قصہ خوانی کا فن رکھنے والے بزرگ لوگ

ویسے بھی علم شاندار عمارتوں اور اے۔ سی کمروں میں قید ہونے کی بجائے راستوں سے پاؤں میں سے دھول اڑاتے ۔۔۔


منظور ملاح September 24, 2014

ISLAMABAD: ہمارا مکھی کا خطہ وسیع چراگاہوں اور جھیلوں کے بچھائے ہوئے جال کی وجہ سے فطرت کے حسن سے بھرپور رہا ہے۔ مال مویشیوں کے ٹولے، دن کو مکھن، لسی اور رات کو دودھ کے ساتھ روٹی کھانے والے لوگ، جہاں سالن کی ہنڈیا شاذ و نادر ہی چڑھتی، جہاں کی مقامی بولی کے الفاظ اسی چرواہوں کے سماج کی عکاسی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ معاشی طور پر کھاتے پیتے لوگ تھے، تاہم سادگی کو انھوں نے کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

اگر یہاں ولیم ورڈس ورتھ رہتا تو یقینا برطانیہ کی لیک ڈسٹرکٹ کی فطری خوبصورتی سے زیادہ یہاں سے متاثر ہوتا اور ڈیفوڈلس نظم سے زیادہ کوئی شاندار نظم لکھتا، اسرائیلی لکھاری اموس اوز اسے دیکھتا تو اسرائیل کے ریتی کے ٹیلوں والے چھوٹے سے شہر آراد سے اٹھ کر یہاں کسی چھوٹے سے ٹیلے پر خیمے ڈالتا اور قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوتا اور اگر پورچوگال کے نوبل لاریٹ ادیب جوز سارا ماگو یہاں پیدا ہوتا تو شاید یہاں کے چرواہے ہی اس کے استاد ہوتے، جو آج بھی اپنا استاد اپنے وطن کے چرواہوں کو مانتا ہے۔ بقول سارا ماگو کہ جب وہ بیٹھ کر چرواہوں کی کچہریاں سنتے تو ان کا کہانی یا قصہ بتانے کا انداز اور ڈکشن اتنا دلفریب ہوتا کہ اس کے دل میں بھاتا جاتا تھا، یوں اس نے اپنی تصنیفوں میں اسی انداز کو اپنایا جنہوں نے انھیں ادب میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

میں بھی ایک ادنیٰ قسم کا لکھاری ہوں جو ذہنی عیاشی کے لیے کاغذ کالے کرتا ہے، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں جتنی بھی ادب کی الف ب جانتا ہوں، وہ ان بزرگ لوگوں کی دین ہے، جو کسی زمانے میں کچہری کے شاہ کاریگر تھے، میں نے جو بھی افسانے لکھے ہیں وہ ان ہی کرداروں کو لے کر لکھے ہیں۔ یہ ضعیف العمر لوگ، لوک ثقافت و روایات کے امین تھے، معاشی طور پر غریب ہوتے ہوئے بھی دل کے امیر تھے۔

کتنی بھی تکلیفیں آئیں، دکھ اٹھائے لیکن آج کی نوجوان نسل کی طرح صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، مجھے خشونت سنگھ کے تاریخی ناول دلی کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آج کی نوجوان نسل بڑی جلدی میں ہیں جو تھوڑے دنوں میں بڑی عمارتیں تعمیر کرنا چاہتی ہے پتہ نہیں یہ عمارتیں کتنے دن قائم رہ سکیں گی۔ لیکن وہ بھی لوگ تھے جنہوں نے مٹی کے گارے سے زیادہ وقت میں پائیدار عمارتیں تعمیر کیں جو دو سو سالوں تک بھی قائم رہیں۔ تو یہ بزرگ لوگ خونی رشتوں کا بھرم رکھتے ہی رکھتے لیکن آباؤ اجداد کی دوستیوں کے تسلسل کو بھی برقرار رکھتے، اجنبی مسافروں کو بھی اوطاق میں عزت کے ساتھ ٹھہراتے، دوستوں اور عزیزوں کی شادیوں اور غمیوں میں بھی شرکت کرتے چاہے وہ کوسوں دور کیوں نہ رہتے ہوں۔

یہ بزرگ لوگ گرمیوں کی موسم میں چاندنی یا اماوس راتوں میں ہمارے محلے کے ایک گھر میں اکٹھے ہوتے اور چارپائیوں پر کمر اور ٹانگوں کو کپڑے سے کس کر گھنٹوں تک تھکے بغیر بیٹھتے یا پھر سردیوں کی طویل راتوں میں درختوں کی موٹی موٹی لکڑیاں جلا کر نیچے چادریں بچھا کر کمر اور ٹانگیں کس کر آگ کے چاروں طرف بیٹھتے اور چائے کی چسکیاں بھی لیتے۔ پہلے تو کچہری کی شروعات کوئی تازا واقعہ سے کرتے کیوں کہ صبح کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ کوئی مال چرانے، کوئی زمینوں پر کام کرنے، جنگل میں لکڑیاں چننے یا پھر مچھلیاں پکڑنے جھیلوں کا رخ کرتے، اگر کوئی واقعہ خود کو پیش آتا، یا جو دیکھتے سنتے وہ آ کر رات کو کچہری میں بتاتے۔ یوں زندگی کے نئے رخ اور کڑوی حقیقتیں زیر بحث آتیں۔

جس پر اپنے عقل و فہم کے بنیاد پر ہر کوئی اپنی رائے دیتا، ان باتوں میں لوک دانش (wisdomٰٰ Folk) شامل ہوتی ہوتا۔ پھر ان میں سے کوئی ایک لوک شاعری یا رزمیہ شاعری ردھم کے ساتھ گالوں پر ایک ہاتھ رکھ کر الاپتا اور سننے والے واہ واہ کرتے۔ اس لوک شاعری میں وہاں کی محبت کے مقامی قصے، بہادری، دانائی، بھولی بسری مقامی تاریخ، لوک ثقافت اور روایات جھلکتیں اور سننے والوں کو محظوظ کرتیں۔ پھر باری آتی قصوں اور لوک کہانیوں کی۔ ان بزرگوں میں سے ایک احسان الحق عرف بگو تھے، یہ صبح سے شام تک اپنی سائیکل پر ٹوکری میں مچھلی ڈال کر سانگھڑ اور اس کے اطراف میں گھر گھر گلی گلی بیچتے، جو ذوالفقار علی بھٹو کے زبردست حامی اور جنرل ضیا الحق کے سخت مخالف تھے، جب کہانی سناتے تھے تو ان کی آواز پانی کے لہروں کی طرح تیرتی جاتی اور قریبی گھروں میں موجود لوگوں کے کانوں تک پہنچتی، دوسرے ٹانگوں سے معذور پیر بخش تھے۔

جو چارپائیاں بنتے اور چھوٹے بڑے سے کلام کرتے، جو جب بات کرتے تو زبان کے ساتھ ان کے ہاتھ اور فیس ایکسپریشن بھی ساتھ ساتھ چلتے جیسے کوئی واقعہ بتا نہیں رہا بلکہ ہو رہا ہو۔ ایک اور بزرگ قاضی گل محمد جنہوں نے پورے ملک کو اپنے پاؤں تلے روندا جو مچھلی کے بیوپاری تھے، وہ آج کے بنیاد پرست ملاؤں کی بجائے مذہب کے حقیقی ترجمان تھے، سفید ٹوپی پہنے اس شخص کی باتوں سے علم جھلکتا اور جب کوئی واقعہ سناتے تو سناتے ہی جاتے لیکن تسلسل نہ ٹوٹ پاتا۔ میری نانی اماں آنکھوں پر موٹا چشمہ پہن کر چارپائی پر بیٹھ کر جب دھیمے لہجے میں بات کرتیں تو بولی کی خوبصورتی اور ڈکشن لازوال ہوتا۔ ان کے پاس اچھے خاصے مال مویشی بھی تھے۔ جنھیں وہ انسانوں کی طرح پیار کرتیں۔ پائیلو کوہلو کے ناولوں کی طرح سپر نیچرل مخلوقات جنوں، بھوتوں اور پریوں کے قصے جو سننے والوں کو تفریح کا سامان مہیا کرتے۔ پھر باری آتی لوک کہانیوں کی، جو حقیقی واقعات، تجربات و حالات پر مشتمل ہوتیں، جن میں مقامی تاریخ، ثقافت اور اخلاقیات موجود ہوتیں۔

ان کہانیوں کو سنانے کا انداز، اسلوب، فن، ڈکشن، باڈی لینگویج اور باتوں میں تسلسل ایسا ہوتا جیسے دنیا کے کسی زبردست تخلیقی فن پارے کو پڑھا جا رہا ہے۔ میرے جیسے لوگ کونے میں بیٹھ کر غور سے ان کی باتیں سنتے۔ اگر ان میں سے آج کوئی بزرگ زندہ ہوتا تو یقینا دنیائے ادب کا بڑا نام ہوتا۔ قصہ خوانی کا فن شاید ان کی قدرتی میراث تھا۔ آج جب ہمارے جیسے پڑھے لکھے لکھاری جو صرف گوگل یا چند کتابوں تک محدود ہیں اور اپنے آپ کو بڑا لکھاری ثابت کرنے میں ادھر ادھر سے لے کر گزارا کرتے ہیں، کاش! ان بزرگ لوگوں کو سنتے تو شاید ایسی غلط فہمی میں نہ رہتے، کیوں کہ دنیا بہت وسیع ہے اور اس میں موجود انسانی حقیقتیں بہت گہری، جن کو ایکسپلور کرنا اور فنی اسلوب میں ڈالنا اتنا آسان نہیں، آج جب میں دنیا کے مختلف ادیبوں کی تصنیفیں پڑھتا ہوں تو وہ مجھے شدت سے یاد آتے ہیں۔

ویسے بھی علم شاندار عمارتوں اور اے۔ سی کمروں میں قید ہونے کی بجائے راستوں سے پاؤں میں سے دھول اڑاتے ہوئے مسافروں، زمین میں ہل چلانے والے ہاریوں، سر پر بھاری وزن اٹھانے والے مزدوروں، جھونپڑیوں میں رہنے والے بھوک و بدحالی کا شکار لوگوں، در در کی ٹھوکریں کھانے والے فقیروں جیسے ڈاؤن ٹو ارتھ لوگوں سے ملتا ہے، اس لیے دنیائے ادب میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے رائٹروں نے بھی ایسے لوگوں کا راستہ اختیار کیا ہے، گلیوں میں پیر گھسائے ہیں، ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک تہذیب سے دوسری تہذیب ہجرتیں کی ہیں، گرمیاں سردیاں برداشت کی ہیں، شہر شہر جنگل جنگل سدائیں لگائی ہیں اس لیے تو انھیں منزل ملی ہے۔

یقین نہ آئے تو ترکی کے نوبل لاریٹ رائٹر اورہان پاموک کی کتاب استنبول، انڈین نسل کے ٹرینیڈاڈ میں پیدا ہوئے اور برطانیہ میں رہنے والے وکھری قسم کے لکھاری وی ایس نائیپال کی بائیوگرافی ( is what it The world is اور سفرنامے کی صنف کے ایک بڑے امریکن لکھاری پال تھیرو کا سفرنامہ Ghost Train to The Eastern Star پڑھ کر دیکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں