ٹارگٹ کلنگ کا سونامی اور کراچی
گزشتہ سال نو منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حالات کی بہتری کے اقدامات کے لیے ۔۔۔
کراچی شہر عرصہ دراز سے دہشت گردی، مذہبی و سیاسی انتہاپسندی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت مسلسل تنزلی کی جانب جا رہی ہے اور بیروزگاری سمیت بے شمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔ رینجرز جو جامعہ کراچی میں 1992ء میں کشیدگی کو کم کرانے کے لیے بلوائی گئی بعد ازاں اسے کراچی میں قیام امن کی بہتری کیاضافی ذمے داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ یہ ادارہ دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود کراچی میں موجود ہے۔
گزشتہ سال نو منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حالات کی بہتری کے اقدامات کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس کراچی میں بلوا لیا جس میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی کمان وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے سپرد کر دی گئی رینجرز کے اختیارات میں بھی اضافہ کر دیا گیا اور ساتھ ساتھ پولیس کی بھاری نفری اور جدید ہتھیاروں سمیت دیگر سازوسامان کی فراہمی کی یقین دہانی کے ساتھ ڈی آئی جی شاہد حیات کو آپریشن چیف تعینات کیا گیا۔
ستمبر 2013ء میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز زور و شور سے ہوا۔ کراچی میں کئی مقامات پر بیک وقت پولیس و رینجرز کی مشترکہ کارروائیاں کی گئیں۔ لیاری جہاں جرائم پیشہ گروپ آپس میں دست و گریباں تھے جن کی وجہ سے عوام غیر محفوظ ہو چکے تھے ایسے میں ان اداروں نے صورتحال پر قابو پا لیا اور جو خاندان عدم تحفظ کے باعث اپنا گھر بار سب چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے تھے نہ صرف انھیں دوبارہ آباد کروایا بلکہ ڈکیتی، چوری سمیت دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی لائی گئی۔
کراچی کے مسائل میں اہم مسئلہ ٹارگٹ کلنگ تھا۔ آپریشن کے آغاز سے قبل ہلاکتوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر تشویشناک ہو چکی تھی جو بتدریج بہتر ہوئی۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ناکام ہوئیں اور ملزمان کی گرفتاری سے لے کر مغویوں کی باحفاظت بازیابی اسی آپریشن کے باعث ممکن ہوئی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ جب ادارے بہتری کی جانب مخلص انداز میں کام کرنے لگتے ہیں اور عوامی سطح پر اپنی ساکھ بنانا چاہتے ہیں تو سیاسی مداخلت آڑے آ جاتی ہے جو اس آپریشن کے دوران بھی دکھائی دی۔ بظاہر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن جوں ہی توپوں کا رخ اپنی جانب مڑتے ہوئے دیکھا چلا اٹھیں اور واویلا کیا جانے لگا جس کی گونج وفاقی وزیر داخلہ کو سننے کو ملی لیکن حکمت عملی کے تحت اسے دبا دیا گیا۔
آپریشن کی کمان نے شاہد حیات کو فری ہینڈ دے رکھا تھا تا کہ تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے اہداف حاصل کیے جائیں لیکن یہ کیفیت زیادہ دن نہ رہی اور سیاسی مداخلت نے اس کا بیڑا غرق کر دیا۔ کئی اہم عہدیداروں کی ذمے داریاں تبدیل کر دی گئیں اور فنڈز کی فراہمی سمیت جدید اسلحہ، بلٹ پروف گاڑیوں، بلٹ پروف جیکٹس، بکتر بند گاڑیوں کے حوالے سے اقدامات پر عمل درآمد روک دیا گیا جس نے ایک بار پھر کراچی کو ٹارگٹ کلنگ کی سونامی کے حوالے کر دیا۔
اس آپریشن کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2014ء کے مہینے میں سیاسی و مذہبی کارکنوں سمیت کئی اہم اور معتبر شخصیات کو ٹارگٹ کیا گیا جن میں شیعہ عالم عباس کمیلی کے فرزند علی اکبر کمیلی، جامعہ بنوریہ کے استاد مولانا مسعود اور جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج شامل ہیں۔ شہر میں بڑھتی ہوئی جرائم کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکامی پر ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے آئی جی سندھ سے استدعا کر دی ہے کہ انھیں اہداف کے حصول میں افرادی قوت سمیت ہتھیاروں اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جس کی فراہمی کا فیصلہ چند ماہ قبل کراچی میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کامیاب بنانے کے لیے کیا تھا۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے لیے گزشتہ ایک سال سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی ناکامی کے حوالے سے صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ آپریشن کے آغاز پر وفاق کی جانب سے مالی معاونت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم سال گزر جانے کے باوجود مطلوبہ مالی امداد فراہم نہیں کی گئی جب کہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو بکتر بند گاڑیوں سمیت دیگر ساز و سامان کی خریداری کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز میں خوردبرد کی اطلاعات ہیں۔ وفاق کا موقف ہے کہ اربوں روپوں کا اسلحہ وگاڑیوں کی خریداری میں صوبہ وفاقی حکومت کو اعتماد میں لے۔
وفاقی حکومت کی خواہش تھی کہ سندھ میں آئی جی پولیس کی تعیناتی میں بھی اس سے مشاورت کی جاتی لیکن غلام حیدر جمالی کو بغیر کسی مشاورت کے تعینات کر دیا گیا۔ شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے صوبائی حکومت اور وفاق کا ایک پیج پر نہ ہونا کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا اہم سبب ہے۔ستمبر 2013ء میں کراچی میں بحالی امن کے لیے وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آپریشن کی کامیابی کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں ایک کمیٹی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی انٹیلی جنس ادارے، رینجرز، نادرا اور نادرا سمیت صوبائی حکومت کے نمایندے شامل تھے۔
دوسری کمیٹی ڈی جی رینجرز کی سربراہی میں قائم کی گئی جس میں آئی جی پولیس و دیگر انٹیلی جنس ادارے شامل تھے جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہونے تھے جو نہ ہو سکے۔ تیسری کمیٹی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جس کا کام پکڑے جانے والے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف قائم مقدمات کے حوالے سے پراسیکیوشن کی کمزوریاں دور کرنا اور سفارشات پیش کرنا تھا لیکن یہ کمیٹی بھی فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔
چوتھی کمیٹی میں سوشل سوسائٹی کے افراد شامل تھے جنھوں نے آپریشن کو مانیٹر کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا کردار بھی غیر موثر رہا۔آپریشن کے آغاز پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کر دیے جائیں گے اور ساتھ ہی محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ بھی کر دیا جائے گا لیکن سال گزر گیا نہ ہی کراچی میں قیام امن کی صورتحال میں ہدف کے مطابق بہتری آئی اور نہ ہی پولیس کا محکمہ کالی بھیڑوں سے پاک ہوا۔
کراچی پولیس کے چیف کی جانب سے جن مطالبات کا کہا گیا ہے مگر ان پر بروقت عمل درآمد ہو جائے تو شہر میں علما، دانشوروں، ماہرین تعلیم سمیت اقتصادی و معاشرتی استحکام کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر کراچی علم و فضل سمیت ہر شے سے کنگال ہو جائے گا جس کے اثرات نہ صرف ملک بھر میں ہوں گے بلکہ آنے والی نسل بھی بے یارومددگار ہو جائے گی جو کسی طرح سے نیک شگون نہیں۔
گزشتہ سال نو منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حالات کی بہتری کے اقدامات کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس کراچی میں بلوا لیا جس میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی کمان وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے سپرد کر دی گئی رینجرز کے اختیارات میں بھی اضافہ کر دیا گیا اور ساتھ ساتھ پولیس کی بھاری نفری اور جدید ہتھیاروں سمیت دیگر سازوسامان کی فراہمی کی یقین دہانی کے ساتھ ڈی آئی جی شاہد حیات کو آپریشن چیف تعینات کیا گیا۔
ستمبر 2013ء میں ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز زور و شور سے ہوا۔ کراچی میں کئی مقامات پر بیک وقت پولیس و رینجرز کی مشترکہ کارروائیاں کی گئیں۔ لیاری جہاں جرائم پیشہ گروپ آپس میں دست و گریباں تھے جن کی وجہ سے عوام غیر محفوظ ہو چکے تھے ایسے میں ان اداروں نے صورتحال پر قابو پا لیا اور جو خاندان عدم تحفظ کے باعث اپنا گھر بار سب چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے تھے نہ صرف انھیں دوبارہ آباد کروایا بلکہ ڈکیتی، چوری سمیت دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی لائی گئی۔
کراچی کے مسائل میں اہم مسئلہ ٹارگٹ کلنگ تھا۔ آپریشن کے آغاز سے قبل ہلاکتوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر تشویشناک ہو چکی تھی جو بتدریج بہتر ہوئی۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ناکام ہوئیں اور ملزمان کی گرفتاری سے لے کر مغویوں کی باحفاظت بازیابی اسی آپریشن کے باعث ممکن ہوئی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ جب ادارے بہتری کی جانب مخلص انداز میں کام کرنے لگتے ہیں اور عوامی سطح پر اپنی ساکھ بنانا چاہتے ہیں تو سیاسی مداخلت آڑے آ جاتی ہے جو اس آپریشن کے دوران بھی دکھائی دی۔ بظاہر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن جوں ہی توپوں کا رخ اپنی جانب مڑتے ہوئے دیکھا چلا اٹھیں اور واویلا کیا جانے لگا جس کی گونج وفاقی وزیر داخلہ کو سننے کو ملی لیکن حکمت عملی کے تحت اسے دبا دیا گیا۔
آپریشن کی کمان نے شاہد حیات کو فری ہینڈ دے رکھا تھا تا کہ تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے اہداف حاصل کیے جائیں لیکن یہ کیفیت زیادہ دن نہ رہی اور سیاسی مداخلت نے اس کا بیڑا غرق کر دیا۔ کئی اہم عہدیداروں کی ذمے داریاں تبدیل کر دی گئیں اور فنڈز کی فراہمی سمیت جدید اسلحہ، بلٹ پروف گاڑیوں، بلٹ پروف جیکٹس، بکتر بند گاڑیوں کے حوالے سے اقدامات پر عمل درآمد روک دیا گیا جس نے ایک بار پھر کراچی کو ٹارگٹ کلنگ کی سونامی کے حوالے کر دیا۔
اس آپریشن کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2014ء کے مہینے میں سیاسی و مذہبی کارکنوں سمیت کئی اہم اور معتبر شخصیات کو ٹارگٹ کیا گیا جن میں شیعہ عالم عباس کمیلی کے فرزند علی اکبر کمیلی، جامعہ بنوریہ کے استاد مولانا مسعود اور جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج شامل ہیں۔ شہر میں بڑھتی ہوئی جرائم کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکامی پر ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے آئی جی سندھ سے استدعا کر دی ہے کہ انھیں اہداف کے حصول میں افرادی قوت سمیت ہتھیاروں اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جس کی فراہمی کا فیصلہ چند ماہ قبل کراچی میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کامیاب بنانے کے لیے کیا تھا۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے لیے گزشتہ ایک سال سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی ناکامی کے حوالے سے صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ آپریشن کے آغاز پر وفاق کی جانب سے مالی معاونت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم سال گزر جانے کے باوجود مطلوبہ مالی امداد فراہم نہیں کی گئی جب کہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو بکتر بند گاڑیوں سمیت دیگر ساز و سامان کی خریداری کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز میں خوردبرد کی اطلاعات ہیں۔ وفاق کا موقف ہے کہ اربوں روپوں کا اسلحہ وگاڑیوں کی خریداری میں صوبہ وفاقی حکومت کو اعتماد میں لے۔
وفاقی حکومت کی خواہش تھی کہ سندھ میں آئی جی پولیس کی تعیناتی میں بھی اس سے مشاورت کی جاتی لیکن غلام حیدر جمالی کو بغیر کسی مشاورت کے تعینات کر دیا گیا۔ شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے صوبائی حکومت اور وفاق کا ایک پیج پر نہ ہونا کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا اہم سبب ہے۔ستمبر 2013ء میں کراچی میں بحالی امن کے لیے وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آپریشن کی کامیابی کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں ایک کمیٹی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی انٹیلی جنس ادارے، رینجرز، نادرا اور نادرا سمیت صوبائی حکومت کے نمایندے شامل تھے۔
دوسری کمیٹی ڈی جی رینجرز کی سربراہی میں قائم کی گئی جس میں آئی جی پولیس و دیگر انٹیلی جنس ادارے شامل تھے جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہونے تھے جو نہ ہو سکے۔ تیسری کمیٹی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جس کا کام پکڑے جانے والے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف قائم مقدمات کے حوالے سے پراسیکیوشن کی کمزوریاں دور کرنا اور سفارشات پیش کرنا تھا لیکن یہ کمیٹی بھی فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔
چوتھی کمیٹی میں سوشل سوسائٹی کے افراد شامل تھے جنھوں نے آپریشن کو مانیٹر کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا کردار بھی غیر موثر رہا۔آپریشن کے آغاز پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کر دیے جائیں گے اور ساتھ ہی محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ بھی کر دیا جائے گا لیکن سال گزر گیا نہ ہی کراچی میں قیام امن کی صورتحال میں ہدف کے مطابق بہتری آئی اور نہ ہی پولیس کا محکمہ کالی بھیڑوں سے پاک ہوا۔
کراچی پولیس کے چیف کی جانب سے جن مطالبات کا کہا گیا ہے مگر ان پر بروقت عمل درآمد ہو جائے تو شہر میں علما، دانشوروں، ماہرین تعلیم سمیت اقتصادی و معاشرتی استحکام کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر کراچی علم و فضل سمیت ہر شے سے کنگال ہو جائے گا جس کے اثرات نہ صرف ملک بھر میں ہوں گے بلکہ آنے والی نسل بھی بے یارومددگار ہو جائے گی جو کسی طرح سے نیک شگون نہیں۔