیں یہ سب کچھ کمیشن کے ذریعے مال سمیٹنے کے اوچھے ہتھکنڈے تو نہیں؟
ان دوبڑی یعنی زمینی اور آسمانی آفت کے بیچ رونما ہونے والا ایک اور واقعہ بھی تھا جو حکومت پر قیامت بن کر ٹوٹا وہ تھا چینی صدر کے پاکستان دورے کا التوا۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق ان کا یہ دورہ ملکی معاشی ترقی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ چین نے پاکستان میں آیندہ 7 برسوں کے دوران 34 ارب ڈالر کی مبینہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے ہیں مگر چینی صدر کے تشریف نہ لانے سے یہ منصوبے طوالت کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کی طوالت کی وجہ سے افادیت کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ چینی صدر کے ہمراہ چین کے مقتدر کاروباری حضرات اور بڑے بڑے سرمایہ کار اداروں کے سربراہان بھی پاکستان آ رہے تھے جس کے نتیجے میں پرانے منصوبوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کے متعدد نئے معاہدے بھی متوقع تھے۔
پاکستان اور چین کا اقتصادی اور معاشی تعاون گزشتہ چند برسوں سے انتہائی عروج پر ہے، گزشتہ 15 سال کے دوران چین کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کا کل حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھا جب کہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں چین اور پاکستان کے مابین 34 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے ہیں، جن میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے نام سے پاک چین اقتصادی تعاون کا سب سے بڑا اور تاریخی منصوبہ بھی شامل ہے جس کی تکمیل سے ایشیا میں بسنے والی دنیا کی نصف آبادی معاشی خوشحالی سے ہمکنار ہو گی۔ اگر یہ منصوبہ مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے چین اور پاکستان سمیت، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں رہنے والے 3 ارب نفوس کے لیے معاشی خوشحالی کے وسائل پیدا ہوں گے جب کہ سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا۔
چین جو کہ دنیا کا دوسرا تیل کا سب سے بڑا صارف ہے اور خلیجی ممالک سے درآمد کیا جانے والے تیل کا 60 فیصد حصہ 16ہزار کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد چین تک پہنچتا ہے جب کہ اکنامک کوریڈور منصوبے کی تکمیل کے بعد یہ فاصلہ سکڑ کر محض ڈھائی ہزار کلومیٹر رہ جائے گا جو کہ ہر حوالے سے زیادہ محفوظ اور آسان راستہ بھی ہو گا۔ دوسری طرف پاکستان کو اس منصوبے کا یہ فائدہ فقط اتنا ہی ہو گا کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کا ایک ٹرانزٹ ہب بن جائے گا۔ اسی طرح چین کو اپنی برآمدی مصنوعات کی ترسیل پر لاگت میں بھی 80 فیصد کمی آئیگی جس سے وہ اپنی مصنوعات عرب، یورپی اور امریکی ممالک میں اور بھی سستی فروخت کر کے عالمی مارکیٹ میں غلبے کی راہ ہموارکر سکے گا۔
حکومتی ذرایع کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کاتعلق توانائی کے شعبے سے ہے اور اس ضمن میں سابقہ منصوبوں کے برعکس کوئلے اور سولر ذرایع پر مبنی ایسے منصوبے شامل ہیں جو صارفین کو ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کریں گے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میںEarly Harvest Projects کا اعلان کیا ہے جنھیں 2017ء تک پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ چین کی شرط ہے کہ چونکہ یہ منصوبے دونوں حکومتوں کے مابین کیے جا رہے ہیں لہٰذا انھیں پیپرا قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
چین اگرچہ پاکستان کا ایک مخلص دوست ہے مگر جہاں بات کاروبار کی، سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، وہاں حکومت کے ساتھ ساتھ نجی سرمایہ کاروں کے مفادات بھی کارفرما ہوتے ہیں اور کسی بھی ملک کا سربراہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ اس کے سرمایہ کار بیرون ملک خسارے کی سرمایہ کاری کریں۔
چین کی جانب سے کی جانے والی یہ ''سرمایہ کاری'' جسے حکومت ''براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری'' (ایف ڈی آئی) کا نام بھی دے رہی ہے، درحقیقت اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی متنازعہ صورت اختیار کر چکی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاری کے نام پر چین پاکستان کو قرضے دے رہا ہے، اور وہ بھی انوکھی طرز پر، کہ ''قرضے'' تو پاکستان کو دیے جائیں گے مگر ''رقم'' پاکستانی حکومت کو نہیں دی جائے گی بلکہ ان اشیا یا مشینوں کے عوض ان کمپنیوں کو ادا کی جائے گی جو پاکستان کو یہ مشنری فروخت کریں گی۔ پاکستان کے لیے یہ مشینری بھی صرف اور صرف چین ہی سے خریدنا لازمی ہو گا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ قرضے چین کی حکومت نہیں بلکہ چین کے بینک (پاکستان کے نام پر چینی کمپنیوں کوہی) فراہم کریںگے ۔
یہ چینی سرمایہ کاری جو حقیقی معنوں میں قرضے بھی نہیں بلکہ ادھار کی مشینری ہو گی، اس کی قیمت کی رقم پاکستان کے قرض کھاتے میں چڑھائی جائے گی اور اس پر سود بھی کمرشل ریٹ پر وصول کیا جائے گا جو کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سود کی شرح سے چار گنا زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ ان سب میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ''سرمایہ کاری'' کو گارنٹیڈ ریٹرن بھی24 فیصد دیا جائے گا جو کہ پاکستان کی حکومت پیداواری کمپنیاں لگانے والوں کو ادا کرے گی (یعنی یہ ادھار کی مشینری لگنے کے بعد حکومت اس بات کی ضامن بھی ہو گی کہ ان کمپنیوں کو اگر نقصان ہو تو پاکستانی حکومت بہر صورت انھیں 24 فیصد منافع فراہم کرے گی)۔
قابل غور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت نے اتنی خطیر رقم پاکستان کے سر قرض چڑھانے سے پہلے یہ تحقیقات کرنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ایسے پلانٹس کیا کبھی کسی اور ملک نے بھی چین سے خریدے ہیں؟ اور نہ خریدنے کی وجہ کیا ہے؟، کہیں ایسا تو نہیں چینی مصنوعات کا معیار ان کے آڑے آ گیا ہو؟،جیسا کہ ہم ریلوے انجنوں کی خریداری میں بھگت چکے ہیں اور دیگر اشیا کے معیار سے بھی کون آشنا نہیں؟۔ مزید یہ کہ ان پلانٹس کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں 4 سال کا عرصہ درکار ہو گا، حکومت 4 سال کے دوران بجلی کی کمی پر کیسے قابو پائے گی؟۔
کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ چلانے کے لیے کوئلے کی کانوں کی ڈیویلپمنٹ بنیادی کام ہے، کیا یہ کام حکومت کو پلانٹس کی خریداری سے پہلے نہیں کر لینا چاہیے؟ کیونکہ پلانٹس آنے کے بعد کوئلے کی کانوں پرڈیویلپمنٹ کا کام شروع ہونے سے (ختم ہونے تک) پاکستان کو بلاوجہ ہی (ان پلانٹس پر) سود کی ادائیگی کرنا پڑے گی اور پلانٹس بھی پڑے پڑے خراب ہوتے رہیں گے۔
کیا اتنی بڑی رقم کا کچھ حصہ بھی حکومت ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری پر خرچ کر سکے گی؟ کیونکہ اس وقت ملک میں 20 فیصد بجلی تو لائنوں کی خرابی سے ضایع ہو جاتی ہے جب کہ24 فیصد بجلی کے بل وصول نہیں ہو پاتے۔ اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 4 سال بعد مسلم لیگ ن ہی کی حکومت ہو گی؟
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اس وقت پاکستان کے کل بیرونی قرضے 60 ارب ڈالر یعنی 6ہزار ارب روپے ہیں جن کے عوض ملک کی آزادی کے ساتھ عزت و آبرو بھی گروی رکھوائی جا چکی ہے، تو پھر چین سے اتنی خطیر رقم اور وہ بھی عجیب و غریب قرضوں کی صورت میں، 4 گنا زیادہ سود پر حاصل کرنے کے نتائج ہمیں کن صورتوں میں بھگتنا پڑ سکتے ہیںِ؟۔
یہ سب معاہدے اپنی جگہ بہت اچھے، یقینا ان سے فائدہ بھی پہنچے گا، ہمیں یہ غور بھی سنجیدگی سے کرنا چاہیے کہ کہیں یہ سب کچھ کمیشن کے ذریعے مال سمیٹنے کے اوچھے ہتھکنڈے تو نہیں؟