بات کچھ اِدھر اُدھر کی بالی ووڈ یا فحاشی کا اڈہ
اپنی فلموں میں عریانی مناظر دکھانے کا نقصان کسی اور کو ہو نہ ہو مگر یہ بھارتی معاشرے کیلئے یقینی طور پر تباہ کن ہوگی۔
بھارتی فلموں کی خوبصورتی، سوسیقی اور اس فلم انڈسڑی کے اداکار پوری دنیا میں مشہور ہیں۔بھارتی فلم انڈسڑی میں لاتعداد کامیاب فلمیں بن چکی ہیں جو دیکھنے والوں کے ذہنوں میں آج بھی محفوظ ہیں جس کی بنیادی اور اولین وجہ فلموں کی کہانی رہی ہے اور شاید کسی حد تک یہاں کام کرنے والے کچھ ایسے نام بھی ہیں جن کو دنیا پسند کرتی ہے۔ دنیا بھر میں اُن کے پرستار ان کے اسٹائل اور فیشن کو کاپی کرنے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
آج سے کچھ عرصے قبل تک بھارت اِن اداکاروں کے بڑے ناموں کے ساتھ ساتھ فلم کی عکسبندی اورسب سے بڑھ کر کہانی پر بہت زیادہ توجہ دیتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ پرانے دور میں بننے والی فلمیں آج بھی لوگ ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کہ یہ پہلی بار دیکھی جارہی ہے۔
مگر اب شاید ترجیحات بدل گئی ہیں اور اس وقت بھارتی فلموں میں فلم کی کہانی سے زیادہ بے باک مناظر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے ذریعے فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے۔خواتین کو بھارت کی فلموں میںاب مثبت کردار ملنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ ہر فلم میں خاتون ادارکاروں کووہ کردار ادا کرنے کو دیا جاتا ہے جس سے فلم میں دیکھنے والوں کی دلچسپی بڑھ جائے۔اور شاید آج بھارت اس بات کو ہی ترجیح دے رہا ہے کہ ہر فلم میں رومانس،فحاش شدہ مواد دکھا کر ہر دیکھنے والوں کو فلم کی جانب متوجہ کیا جا ئےاور اب بھارت کی ہر فلم تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں فحاش مواد نہ دیکھایا جائے۔
ذرا ٹھہریے ٹھہریے ، یہ سب باتیں میں کوئی اپنی طرف سے نہیں کر رہا بلکہ مندرجہ بالہ باتیں تو اقوام متحدہ نے اپنی نئی رپورٹ میں کہی ہیں جو گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی ہیں۔ جس میں بھارتی فلم انڈسڑی میں خواتین کےمثبت کردار نہ ہونے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
اِس رپورٹ میں بھارت سمیت دوسری فلم انڈسڑیز کا نام بھی پوررٹ میں شامل ہے جن میں خواتین کو صرف منفی کرداروں کے لیے لیا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ نے آسٹریلیا اور جرمنی کے بعد بھارت کو فحاشی پھیلانے کے لیے تمام فلم انڈسڑیز سے زیادہ ذمہ دار قرار دیا ہے جہاں35 فیصد فلموں میں خواتین کو بے باک کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں دنیا کے ہر ملک کی ترقی میں خواتین کا نمایاں کردار ہے اور خواتین جہاں دوسرے ممالک سمیت بھارت میں بھی، ڈاکڑ،صحافی،انجینرز،سائنس دان ،جیسے شعبوں سے منسلک ہیں تو پھر بھارت کی فلموں میں خواتین کا یہ چہرہ کیوں نہیں دکھایا جاتا ؟بھارتی فلموں میں عورت کو ڈاکڑ،صحافی یا اِس جیسے مقدس کرداروں میں نہیں دکھائے جانے کے بجائے اُس کے جسم کی نمائش کے ذریعے پیسہ کمانے کی جستجو کیوں کی جاتی ہے؟۔
اگرچہ اِس طرح کے کرداروں کی نمائش سے بھارتی فلم انڈسٹری مالی طور پر خود کفیل ہورہی ہوگی مگر یہ بھارتی معاشرے کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ آخر اِس معاشرے میں وہ کونسی کمی ہے جس کے سبب لوگ اخلاقی طور پر اِس قدر پست ترین مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اُن کا شوق بس اب عریانیت ہی رہ گیا ہے اور شاید بھارت میں آئے روز ریپ کے واقعات بھی اِس کڑی کا حصہ ہیں ۔
بھارت کی کوئی بھی فلم چایئے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو،اس کی سٹوری کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہواور اس کی لاگت چائیے کتنی زیادہ کیوں نہ ہولیکن جب تک اس فلم میں ہی عریانی مناظر کو شامل نہ کیا جائے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ فلم مکمل ہی نہیں ہوسکتی گویا اِ ن مناظر کو فلموں کے لیے لازم و ملزون بنادیا گیا ہے اور یہ عادت کسی اور کے لیے نقصان دہ ہوں یا نہیں مگر بھارتی معاشرے کے لیے یقینی طور پر تباہ کن ہوگی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج سے کچھ عرصے قبل تک بھارت اِن اداکاروں کے بڑے ناموں کے ساتھ ساتھ فلم کی عکسبندی اورسب سے بڑھ کر کہانی پر بہت زیادہ توجہ دیتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ پرانے دور میں بننے والی فلمیں آج بھی لوگ ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کہ یہ پہلی بار دیکھی جارہی ہے۔
مگر اب شاید ترجیحات بدل گئی ہیں اور اس وقت بھارتی فلموں میں فلم کی کہانی سے زیادہ بے باک مناظر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے ذریعے فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے۔خواتین کو بھارت کی فلموں میںاب مثبت کردار ملنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ ہر فلم میں خاتون ادارکاروں کووہ کردار ادا کرنے کو دیا جاتا ہے جس سے فلم میں دیکھنے والوں کی دلچسپی بڑھ جائے۔اور شاید آج بھارت اس بات کو ہی ترجیح دے رہا ہے کہ ہر فلم میں رومانس،فحاش شدہ مواد دکھا کر ہر دیکھنے والوں کو فلم کی جانب متوجہ کیا جا ئےاور اب بھارت کی ہر فلم تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں فحاش مواد نہ دیکھایا جائے۔
ذرا ٹھہریے ٹھہریے ، یہ سب باتیں میں کوئی اپنی طرف سے نہیں کر رہا بلکہ مندرجہ بالہ باتیں تو اقوام متحدہ نے اپنی نئی رپورٹ میں کہی ہیں جو گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی ہیں۔ جس میں بھارتی فلم انڈسڑی میں خواتین کےمثبت کردار نہ ہونے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
اِس رپورٹ میں بھارت سمیت دوسری فلم انڈسڑیز کا نام بھی پوررٹ میں شامل ہے جن میں خواتین کو صرف منفی کرداروں کے لیے لیا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ نے آسٹریلیا اور جرمنی کے بعد بھارت کو فحاشی پھیلانے کے لیے تمام فلم انڈسڑیز سے زیادہ ذمہ دار قرار دیا ہے جہاں35 فیصد فلموں میں خواتین کو بے باک کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں دنیا کے ہر ملک کی ترقی میں خواتین کا نمایاں کردار ہے اور خواتین جہاں دوسرے ممالک سمیت بھارت میں بھی، ڈاکڑ،صحافی،انجینرز،سائنس دان ،جیسے شعبوں سے منسلک ہیں تو پھر بھارت کی فلموں میں خواتین کا یہ چہرہ کیوں نہیں دکھایا جاتا ؟بھارتی فلموں میں عورت کو ڈاکڑ،صحافی یا اِس جیسے مقدس کرداروں میں نہیں دکھائے جانے کے بجائے اُس کے جسم کی نمائش کے ذریعے پیسہ کمانے کی جستجو کیوں کی جاتی ہے؟۔
اگرچہ اِس طرح کے کرداروں کی نمائش سے بھارتی فلم انڈسٹری مالی طور پر خود کفیل ہورہی ہوگی مگر یہ بھارتی معاشرے کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ آخر اِس معاشرے میں وہ کونسی کمی ہے جس کے سبب لوگ اخلاقی طور پر اِس قدر پست ترین مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اُن کا شوق بس اب عریانیت ہی رہ گیا ہے اور شاید بھارت میں آئے روز ریپ کے واقعات بھی اِس کڑی کا حصہ ہیں ۔
بھارت کی کوئی بھی فلم چایئے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو،اس کی سٹوری کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہواور اس کی لاگت چائیے کتنی زیادہ کیوں نہ ہولیکن جب تک اس فلم میں ہی عریانی مناظر کو شامل نہ کیا جائے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ فلم مکمل ہی نہیں ہوسکتی گویا اِ ن مناظر کو فلموں کے لیے لازم و ملزون بنادیا گیا ہے اور یہ عادت کسی اور کے لیے نقصان دہ ہوں یا نہیں مگر بھارتی معاشرے کے لیے یقینی طور پر تباہ کن ہوگی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔