بھارت چین سرحدی تنازعے میں پیچیدگی
جواہر لعل نہرو نے 1962 میں ہی بھارت کو خبردار کر دیا تھا کہ چین سے محض کسی علاقے کا تنازعہ نہیں ۔۔۔
میری پریشانی یہ ہے کہ ریاست گجرات کے جاری کردہ بھارت کے نقشے میں ارونچل پردیش کو نقطوں والی لائنوں میں دکھایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک متنازعہ سرزمین ہے اور یہ وزیر اعظم مودی کے ایما پر کیا گیا۔ مودی بھارت کا دورہ کرنے والے چینی صدر کو غالباً یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ ارونچل پردیش کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیہ کہ چینی حکومت کی طرف سے بھی یہ اشارہ دیا جائے کہ وہ نئی دہلی کی معقولیت اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سرحد تنازعے کو خوش اسلوبی سے حل کرے گی۔
لیکن ایک طرف جہاں لداخ میں دونوں فوجیں مدمقابل کھڑی ہیں ارونچل والے معاملے میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔چینی صدر کا جواب بھی کوئی خاص حوصلہ افزا نہ تھا جنہوں نے اپنے دورے کے دوران بھارتی سرزمین پر چینی تجاوز کو قائم رکھا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ بیجنگ واپس لوٹ کر چینی صدر نے مبینہ طور پر اپنے چوٹی کے فوجی کمانڈروں کو کہا کہ وہ علاقائی جنگوں کے لیے تیار رہیں، جنھیں ہر صورت میں جیتا جانا چاہیے۔ یہ سب نئی دہلی کے خلاف تھا لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ادھر سے ناگواری کے اظہار میں ایک لفظ بھی نہیں آیا۔ یہ وہ انداز ہے جو باجگزار ریاستیں اپنے آقاؤں کے ساتھ اختیار کرتی ہیں۔مجھے حیرانی ہوئی آخر ہم نے چینی صدر کو دعوت ہی کیوں دی ہے جب کہ بیجنگ نے 1962 میں دھوکے سے بھارت پر حملہ کر دیا تھا اور ادھر سے کوئی معذرت بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی وہ علاقہ واپس کیا ہے ۔
جس پر اس نے بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے۔ وزارت خارجہ کو چینی صدر کے دورے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ بھارت 1962 میں چین کے ہاتھوں زک اٹھا چکا ہے۔ بیجنگ کو اپنی بڑھتی ہوئی طاقت سے اپنی برتری کا احساس ہوا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کر رہا ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب بھارت غیر منظم اور منقسم نظر آ رہا ہے۔نئی دہلی کے لیے یہ خیال کرنا بھی ضروری ہے کہ بیجنگ' سری لنکا' بنگلہ دیش' میانماربرما اور نیپال میں ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر نظر آنے لگا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کا بھارت کے گرد گھیرا ہے۔ نئی دہلی کو بھی تائیوان' ویتنام اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک سے رابطہ کرنا چاہیے جو کہ چین کے دباؤ کا شکار ہیں۔ بیجنگ کو یہ احساس بھی دلانا چاہیے کہ بھارت نے تبت پر چین کی بالادستی تسلیم کر لی ہے لیکن وہ اس علاقے میں آبادی کی کوئی تبدیلی نہیں چاہتا اور نہ ہی اس علاقے کے عوام پر چین کا ناجائز دباؤ قبول کرے گا۔ گو کہ دلائی لاما کو پہلے ہی دیوار سے لگایا جا چکا ہے۔
جواہر لعل نہرو نے 1962 میں ہی بھارت کو خبردار کر دیا تھا کہ چین سے محض کسی علاقے کا تنازعہ نہیں بلکہ اختلافات کی وجوہات کہیں زیادہ گہری ہیں۔ ایشیا کے یہ دو سب سے بڑے ممالک اپنی وسیع سرحد پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان میں بہت سے اختلافات موجود ہیں جن میں تازہ ترین یہ ہے کہ ان دونوں میں سے پورے براعظم ایشیا میں کون بالادست ہے۔میں چینی صدر کی عزت میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہتا لیکن ان کے دورے کی ناکامی پہلے ہی نوشتہ دیوار تھی۔ سرمایہ کاری سے سرحد کے تکلیف دہ مسئلے کی کوئی تشفی نہیں ہوئی۔ مجھے ابھی تک چینی صدر کے اس دورے کے بھارتی نکتہ نظر سے مقصد کی سمجھ نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ لداخ میں چین کی اس وقت مداخلت نے جب صدر اور وزیر اعظم دہلی میں بات چیت کر رہے تھے سرحدی مسائل کو اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے۔
چین 20 ارب ڈالر کی بھارت میں سرمایہ کاری کرے گا حالانکہ پہلے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا کہا گیا تھا۔ اس سرمایہ کاری کا چین کو ہی فائدہ ہو گا کیونکہ وہ نئی دہلی کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اور یہاں مواقع بھی بہت زیادہ ہیں لیکن اصل چیز جو بنیادی حیثیت کی حامل ہے وہ ہے بھروسہ اور اعتماد۔ نہرو نے چینی لیڈر چواین لائی کو دنیا سے متعارف کروایا تب وہ نہرو کو منہ اونچا کر کے دیکھا کرتے تھے لیکن پھر وہ بین الاقوامی منظرنامے میں داخل ہو گئے۔ چواین لائی نے نہرو کو دھوکا دیا اور چین نے ہمارے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس بات کا بھی کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں تھے۔
میں نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی چینی صدر کے ساتھ اتنی ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں جتنی نہرو کو چواین لائی کے ساتھ حاصل تھی۔ اس کے باوجود چواین لائی نے اپنا وہ مقصد پورا کر لیا جو ان کے ذہن میں تھا۔ لداخ کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا جس کے بارے میں چین کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر چین کی طرف سے اس وقت مداخلت سے، جب دہلی میں مودی اور چینی صدر کے مابین بات چیت ہو رہی تھی، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین سرحدی معاملے میں بھارت کی کچھ نہیں سننا چاہتا۔مجھے بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر اس حوالے سے کوئی پختہ عزم نظر نہیں آتا۔ ہماری تمنائیں تو بہت ہیں۔ آخر اس بات کا کیا فائدہ کہ وزیر اعظم مودی نے زیادہ بہتر بات چیت کی یا چینی صدر نے سرحدی مسائل پر اپنی کوئی رائے دی۔ اصل خرابی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ذات پات اور طبقات میں بری طرح بٹا ہوا ہے۔
دلتوں کو آج بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے جیسے ہمارے آباؤ اجداد انھیں سمجھتے تھے لیکن آج کی نوجوان پود دیگر تمام معاملات سے لاتعلق محسوس ہوتی ہے البتہ ان میں اپنی برتری کا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔ایک دلت فیملی کے گیارہ بچے، جو سب آپس میں کزنز تھے، ان کو ایک سرکاری پرائمری اسکول سے اس وقت نکال دیا گیا جب ان میں سے ایک نے اس مٹی کے کٹورے میں پانی پی لیا جو اونچی ذات والے ٹیچر کے لیے مخصوص تھا۔ یہ واقعہ راجستھان کے شہر بیکانیر کے ایک گاؤں میں پیش آیا۔ ٹیچر نے مبینہ طور پر طلبہ کی بہت بے عزتی کی حتیٰ کہ انھیں مارا پیٹا اور پھر سب کے سب کو اسکول سے خارج کر دیا۔ منگل سنگھ نامی ٹیچر کو اگرچہ متاثرہ خاندان کی پولیس کو شکایت پر گرفتار کر لیا گیا لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ عمومی طور پر درست نہیں۔
وزیر اعظم مودی تعمیر و ترقی کے بہت دعوے کرتے ہیں لیکن اس معاشرے میں آخر وہ کس قسم کی ترقی چاہتے ہیں جہاں ذات پات کا اتنا سخت تعصب موجود ہے۔ بھارت چین متنازعہ سرحدی معاملات کے ضمن میں ایسے لگتا ہے کہ چینی صدر کے دورے سے یہ معاملات اور زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر جو چینی فوجی دستے بھارتی سرزمین پر داخل ہوئے تھے وہ وہیں رہ گئے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ مقامات سے واپس چلے گئے ہیں لیکن بیجنگ نے یہ بات بآواز بلند اور بہت صراحت کے ساتھ کہی ہے کہ بھارت کو متنازعہ علاقے سے پرے رہنا چاہیے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)
لیکن ایک طرف جہاں لداخ میں دونوں فوجیں مدمقابل کھڑی ہیں ارونچل والے معاملے میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔چینی صدر کا جواب بھی کوئی خاص حوصلہ افزا نہ تھا جنہوں نے اپنے دورے کے دوران بھارتی سرزمین پر چینی تجاوز کو قائم رکھا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ بیجنگ واپس لوٹ کر چینی صدر نے مبینہ طور پر اپنے چوٹی کے فوجی کمانڈروں کو کہا کہ وہ علاقائی جنگوں کے لیے تیار رہیں، جنھیں ہر صورت میں جیتا جانا چاہیے۔ یہ سب نئی دہلی کے خلاف تھا لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ادھر سے ناگواری کے اظہار میں ایک لفظ بھی نہیں آیا۔ یہ وہ انداز ہے جو باجگزار ریاستیں اپنے آقاؤں کے ساتھ اختیار کرتی ہیں۔مجھے حیرانی ہوئی آخر ہم نے چینی صدر کو دعوت ہی کیوں دی ہے جب کہ بیجنگ نے 1962 میں دھوکے سے بھارت پر حملہ کر دیا تھا اور ادھر سے کوئی معذرت بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی وہ علاقہ واپس کیا ہے ۔
جس پر اس نے بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے۔ وزارت خارجہ کو چینی صدر کے دورے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ بھارت 1962 میں چین کے ہاتھوں زک اٹھا چکا ہے۔ بیجنگ کو اپنی بڑھتی ہوئی طاقت سے اپنی برتری کا احساس ہوا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کر رہا ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب بھارت غیر منظم اور منقسم نظر آ رہا ہے۔نئی دہلی کے لیے یہ خیال کرنا بھی ضروری ہے کہ بیجنگ' سری لنکا' بنگلہ دیش' میانماربرما اور نیپال میں ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر نظر آنے لگا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کا بھارت کے گرد گھیرا ہے۔ نئی دہلی کو بھی تائیوان' ویتنام اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک سے رابطہ کرنا چاہیے جو کہ چین کے دباؤ کا شکار ہیں۔ بیجنگ کو یہ احساس بھی دلانا چاہیے کہ بھارت نے تبت پر چین کی بالادستی تسلیم کر لی ہے لیکن وہ اس علاقے میں آبادی کی کوئی تبدیلی نہیں چاہتا اور نہ ہی اس علاقے کے عوام پر چین کا ناجائز دباؤ قبول کرے گا۔ گو کہ دلائی لاما کو پہلے ہی دیوار سے لگایا جا چکا ہے۔
جواہر لعل نہرو نے 1962 میں ہی بھارت کو خبردار کر دیا تھا کہ چین سے محض کسی علاقے کا تنازعہ نہیں بلکہ اختلافات کی وجوہات کہیں زیادہ گہری ہیں۔ ایشیا کے یہ دو سب سے بڑے ممالک اپنی وسیع سرحد پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان میں بہت سے اختلافات موجود ہیں جن میں تازہ ترین یہ ہے کہ ان دونوں میں سے پورے براعظم ایشیا میں کون بالادست ہے۔میں چینی صدر کی عزت میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہتا لیکن ان کے دورے کی ناکامی پہلے ہی نوشتہ دیوار تھی۔ سرمایہ کاری سے سرحد کے تکلیف دہ مسئلے کی کوئی تشفی نہیں ہوئی۔ مجھے ابھی تک چینی صدر کے اس دورے کے بھارتی نکتہ نظر سے مقصد کی سمجھ نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ لداخ میں چین کی اس وقت مداخلت نے جب صدر اور وزیر اعظم دہلی میں بات چیت کر رہے تھے سرحدی مسائل کو اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے۔
چین 20 ارب ڈالر کی بھارت میں سرمایہ کاری کرے گا حالانکہ پہلے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا کہا گیا تھا۔ اس سرمایہ کاری کا چین کو ہی فائدہ ہو گا کیونکہ وہ نئی دہلی کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اور یہاں مواقع بھی بہت زیادہ ہیں لیکن اصل چیز جو بنیادی حیثیت کی حامل ہے وہ ہے بھروسہ اور اعتماد۔ نہرو نے چینی لیڈر چواین لائی کو دنیا سے متعارف کروایا تب وہ نہرو کو منہ اونچا کر کے دیکھا کرتے تھے لیکن پھر وہ بین الاقوامی منظرنامے میں داخل ہو گئے۔ چواین لائی نے نہرو کو دھوکا دیا اور چین نے ہمارے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس بات کا بھی کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں تھے۔
میں نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی چینی صدر کے ساتھ اتنی ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں جتنی نہرو کو چواین لائی کے ساتھ حاصل تھی۔ اس کے باوجود چواین لائی نے اپنا وہ مقصد پورا کر لیا جو ان کے ذہن میں تھا۔ لداخ کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا جس کے بارے میں چین کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر چین کی طرف سے اس وقت مداخلت سے، جب دہلی میں مودی اور چینی صدر کے مابین بات چیت ہو رہی تھی، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین سرحدی معاملے میں بھارت کی کچھ نہیں سننا چاہتا۔مجھے بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر اس حوالے سے کوئی پختہ عزم نظر نہیں آتا۔ ہماری تمنائیں تو بہت ہیں۔ آخر اس بات کا کیا فائدہ کہ وزیر اعظم مودی نے زیادہ بہتر بات چیت کی یا چینی صدر نے سرحدی مسائل پر اپنی کوئی رائے دی۔ اصل خرابی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ذات پات اور طبقات میں بری طرح بٹا ہوا ہے۔
دلتوں کو آج بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے جیسے ہمارے آباؤ اجداد انھیں سمجھتے تھے لیکن آج کی نوجوان پود دیگر تمام معاملات سے لاتعلق محسوس ہوتی ہے البتہ ان میں اپنی برتری کا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔ایک دلت فیملی کے گیارہ بچے، جو سب آپس میں کزنز تھے، ان کو ایک سرکاری پرائمری اسکول سے اس وقت نکال دیا گیا جب ان میں سے ایک نے اس مٹی کے کٹورے میں پانی پی لیا جو اونچی ذات والے ٹیچر کے لیے مخصوص تھا۔ یہ واقعہ راجستھان کے شہر بیکانیر کے ایک گاؤں میں پیش آیا۔ ٹیچر نے مبینہ طور پر طلبہ کی بہت بے عزتی کی حتیٰ کہ انھیں مارا پیٹا اور پھر سب کے سب کو اسکول سے خارج کر دیا۔ منگل سنگھ نامی ٹیچر کو اگرچہ متاثرہ خاندان کی پولیس کو شکایت پر گرفتار کر لیا گیا لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ عمومی طور پر درست نہیں۔
وزیر اعظم مودی تعمیر و ترقی کے بہت دعوے کرتے ہیں لیکن اس معاشرے میں آخر وہ کس قسم کی ترقی چاہتے ہیں جہاں ذات پات کا اتنا سخت تعصب موجود ہے۔ بھارت چین متنازعہ سرحدی معاملات کے ضمن میں ایسے لگتا ہے کہ چینی صدر کے دورے سے یہ معاملات اور زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر جو چینی فوجی دستے بھارتی سرزمین پر داخل ہوئے تھے وہ وہیں رہ گئے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ مقامات سے واپس چلے گئے ہیں لیکن بیجنگ نے یہ بات بآواز بلند اور بہت صراحت کے ساتھ کہی ہے کہ بھارت کو متنازعہ علاقے سے پرے رہنا چاہیے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)