اسکاٹ لینڈ کی تحریک آزادی اور معاشی سوال
اسکاٹ لینڈ کی تحریک آزادی سے ایک یہ درس بھی ملا ہے کہ آزادی کی تحریکیں چلانے والوں کے پاس بہرحال ۔۔۔
18 ستمبر کو اسکاٹ لینڈ کی متحدہ برطانوی شہنشاہیت سے گزشتہ سو برس سے جاری علیحدگی کی تحریک کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں برطانوی تاریخ میں پہلی بار سولہ برس کے لڑکے اور لڑکیوں کو بھی اپنا ووٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے تقریباََ 85 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ ریفرنڈم کا مقصد اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو یہ اختیار دینا تھا کہ کیا وہ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان 307 برس پرانا اتحاد قائم رکھنا چاہتے ہیں یا وہ اپنے معاشی مفادات کے پیشِ نظر برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں؟ ریفرنڈم میں 55 فیصد لوگوں نے یہ فیصلہ دیا کہ وہ برطانیہ سے علیحدگی نہیں چاہتے۔
جب کہ 45 فیصد لوگ برطانیہ سے علیحدگی کے حامی تھے، جنھیں بلآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا سوال تو کئی بار اٹھ چکا ہے مگر گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اسکاٹ لینڈ کی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وزیر ایلکس سالمنڈ ایک بہتر معاشی پالیسی کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلسل یہ نعرہ لگاتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق دلوائیں گے، فتح، یعنی برطانیہ سے آزادی کے بعد اسکاٹ لینڈ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر سکتا ہے اور لوگ زیادہ خوشحالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
سالمنڈ کا ریفرنڈم کے انعقاد کا وعدہ تو پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، مگر اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کا فیصلہ ان کی خواہشات کے برعکس سامنے آیا ہے۔ بہرحال ایلیکس سالمنڈ نے شکست قبول کی اور جمہوری روایات کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف وزارت سے بلکہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ان الفاظ کے ساتھ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے کہ اصل کامیابی 'متحرک' رہنے میں ہے، اس لیے آزادی کا خواب زندہ رہنا چاہیے۔
اسکاٹ لینڈ کی تحریکِ آزادی سے کئی قابلِ توجہ نکات سامنے آئے ہیں: جیسا کہ حقیقی مسئلہ مخصوص اشکال سے آزادی نہیں ہے، اور نہ ہی آزادی کا تعلق طاقت کے مراکز کی تبدیلی سے ہے، قومی شناخت اتنی اہم نہیں جتنی کہ معاشی خوشحالی اہم ہے۔ آزادی کا مطلب عوام کے لیے اس معاشی آزادی کا حصول ہے جس سے عوام کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کا امکان پیدا ہو سکے۔ تعلیم، روزگار، رہائش اور ہر طرح کے معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ معاشی عدم استحکام سے علیحدگی کی تحریکیں ابھرتی ہیں، مگر علیحدگی پسندوں کے پاس اگر کوئی بہتر اور متبادل معاشی پالیسی نہ ہو تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پسماندہ اقوام میں قومی شناخت کی آئیڈیالوجی کو محض عوام کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
معاشی آزادی کا خواب کہ جس میں سب لوگوں کے لیے یکساں معاشی مساوات کا تصور قائم کیا جا سکے وہ سلطنتِ برطانیہ میں بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ حالیہ مالیاتی بحران نے مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک کی معاشی پالیسیوں کے کھوکھلے پن کو نمایاں کر دیا ہے۔ اس تناظر میں علیحدگی کے مطالبے میں شدت آنا فطری عمل ہے۔آزادی کا مطالبہ کرنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید علیحدگی کی صورت میں معیشت کی ترقی کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اس قیاس آرائی کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس معاشی منصوبہ بندی کا تنقیدی جائزہ نہ لے لیا جائے جس کی بنیاد پر علیحدگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے کم و بیش سبھی اخبارات علیحدگی پسند اسکاٹش رہنما ایلیکس سالمنڈ کی معاشی پالیسیوں میں مضمر قباحتوں کو سامنے لاتے رہے ہیں۔
ریفرنڈم سے تین روز قبل یعنی 15ستمبرکو سینٹر فار پالیسی اسٹڈی کی جانب سے ایک رپورٹ شایع کی گئی تھی، جس کے بعض حصے ڈیلی میل میں شایع ہوئے۔ اس رپورٹ میں سالمنڈ کے معاشی منصوبے کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سالمنڈ کی علیحدگی کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں نقصان نہ صرف اسکاٹ لینڈ کو ہو گا، بلکہ برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کے بھی اس سے شدید متاثر ہونے کے علاوہ اس کے براہ راست اثرات عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑیں گے۔ رپورٹ میں کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے گئے تھے کہ جن کا جواب آزادی کے حامی علیحدگی پسندوں سے طلب کر رہے تھے۔
نتیجہ اس ساری بحث سے یہی برآمد ہوتا ہے کہ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاشی، سیاسی، ثقافتی اور نظریاتی رشتے کافی پیچیدہ بنیادوں پر استوار ہیں۔ علیحدگی کے بعد دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بدرجہ اتم ہونا تھا اس لیے علیحدگی کی سوائے اس کے کوئی ٹھوس بنیاد سامنے نہیں آ رہی تھی کہ اصل مقصد اقتدار کو برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ میں منتقل کرنا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے آزادی کا تصور کچھ خاص معنی نہیں رکھتا۔ صرف استحصالیوں کے چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ جبر و استحصال کی ہیئت وہی رہتی ہے۔
معاشی مساوات صرف ایک سوشلسٹ سماج میں ہی قائم کی جا سکتی ہے اور حقیقی آزادی کے خواب کی تعبیر بھی ایک سوشلسٹ سماج میں ہی ہو سکتی ہے۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پاس ایسا کوئی حقیقی معاشی متبادل نہیں تھا کہ جو لوگوں کو زیادہ پُرکشش محسوس ہوتا۔ اسکاٹ لینڈ بھی آزادی کے بعد سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے محض مقداری تبدیلیوں کا ہی متحمل ہو سکتا تھا۔ فرق صرف یہ ہوتا کہ برطانوی سامراج کی بجائے اس کا فائدہ عالمی کمپنیاں اور کسی حد تک اسکاٹ لینڈ کے مقامی سرمایہ دار حکمران اٹھاتے۔ ا سکاٹ لینڈ کے عوام نے حقیقی آزادی کو نہیں، جس کی بنیاد معاشی مساوات کے تصور پر ہوتی ہے، بلکہ جعلی آزادی کے اس مخصوص تصور کو مسترد کیا ہے جس کا زیادہ تعلق محض اشکال کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ جس معاشی آزادی کے عوام خواہاں ہیں اس کے حصول کے امکانات فی الوقت متحدہ برطانوی شہنشاہیت میں قدرے زیادہ ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی تحریک آزادی سے ایک یہ درس بھی ملا ہے کہ آزادی کی تحریکیں چلانے والوں کے پاس بہرحال ایک مکمل معاشی پروگرام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر لوگوں کو علیحدگی کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشی ایجنڈے جب پیش کیے جاتے ہیں تو ان کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے ان میں موجود نکات کے گہرے تجزے کیے جاتے ہیں۔ مختلف اور متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں مضمر حقائق اور نقائص کو واضح کیا جاتا ہے۔ ٹی وی اور اخبارات کی وساطت سے عوام کی توجہ ان میں مضمر خامیوں کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے۔ علیحدگی پسند اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہیں، عقلی بنیادوں پران کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کیا جاتا ہے کہ عوام کی خوشحالی اور ترقی کے نقطہ نظر سے یہ معاشی ایجنڈا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟ فیصلے کا یہ عمل، بہرحال، اتنا شفاف نہیں ہوتا جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔
مفاد پرستوں کی ایما پرذرایع ابلاغ کے وسیلے سے عوام کی رائے کو دلائل سے متشکل کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی جاتی ہے۔ پروپیگنڈا کو ایک اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کے ذہن وقلب کو مسخر کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں بالا دستی قائم کرنے کی لڑائی میں غیر جانب دار کوئی بھی نہیں ہوتا۔ فتح کا تعلق محض درست پالیسیاں متعارف کرانے والے سے نہیں بلکہ شدت سے پروپیگنڈا کرنے والوں سے بھی ہو سکتا ہے۔
حکمران اپنے مفادات کی خاطر عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ چند مخصوص نعروں کی بنیاد پر معصوم لوگوں کا خون بہاتے رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت کو اپنے مفادات کو علیحدگی پسندوں کے نظریاتی مفادات سے الگ کر لینا چاہیے۔ قومی شناخت جیسے فرسودہ نظریاتی نعروں سے اپنا جذباتی استحصال کرانے کی بجائے ایک صحت مند معاشی پالیسی پر نظر رکھنی چاہیے۔ سرمایہ داری نظام میں تقسیم در تقسیم کی پالیسی حکمران جماعتوں کے متصادم مفادات کا نتیجہ ہوتی ہے۔
کسی حقیقی مطالبے کا شاخسانہ نہیں ہوتی۔ سرمایہ داری نظام میں معاشی مساوات کا تصور کرنا بھی محال ہے، اس لیے اگر تو معاشی مساوات کو ترجیح بنانا ہے تو محنت کشوں کو اپنے اتحاد پر نظر رکھتے ہوئے علیحدگی پسندوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے ہی جیسے دوسرے محنت کشوں سے بین الاقوامی سطح کے اتحاد کو ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مسلط کیے گئے معاشی استحصال اور نظریاتی یلغار سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
جب کہ 45 فیصد لوگ برطانیہ سے علیحدگی کے حامی تھے، جنھیں بلآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا سوال تو کئی بار اٹھ چکا ہے مگر گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اسکاٹ لینڈ کی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وزیر ایلکس سالمنڈ ایک بہتر معاشی پالیسی کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلسل یہ نعرہ لگاتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق دلوائیں گے، فتح، یعنی برطانیہ سے آزادی کے بعد اسکاٹ لینڈ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر سکتا ہے اور لوگ زیادہ خوشحالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
سالمنڈ کا ریفرنڈم کے انعقاد کا وعدہ تو پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، مگر اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کا فیصلہ ان کی خواہشات کے برعکس سامنے آیا ہے۔ بہرحال ایلیکس سالمنڈ نے شکست قبول کی اور جمہوری روایات کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف وزارت سے بلکہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ان الفاظ کے ساتھ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے کہ اصل کامیابی 'متحرک' رہنے میں ہے، اس لیے آزادی کا خواب زندہ رہنا چاہیے۔
اسکاٹ لینڈ کی تحریکِ آزادی سے کئی قابلِ توجہ نکات سامنے آئے ہیں: جیسا کہ حقیقی مسئلہ مخصوص اشکال سے آزادی نہیں ہے، اور نہ ہی آزادی کا تعلق طاقت کے مراکز کی تبدیلی سے ہے، قومی شناخت اتنی اہم نہیں جتنی کہ معاشی خوشحالی اہم ہے۔ آزادی کا مطلب عوام کے لیے اس معاشی آزادی کا حصول ہے جس سے عوام کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کا امکان پیدا ہو سکے۔ تعلیم، روزگار، رہائش اور ہر طرح کے معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ معاشی عدم استحکام سے علیحدگی کی تحریکیں ابھرتی ہیں، مگر علیحدگی پسندوں کے پاس اگر کوئی بہتر اور متبادل معاشی پالیسی نہ ہو تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پسماندہ اقوام میں قومی شناخت کی آئیڈیالوجی کو محض عوام کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
معاشی آزادی کا خواب کہ جس میں سب لوگوں کے لیے یکساں معاشی مساوات کا تصور قائم کیا جا سکے وہ سلطنتِ برطانیہ میں بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ حالیہ مالیاتی بحران نے مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک کی معاشی پالیسیوں کے کھوکھلے پن کو نمایاں کر دیا ہے۔ اس تناظر میں علیحدگی کے مطالبے میں شدت آنا فطری عمل ہے۔آزادی کا مطالبہ کرنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید علیحدگی کی صورت میں معیشت کی ترقی کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اس قیاس آرائی کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس معاشی منصوبہ بندی کا تنقیدی جائزہ نہ لے لیا جائے جس کی بنیاد پر علیحدگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے کم و بیش سبھی اخبارات علیحدگی پسند اسکاٹش رہنما ایلیکس سالمنڈ کی معاشی پالیسیوں میں مضمر قباحتوں کو سامنے لاتے رہے ہیں۔
ریفرنڈم سے تین روز قبل یعنی 15ستمبرکو سینٹر فار پالیسی اسٹڈی کی جانب سے ایک رپورٹ شایع کی گئی تھی، جس کے بعض حصے ڈیلی میل میں شایع ہوئے۔ اس رپورٹ میں سالمنڈ کے معاشی منصوبے کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سالمنڈ کی علیحدگی کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں نقصان نہ صرف اسکاٹ لینڈ کو ہو گا، بلکہ برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کے بھی اس سے شدید متاثر ہونے کے علاوہ اس کے براہ راست اثرات عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑیں گے۔ رپورٹ میں کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے گئے تھے کہ جن کا جواب آزادی کے حامی علیحدگی پسندوں سے طلب کر رہے تھے۔
نتیجہ اس ساری بحث سے یہی برآمد ہوتا ہے کہ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاشی، سیاسی، ثقافتی اور نظریاتی رشتے کافی پیچیدہ بنیادوں پر استوار ہیں۔ علیحدگی کے بعد دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بدرجہ اتم ہونا تھا اس لیے علیحدگی کی سوائے اس کے کوئی ٹھوس بنیاد سامنے نہیں آ رہی تھی کہ اصل مقصد اقتدار کو برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ میں منتقل کرنا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے آزادی کا تصور کچھ خاص معنی نہیں رکھتا۔ صرف استحصالیوں کے چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ جبر و استحصال کی ہیئت وہی رہتی ہے۔
معاشی مساوات صرف ایک سوشلسٹ سماج میں ہی قائم کی جا سکتی ہے اور حقیقی آزادی کے خواب کی تعبیر بھی ایک سوشلسٹ سماج میں ہی ہو سکتی ہے۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پاس ایسا کوئی حقیقی معاشی متبادل نہیں تھا کہ جو لوگوں کو زیادہ پُرکشش محسوس ہوتا۔ اسکاٹ لینڈ بھی آزادی کے بعد سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے محض مقداری تبدیلیوں کا ہی متحمل ہو سکتا تھا۔ فرق صرف یہ ہوتا کہ برطانوی سامراج کی بجائے اس کا فائدہ عالمی کمپنیاں اور کسی حد تک اسکاٹ لینڈ کے مقامی سرمایہ دار حکمران اٹھاتے۔ ا سکاٹ لینڈ کے عوام نے حقیقی آزادی کو نہیں، جس کی بنیاد معاشی مساوات کے تصور پر ہوتی ہے، بلکہ جعلی آزادی کے اس مخصوص تصور کو مسترد کیا ہے جس کا زیادہ تعلق محض اشکال کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ جس معاشی آزادی کے عوام خواہاں ہیں اس کے حصول کے امکانات فی الوقت متحدہ برطانوی شہنشاہیت میں قدرے زیادہ ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی تحریک آزادی سے ایک یہ درس بھی ملا ہے کہ آزادی کی تحریکیں چلانے والوں کے پاس بہرحال ایک مکمل معاشی پروگرام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر لوگوں کو علیحدگی کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشی ایجنڈے جب پیش کیے جاتے ہیں تو ان کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے ان میں موجود نکات کے گہرے تجزے کیے جاتے ہیں۔ مختلف اور متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں مضمر حقائق اور نقائص کو واضح کیا جاتا ہے۔ ٹی وی اور اخبارات کی وساطت سے عوام کی توجہ ان میں مضمر خامیوں کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے۔ علیحدگی پسند اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہیں، عقلی بنیادوں پران کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کیا جاتا ہے کہ عوام کی خوشحالی اور ترقی کے نقطہ نظر سے یہ معاشی ایجنڈا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟ فیصلے کا یہ عمل، بہرحال، اتنا شفاف نہیں ہوتا جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔
مفاد پرستوں کی ایما پرذرایع ابلاغ کے وسیلے سے عوام کی رائے کو دلائل سے متشکل کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی جاتی ہے۔ پروپیگنڈا کو ایک اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کے ذہن وقلب کو مسخر کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں بالا دستی قائم کرنے کی لڑائی میں غیر جانب دار کوئی بھی نہیں ہوتا۔ فتح کا تعلق محض درست پالیسیاں متعارف کرانے والے سے نہیں بلکہ شدت سے پروپیگنڈا کرنے والوں سے بھی ہو سکتا ہے۔
حکمران اپنے مفادات کی خاطر عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ چند مخصوص نعروں کی بنیاد پر معصوم لوگوں کا خون بہاتے رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت کو اپنے مفادات کو علیحدگی پسندوں کے نظریاتی مفادات سے الگ کر لینا چاہیے۔ قومی شناخت جیسے فرسودہ نظریاتی نعروں سے اپنا جذباتی استحصال کرانے کی بجائے ایک صحت مند معاشی پالیسی پر نظر رکھنی چاہیے۔ سرمایہ داری نظام میں تقسیم در تقسیم کی پالیسی حکمران جماعتوں کے متصادم مفادات کا نتیجہ ہوتی ہے۔
کسی حقیقی مطالبے کا شاخسانہ نہیں ہوتی۔ سرمایہ داری نظام میں معاشی مساوات کا تصور کرنا بھی محال ہے، اس لیے اگر تو معاشی مساوات کو ترجیح بنانا ہے تو محنت کشوں کو اپنے اتحاد پر نظر رکھتے ہوئے علیحدگی پسندوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے ہی جیسے دوسرے محنت کشوں سے بین الاقوامی سطح کے اتحاد کو ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مسلط کیے گئے معاشی استحصال اور نظریاتی یلغار سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔