لندن پلان یا عوامی مزاحمت
آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ دھرنے کے خلاف اور لندن کی کہاوت دہرانے والوں کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا ۔۔۔
سیاسی طور پر کمزوری کا شکار لوگوں نے شور و غوغا مچا رکھا ہے، دراصل کسی بلند مقصد کے لیے ہم خیال لوگوں کا جمع ہونا اور ناانصافی کے خلاف تحریک چلانا کوئی سازش نہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے، این آر او (NRO) نے کوئی جمہوریت بحال نہیں کروائی بلکہ ایک کے بعد دوسرے کی باری لگا دی تا کہ پاکستانی دھن باآسانی باہر جا سکے اور ایسا ہی ہوا، ہو رہا ہے، اور ہوتا رہے گا۔
آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ دھرنے کے خلاف اور لندن کی کہاوت دہرانے والوں کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا اور اس اجلاس میں کیا طے ہوا کچھ نہیں صرف یہ کہ حکمرانی کا حق ہمارا ہے ۔ عمران خان محسوس کر رہے ہیں کہ40 روز کا سیاسی چلہ جو علامہ طاہر القادری کے ساتھ ڈی چوک پر کاٹا وہاں ان کو جانثاروں کی پہچان ہونے لگی ہے۔ موج در موج بڑھتے ہوئے یہ لوگ جنھوں نے دفعہ 144 کی کلائی موڑ دی اب دھرنے میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہونے لگی۔
گزشتہ دس دنوں سے ان کی یہ کیفیت بڑھتی جا رہی ہے دوسری جانب علامہ طاہر القادری پاکستان کے آئین کی تشریح کو پوری قوت سے عوام کو سمجھا رہے ہیں اور حکمرانوں نے قانون اور دستور پاکستان کو جو اپنی کنیز بنا رکھا ہے اس کا وہ تذکرہ کر کے عوام کو آگہی دے رہے ہیں اس لیے اب جمہور کو جمہوریت کا شعور آتا جا رہا ہے اس لیے عمران خان نے اتوار 21 اکتوبر کو کراچی جلسے کا اعلان کیا جس کا کراچی والوں نے جس طرح خیرمقدم کیا اس سے ان کی مقبولیت کا چراغ مزید روشن ہو گیا۔ مجھے کئی فون آئے کہ آپ عمران خان کو فون کر کے بتائیں کہ وہ ہاریوں کو جمع کریں اور سندھ ہاری کمیٹی کے چیئرمین اظہر جتوئی سے رابطہ کریں۔
قبل اس کے کہ وہ اندرون سندھ آئیں ان کی حالیہ تقریروں اور خصوصاً اتوار کو کراچی کے جلسے میں ان کا خطاب ہاریوں کے لیے حوصلہ افزا ہے مجھے کہنا پڑا بھائی میرا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں یہ تو میرا قلم ہے جو انصاف کی عدالت میں کھڑا اشک بہا رہا ہے۔ سندھ ہاری کمیٹی کے تقریباً 30 ہزار کارکن ہیں مگر بٹے ہوئے فاصلے دور دور نوابشاہ اور لاڑکانہ، سانگھڑ اور تھر میں بھی ان کے کارکن اور خاص طور سے حیدرآباد میں ان کا مرکز ہے اس کے علاوہ چوڑیوں کی کاٹیج انڈسٹری میں دس لاکھ عورتیں کام کرتی ہیں ان کی ٹریڈ یونین بھی ہے جو تحریک کا ہراول دستہ اور انقلاب کا پیش رو بنے گا اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے۔
لہٰذا جیسا کہ عمران خان تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں اور نظام کو بدلنا چاہتے ہیں طلبہ مزدور اور کسانوں کی شمولیت ضروری ہے مڈل کلاس جس کو آپ سول سوسائٹی کہتے ہیں یہ بھی نہایت ضروری ہے، پاکستان کے عوام کئی بار انقلاب کے لیے اٹھے، پہلا انقلاب 1953-1954 دوسرا انقلاب 1968-70جس میں اسٹیبلشمنٹ کے کارندوں اور اسٹیٹس کو کے رکھوالوں نے ملک کو دو لخت کر دیا اور بہت عرصے بعد اب جون 2014 میں شروع ہوا اور اب بڑھنے کو ہے۔ روایتی بلکہ بقول ماؤزے تنگ کے جمہوریت کے یہ مراعات یافتہ کاغذی شیر حد فاضل ہیں اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ مراعات یافتہ طبقہ جمہوریت کے نام پر کرپشن میں مصروف ہے ایسا لگتا ہے جیسے جمہوریت کوئی غذا ہے جو صبح ناشتے میں، دوپہر کے کھانے اور رات کے ڈنر میں استعمال ہوتی ہے۔
یقیناً اس نام نہاد جمہوری دور میں پٹرول کا نرخ دگنا ڈالر 60 سے 100 کا، دال 100 روپے کلو تھی دیکھتے ہی دیکھتے 200 تک آ گئی کیا جمہوریت اسی کا نام ہے اگر جمہوریت یہی ہے تو اس کو دور سے سلام آخر خلق خدا کے ساتھ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں منی لانڈرنگ میں مصروف ہمارے حکمران بیرونی ممالک میں کاروبار کر رہے ہیں اور اپنے ملک میں حکومت کی ناؤ کو ڈبو رہے ہیں رحمت خداوندی کو نہروں اور جھیلوں، چھوٹے سیکڑوں ڈیموں کو بنا کر استعمال کرنے کے بجائے بستیاں اجاڑ رہے ہیں، فصلیں تباہ کر رہے ہیں اور اس قیمتی پانی کو سمندر برد کرنے میں مصروف ہیں پاکستانی حکمرانوں کے پروٹوکول، ان کا انداز شہنشاہی اور بھارتی حکومت کا سرمایہ نریندر مودی کا گجرات میں گھر اور ہمارے حکمرانوں کے قلعے اور نسل در نسل سرکتی گدی کیا معنی؟ یہ کیسی جمہوری جادوگری ہے کہ جمہوری دور میں مرسوں مرسوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
ارے بھائی جمہوری مسئلے جمہوری طور سے ہی حل ہوتے ہیں ابھی اسکاٹ لینڈ (Scotland)کی خودمختاری کا مسئلہ Yes کے تین حروف سے حل ہو گیا، ظاہر ہے یہ تمام کے تمام غیر جمہوری اقدام ہیں، نہ تو جمہوری دور میں لوکل Local Body الیکشن ہوتے ہیں اور نہ عوام کو کوئی متبادل حل دیا جاتا ہے یہ مسائل دانستہ پیدا کیے جاتے ہیں تا کہ ملک میں انتشار چلتا رہے اور عوام اصل معاشی اور سماجی مسائل سے دور رہیں اگر صوبوں کا مسئلہ ہے تو ریفرنڈم کرایا جا سکتا ہے۔
ریفرنڈم ایسا نہیں جیسا کہ حال میں ہوا بلکہ ایسا جو 1970ء میں ہوا اور مردم شماری کے بعد فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر ہو تا کہ ایسا نہ ہو کہ قریبی پولنگ اسٹیشنوں کے گھروں میں ٹھپے لگائے جا رہے ہوں اور ریفرنڈم ہو اور انتظامی امور کے لیے صوبے بنائے جائیں بھارت میں دوگنے صوبے ہو گئے کوئی ملک نہ ٹوٹا بلکہ مضبوط ہوا۔ حیدرآباد دکن میں حال ہی میں تلنگانہ صوبہ بن گیا حالانکہ بین الاقوامی طور پر دکن کے اس حصے کے رہنے والوں کو نقصان ہوا وہ اس لیے کہ حیدر آباد دکن کو امریکا نے 1947ء میں اسپیشل اسٹیٹس دے رکھا تھا ۔
اس لیے وہاں کے ساکنان کو امریکا جانے کی آسانی ہے اسی لیے امریکا کے شہر شکاگو میں حیدرآباد دکن کے خاصے لوگ آباد ہیں اور بعض علاقوں پر تو پاکستان یا بھارت کا گمان ہوتا ہے اردو زبان میں لکھے دکانوں کے بورڈ بھارتی حکومت کی ہوش مندی کا پتہ دیتے ہیں سیاسی آسودگی تو ہے گو کہ بھارت میں غریب اور امیر کا فرق یوں ہی بڑھتا گیا تو انتشار بڑھ سکتا ہے مگر ہمارے یہاں تو ابھی بھی عوام کو بھیڑ بکری سمجھا جاتا ہے۔ بقول عمران خان کے سندھ میں ہاریوں کے ساتھ بڑا ظلم ہے دیکھیں سندھ میں جبر کی زنجیریں کب ٹوٹتی ہیں دراصل اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے لندن پلان نہیں بلکہ عوامی مزاحمت کی شروعات ہے۔