میڈیا واچ ڈاگ – ایک نئی مثال
ہم تو خود کو سب قوموں سے بہتر قوم سمجھتے ہیں لیکن خدا کی مخلوق کے ساتھ ہمارا برتاؤ جانوروں سے بھی بد تر ہے۔
بھارت میں ایک خواجہ سرا پدمنی پرکاش کو ٹی وی نیوز اینکر کی جاب مل گئی، اور یہ تب ہی ممکن ہوا ہے جب بھارتی سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤ ں کو تیسری جنس تسلیم کیا ہے۔ پدمنی پرکاش کی عمر 31 سال ہے اور کافی عرصے سے وہ نہ صرف ٹی وی ڈراموں میں کام کرتی رہی ہے بلکہ خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے بھی کام کیا ہے۔
یہ خبر سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی، ساتھ ہی ذہن میں خیال آیا کہ کیا ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے؟ اس بات کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاپتا ہوں۔ کچھ سال پہلے میرا قبرستان جانے کا اتفاق ہوا تو جنازہ گاہ میں آٹھ دس لوگوں کو اکھٹے دیکھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کسی خواجہ سرا کی موت ہوگئی ہے جس کو دفنانے کے لئے خواجہ سرا جمع ہیں۔خواجہ سرا اپنے دوست کی میت کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے۔ اُن کا رونانقلی نہیں بلکہ اصلی تھا۔ لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُن کو اپنے دوست کی موت کا بہت زیادہ دکھ تھا یا یہ کہ وہ اُس کے اس چھوٹے سے جنازے کو دیکھ کر رو رہے تھے۔ ایسا جنازہ تو شاید لاوارثوں کا بھی نہیں ہوتا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے خواجہ سراؤں کو انسان ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اگر نہیں تو یہ جنازہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اس سے بڑے جنازے تو رشوت خوروں کے ہوتے ہیں۔حالانکہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔ جو حدیث کی رو سے جہنمی ہے ہم اُس کی سفارش کیلئے تو جنازے میں شریک ہوتے ہیں لیکن خواجہ سرا جو قدرت کی تخلیق کا بہترین نمونہ ہے وہ ہماری نفرت کے نشانے پر ہیں۔
ہم بڑے منافق ہیں۔ ہمیں وہ حدیثیں تو یاد ہوتی ہیں کہ جانوروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے لیکن خواجہ سرا جو خود بھی ایک انسان ہیں اُن کو ہم انسانیت کا درجہ نہیں دیتے۔ ہمیں ایک بادشا ہ اور چیونٹی والا واقعہ تو یاد ہوتا ہے کہ کیسے ایک باہمت چیو نٹی نے نااُمید بادشاہ کو کامیابی کا راستہ دکھا دیا لیکن جب میں نے سوال پوچھا کہ کیا خواجہ سراؤں کو پاکستان میں بھی باعزت کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو یقیناً بہت سے لوگوں کو میرا یہ سوال کانٹے کی طرح چھبنے لگا ہوگا۔
آخر کب تک ہم اس حقیقت سے نظریں چرائیں گے کہ خواجہ سرا بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اگر وہ ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جو عام طور پر پسند نہیں کئے جاتے تو اس کی وجہ خواجہ سرا نہیں بلکہ ہم خودہیں۔ ہم نے ان لوگوں کو معاشرے میں کوئی اور کام کرنے کا موقع ہی کب دیا ہے۔ناچتے گاتے یہ لوگ ہماری ذہنی اور سماجی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم تو خود کو سب قوموں سے بہتر قوم سمجھتے ہیں لیکن خدا کی مخلوق کے ساتھ ہمارا برتاؤ جانوروں سے بھی بد تر ہے۔
کبھی آپ گوگل پرshemale کا لفظ تلاش کرکے دیکھیں یقیناً آپ کو حیرانی ہوگی، کیونکہ وہاں کوئی ایک ڈھنگ کا لنک یا ویب سائٹ نہیں ملے گی صرف بے لباس اور رقص کرتی تصویریں ہی نظر آئی۔ اس بات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں یہ مخلوق مظلوم ہے۔ ہم پوری کائنات میں کسی دوسری مخلوق کی تلاش کرنے میں مصروف ہیں جبکہ زمین پر خواجہ سرا جیسی ''دوسری مخلوق'' ہماری بے حسی کا شکار ہے۔ صرف ایک بار ان کے بارے میں بھی سوچئے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ خبر سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی، ساتھ ہی ذہن میں خیال آیا کہ کیا ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے؟ اس بات کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاپتا ہوں۔ کچھ سال پہلے میرا قبرستان جانے کا اتفاق ہوا تو جنازہ گاہ میں آٹھ دس لوگوں کو اکھٹے دیکھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کسی خواجہ سرا کی موت ہوگئی ہے جس کو دفنانے کے لئے خواجہ سرا جمع ہیں۔خواجہ سرا اپنے دوست کی میت کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے۔ اُن کا رونانقلی نہیں بلکہ اصلی تھا۔ لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُن کو اپنے دوست کی موت کا بہت زیادہ دکھ تھا یا یہ کہ وہ اُس کے اس چھوٹے سے جنازے کو دیکھ کر رو رہے تھے۔ ایسا جنازہ تو شاید لاوارثوں کا بھی نہیں ہوتا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے خواجہ سراؤں کو انسان ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اگر نہیں تو یہ جنازہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اس سے بڑے جنازے تو رشوت خوروں کے ہوتے ہیں۔حالانکہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہوتے ہیں۔ جو حدیث کی رو سے جہنمی ہے ہم اُس کی سفارش کیلئے تو جنازے میں شریک ہوتے ہیں لیکن خواجہ سرا جو قدرت کی تخلیق کا بہترین نمونہ ہے وہ ہماری نفرت کے نشانے پر ہیں۔
ہم بڑے منافق ہیں۔ ہمیں وہ حدیثیں تو یاد ہوتی ہیں کہ جانوروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے لیکن خواجہ سرا جو خود بھی ایک انسان ہیں اُن کو ہم انسانیت کا درجہ نہیں دیتے۔ ہمیں ایک بادشا ہ اور چیونٹی والا واقعہ تو یاد ہوتا ہے کہ کیسے ایک باہمت چیو نٹی نے نااُمید بادشاہ کو کامیابی کا راستہ دکھا دیا لیکن جب میں نے سوال پوچھا کہ کیا خواجہ سراؤں کو پاکستان میں بھی باعزت کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو یقیناً بہت سے لوگوں کو میرا یہ سوال کانٹے کی طرح چھبنے لگا ہوگا۔
آخر کب تک ہم اس حقیقت سے نظریں چرائیں گے کہ خواجہ سرا بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اگر وہ ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جو عام طور پر پسند نہیں کئے جاتے تو اس کی وجہ خواجہ سرا نہیں بلکہ ہم خودہیں۔ ہم نے ان لوگوں کو معاشرے میں کوئی اور کام کرنے کا موقع ہی کب دیا ہے۔ناچتے گاتے یہ لوگ ہماری ذہنی اور سماجی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم تو خود کو سب قوموں سے بہتر قوم سمجھتے ہیں لیکن خدا کی مخلوق کے ساتھ ہمارا برتاؤ جانوروں سے بھی بد تر ہے۔
کبھی آپ گوگل پرshemale کا لفظ تلاش کرکے دیکھیں یقیناً آپ کو حیرانی ہوگی، کیونکہ وہاں کوئی ایک ڈھنگ کا لنک یا ویب سائٹ نہیں ملے گی صرف بے لباس اور رقص کرتی تصویریں ہی نظر آئی۔ اس بات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں یہ مخلوق مظلوم ہے۔ ہم پوری کائنات میں کسی دوسری مخلوق کی تلاش کرنے میں مصروف ہیں جبکہ زمین پر خواجہ سرا جیسی ''دوسری مخلوق'' ہماری بے حسی کا شکار ہے۔ صرف ایک بار ان کے بارے میں بھی سوچئے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔