بات کچھ اِدھر اُدھر کی بغیر تنخواہ کام کرنے والی عظیم ہستی

کیا آپ کو یاد ہے کہ’’مدرز ڈے‘‘ کے بعد آپ نے آخری بار اپنی ماں سے محبت کا اظہار کب کیا تھا؟

کیا آپ کو یاد ہے کہ’’مدرز ڈے‘‘ کے بعد آپ نے آخری بار اپنی ماں سے محبت کا اظہار کب کیا تھا؟۔ فوٹو رائٹرز

عنوان پڑھ کر یقیناً آپ چونک گئے ہوں گے۔ بھلا وہ کون سی شخصیت ہے جو دن رات ، چوبیس گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دن، یہاں تک کہ سال کے 365 دنوں میں بھی بنا کسی ستائش کی خواہش کے بغیر معاوضہ کام میں مصروف عمل رہتی ہے؟ ہم بھی کچھ ایسے ہی چونک سے گئے تھے جب بھارتی اداکار شرمن جوشی کی بنائی ہوئی مختصر دورانیے کی وڈیو دیکھی۔ شرمن جوشی نے یہ وڈیو اس عظیم ہستی کو ٹریبیوٹ پیش کرنے کے لیے بنائی ہے جس کے احسان ہم سب کی زندگی پر ہیں لیکن بہت کم لوگ ہیں جنھیں اس بات کا احساس ہو پاتا ہے۔


جی ہاں! تذکرہ ہے ''ماں'' کا۔ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے گھر اور پریوار کے لیے اپنا آرام و سکون ختم کر دیتی ہے۔ سال کا ایک دن بھی اسے اپنے کام سے چھٹی درکار نہیں ہوتی۔ عید تہوار پر جب ہم اپنے دوستوں اور کزنز کے ساتھ ہلہ گلہ کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ماں اس وقت بھی کچن میں ہمارے لئے پکوان تیار کررہی ہوتی ہے، گھر کی صفائی اور کام کاج میں مصروف عمل ماں کے مدنظر صرف اپنے بچوں کی خوشیاں ہوتی ہیں۔

کچھ قارئین یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بے وقت کی راگنی کیوں؟ ابھی تو ''مدرز ڈے'' کافی دور ہے اور خواتین کا کوئی اور دن بھی نزدیک نہیں۔ پھر اس تحریر کا مقصد؟ ان قارئین کی سوچ بھی غلط نہیں۔ اس طرح کی تحاریر قارئین کو مخصوص دنوں میں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ دراصل ہمارا مزاج ہی کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ ہم نے اپنے جذبات و احساسات کو بھی مخصوص دنوں سے جوڑ لیا ہے۔ مدرز ڈے پر ماؤں کو ٹریبیوٹ، فادرز ڈے پر باپ کو سلام، محبت کا دن الگ، اسی طرح فلاں فلاں دن ہی اپنے مخصوص جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ تو کیا ماں، باپ کو بھی محض خود کے رشتے سے مخصوص دن ہمارے لئے کام کرنا چاہیے؟ کیا حقیقتاً جذبات کے اظہار کے لیے دن مقرر کیا جاسکتا ہے؟ کسی دن کا منایا جانا تو غلط رجحان نہیں کہا جاسکتا لیکن اپنے جذبات کو صرف اسی دن سے مخصوص کردینا یقیناً غلط ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے ''مدرز ڈے'' کے بعد آپ نے اپنی ماں سے کتنی بار اس بات کا اظہار کیا کہ وہ آپ کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے؟ آپ نے آخری بار اپنی ماں سے محبت کا اظہار کب کیا تھا؟


ماں کی ہستی پر لکھنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ کئی صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔ آپ مدرز ڈے کے قریب اخبارات اٹھا کر دیکھیں، بلاگز پڑھیں تو آپ کو یکساں تحاریر نظر آئیں گی۔ میرا مطمع نظر ان تمام باتوں کو دہرانا بالکل بھی نہیں ہے، نہ ہی میں یہ چاہوں گا کہ درجنوں بار پڑھی ہوئی تحریر اس بلاگ میں آپ کو ایک بار پھر پڑھنا پڑے۔ لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ آپ ماں کی اہمیت کو محسوس کریں، اس کی قربانیوں کی قدر کریں، دن میں کم از کم ایک بار اپنی ماں سے لپٹ کر اسے اس بات کا احساس کرائیں کہ آپ بھی اپنی ماں سے پیار کرتے ہیں۔ ایک ماں اپنے بچوں سے شاید اسی ایک چیز کی خواہش رکھتی ہے۔ جب ہم کچھ اچھا کرتے ہیں تو ستائش کی امید رکھتے ہیں، اپنی معمولی سی محنت کا صلہ بھی بہت بڑا چاہتے ہیں تو کیا یہ خواہشات ایک ماں کے دل میں نہیں پنپتیں؟ کیا ماں کو اس بات کی خواہش نہیں ہوتی کہ بچے اس سے اپنی محبت کا اظہار کریں، اس کا خیال رکھیں؟

اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے جب میں دن بھر آفس میں گزار کر رات کے آخری پہر بھی گھر پہنچتا ہوں تو ماں کو اپنے انتظار میں جاگتا پاتا ہوں۔ ہر شخص کی ماں ایسی ہی ہوتی ہے۔ محبت کا پیکر۔ کیا ماں سے بڑھ کر بھی کچھ انمول ہوسکتا ہے۔ آپ لوگ بھی ایک بار شرمن جوشی کی یہ وڈیو ضرور دیکھیے گا، آپ کی آنکھیں یقیناً نم ہوجائیں گی۔ اور ہاں اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد ماں سے اپنی محبت کا اظہار ضرور کیجیے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story