غلیل کی واپسی
بہت ہو گئی۔ اس سے زیادہ کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے تھی۔۔۔۔
خیر اب تو دھرنوں کا یہ معاملہ رہ گیا ہے کہ کجا آں شورا شوری کجا ایں بے نمکی مگر جب دھرنے اپنے جوبن پر تھے اس وقت بھی ہم ان سے زیادہ مرعوب نہیں تھے۔ بس ایک مرحلہ ایسا آیا تھا جب ہمیں صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔ یہ اس نازک وقت کی بات ہے جب دھرنے والوں نے وہ ہتھیار جو چھپا کر رکھا ہوا تھا نکالا۔ ارے یہ تو غلیل ہے۔ ہم نے خوف زدہ ہو کر غلیل چیوں کو دیکھا۔ باقی تیر انداز تو دیکھے بھالے تھے۔ ان کا معاملہ تو بقول نظیرؔ وہی تھا کہ
باپ نے پدڑی نہ ماری بیٹا تیر انداز تھا
لیکن جب غلیل چبوں کو ہم نے دیکھا تو ہم ڈرے کہ اب معرکہ کا رن پڑے گا
غلیل کو تو ہم اب کم و بیش بھول ہی چکے ہیں۔ لیکن نام خدا جب ہمارا لڑکپن تھا تو ہمارے محلہ کا ہر لڑکا بلکہ اس بستی کے سب لڑکے بالے غلیل سے مسلح تھے۔ بندوق تو ہماری بستی میں کم از کم مسلمان محلوں میں بس ایک ہی تھی۔ اس کا پتہ بھی اس وقت چلا جب فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ مگر خیر سے غلیلیں بہت تھیں۔ پھر ہمیں فسادیوں سے کیا خوف ہو سکتا تھا۔ اور نوخیز غلیل چبوں میں ایسا ایسا نشانہ باز تھا کہ غلہ غلیل سے ایسے نکلتا تھا جیسے بندوق کی نالی سے گولی نکلتی ہے اور درخت کی پھننگ پہ بیٹھی فاختہ کے پوٹے پر جا کر لگتا تھا۔
ہمیں اندیشہ ہوا کہ مسلم لیگ نون کے لشکری کیا جانیں کہ غلیل کی زد سے بچنے کی کیا ترکیب ہے۔ انھیں جا کر بتانا چاہیے کہ بس اپنے پوٹوں کو بچا کر رکھو۔ پھر ان کے غلے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ہمارے تجربے نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ چڑیا کے پوٹے پر معاف کیجیے چڑیا کے سینے کی بساط ہی کیا اسے ہم پوٹا کہتے تھے تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ غلہ چڑیا کے پوٹے پر نہ لگتا تو بس اس کی دم تھوڑی جھڑ جاتی اور وہ پُھر سے اُڑ جاتی۔
اس پر یاد آیا کہ ایک صبح ہم نے اخبار میں پڑھا کہ منیرؔ نیازی کے گھر پہ کچھ لفنگوں نے فائر کیے ہیں۔ ہم نے فوراً فون کر کے منیرؔ نیازی کی خیریت معلوم کی۔ ادھر سے جواب آیا کہ ہاں کچھ لونڈے لپاڑے تھے۔ سمجھے تھے کہ شاعر ہے۔ ڈر جائے گا۔ میں بھی نہتا تو نہیں تھا۔ میں نے اپنا پستول نکالا۔ ایک دو فائر کیے۔ انھیں بھاگتے ہی بنی۔
پستول تو ہم نے کہا ہے کہ پستول ہی ہمارے حساب سے سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ منیرؔ نیازی نے کلاشنکوف سے بھی بڑھ کر کوئی نام لیا تھا۔
ہم نے حیران ہو کر اس عزیز کو دیکھا اور کہا ''منیرؔ نیازی تم نے پستول چلایا''۔
جواب دیا کہ ''مت بھولو کہ میں خالی شاعر نہیں' پٹھان بھی ہوں''۔ پھر بولا ''زمانہ خراب ہے۔ تمہیں بھی کوئی ہتھیار رکھنا چاہیے۔ اور نہیں تو پستول ہی سہی۔ لائسنس میں تمہیں دلوا دوں گا۔ وہ سب میرے جاننے والے ہیں۔
ہم نے کہا کہ ''لائسنس تو تم دلوا دو گے۔ اور پستول ہم خرید بھی لیں گے۔ مگر اسے چلائے گا کون۔ آنے والے ہی کو یہ زحمت کرنی پڑے گی۔ ہم نے تو زندگی میں ایک ہی ہتھیار چلایا ہے''۔
''وہ کونسا ہتھیار تھا''
ہم نے کہا ''غلیل''
اب منیرؔ نیازی پر میرا تھوڑا رعب پڑا ''اچھا واقعی تم غلیلچی تھے۔ یار تم تو چھپے رستم نکلے''۔
تب ہم نے اس یار عزیز کو بتایا کہ ہمارا نشانہ بہت اچھا تھا۔ مگر ہماری بستی کی چڑیاں بہت چوکنی تھیں۔ ہمارا غلہ بعد میں پہنچتا تھا۔ وہ پہلے ہی پھر کر کے اڑ جاتی تھیں''۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ غلیل بڑا ظالم ہتھیار ہے۔ اب تو لوگ اس سے ناآشنا ہیں۔ ورنہ اس کی دھاک اتنی تھی کہ منیرؔ نیازی ایسا خان زادہ بھی اس کے رعب کو مانتا تھا۔ ہم حیران ہیں کہ اتنا بڑا معرکہ پڑ گیا۔ دھرنے والوں کے غلیلچی کیا کرتے رہے۔ ایک پدی بھی نہیں ماری۔ خود خراب ہوئے۔ غلیل کے نام کو بھی رسوا کیا۔ جب ان ایسے انقلابیوں اور سورماؤں کی کارکردگی یہ تھی تو پھر آخر میں وہ بے نمکی ہی ہونی تھی جو اب ہم دیکھ رہے ہیں۔ ارے کسی غلیلچی نے کوئی ایک غلولہ تو چلایا ہوتا۔ پھر ہم دیکھتے کہ مخالف کیمپ میں کیسا غلغلہ پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہمارا دوستانہ مشورہ یہی ہے کہ ؎
بہت خوار اس کی گلی میں ہیں میرؔ
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
بہت ہو گئی۔ اس سے زیادہ کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے تھی۔ اصل میں تو یہ دھرنا جو ستیہ گرہ کا ترجمہ ہے گاندھی جی کی حکمت سے برآمد ہونے والا نسخہ ہے۔ اس نسخہ کا صحیح استعمال وہی جانتے تھے۔ وہ یہ خوب سمجھتے تھے کہ ہڑتال ہو' ستیہ گرہ ہو' مرن برت ہو' اسے کسی صورت طول نہیں پکڑنا چاہیے۔ لیجیے ان کا ایک برت یاد آ گیا۔ تحریک خلافت کے انجام کے ساتھ ہی ہندو مسلم فساد سر اٹھانے لگے۔ گاندھی جی فوراً دلی میں مولانا محمد علی کے گھر جا اترے اور برت رکھ لیا۔ سمجھ لو مرن برت۔ چاروں طرف ہا ہا کار پڑ گئی۔ ابھی علی برادران کے ساتھ ان کی رفاقت قائم تھی اور بھی مسلمان رہنما فکر مند تھے کہ اب کیا ہو گا۔ حکیم اجمل خاں بار بار گاندھی جی کی نبض دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر انصاری تھرما میٹر لیے کھڑے ہیں۔ مولانا شوکت علی سے اور کچھ بن نہ پڑا تو بازار سے جا کر ایک خوبصورت سی گائے خرید لائے۔ اور اسے گاندھی جی کے پاس جا کر کھڑا کر دیا۔ مطلب یہ کہ گؤماتا کی سنو اور برت توڑ دو۔ گاندھی جی نے گائے پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر اسی طرح چپ۔ نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے کھیلتے ہیں۔ خیر آخر سب ہندو مسلمان رہنماؤں نے جن جن کا تحریک خلافت سے تعلق تھا مل کر ایک راضی نامہ پر دستخط کیے کہ گاندھی جی کے کہنے کے مطابق ہندو مسلم منافرت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ اور لیجیے گاندھی جی نے میرا بائی کا ایک بھجن سنا اور تھوڑا چکھ کر برت توڑ دیا۔
گاندھی جی اس نسخہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پھر کسی مائی کے لال نے اسے نہیں آزمایا۔ اب اسے اسلام آباد میں برنگ دگر آزمایا گیا۔ غلیل بھی چلا کے دیکھ لی مگر؎
اے اسیران خانہ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
جتنا پایا ہے اسے غنیمت جانو۔ یہی کیا کم ہے کہ ایک مرتبہ یار و اغیار کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔
باپ نے پدڑی نہ ماری بیٹا تیر انداز تھا
لیکن جب غلیل چبوں کو ہم نے دیکھا تو ہم ڈرے کہ اب معرکہ کا رن پڑے گا
غلیل کو تو ہم اب کم و بیش بھول ہی چکے ہیں۔ لیکن نام خدا جب ہمارا لڑکپن تھا تو ہمارے محلہ کا ہر لڑکا بلکہ اس بستی کے سب لڑکے بالے غلیل سے مسلح تھے۔ بندوق تو ہماری بستی میں کم از کم مسلمان محلوں میں بس ایک ہی تھی۔ اس کا پتہ بھی اس وقت چلا جب فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ مگر خیر سے غلیلیں بہت تھیں۔ پھر ہمیں فسادیوں سے کیا خوف ہو سکتا تھا۔ اور نوخیز غلیل چبوں میں ایسا ایسا نشانہ باز تھا کہ غلہ غلیل سے ایسے نکلتا تھا جیسے بندوق کی نالی سے گولی نکلتی ہے اور درخت کی پھننگ پہ بیٹھی فاختہ کے پوٹے پر جا کر لگتا تھا۔
ہمیں اندیشہ ہوا کہ مسلم لیگ نون کے لشکری کیا جانیں کہ غلیل کی زد سے بچنے کی کیا ترکیب ہے۔ انھیں جا کر بتانا چاہیے کہ بس اپنے پوٹوں کو بچا کر رکھو۔ پھر ان کے غلے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ہمارے تجربے نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ چڑیا کے پوٹے پر معاف کیجیے چڑیا کے سینے کی بساط ہی کیا اسے ہم پوٹا کہتے تھے تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ غلہ چڑیا کے پوٹے پر نہ لگتا تو بس اس کی دم تھوڑی جھڑ جاتی اور وہ پُھر سے اُڑ جاتی۔
اس پر یاد آیا کہ ایک صبح ہم نے اخبار میں پڑھا کہ منیرؔ نیازی کے گھر پہ کچھ لفنگوں نے فائر کیے ہیں۔ ہم نے فوراً فون کر کے منیرؔ نیازی کی خیریت معلوم کی۔ ادھر سے جواب آیا کہ ہاں کچھ لونڈے لپاڑے تھے۔ سمجھے تھے کہ شاعر ہے۔ ڈر جائے گا۔ میں بھی نہتا تو نہیں تھا۔ میں نے اپنا پستول نکالا۔ ایک دو فائر کیے۔ انھیں بھاگتے ہی بنی۔
پستول تو ہم نے کہا ہے کہ پستول ہی ہمارے حساب سے سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ منیرؔ نیازی نے کلاشنکوف سے بھی بڑھ کر کوئی نام لیا تھا۔
ہم نے حیران ہو کر اس عزیز کو دیکھا اور کہا ''منیرؔ نیازی تم نے پستول چلایا''۔
جواب دیا کہ ''مت بھولو کہ میں خالی شاعر نہیں' پٹھان بھی ہوں''۔ پھر بولا ''زمانہ خراب ہے۔ تمہیں بھی کوئی ہتھیار رکھنا چاہیے۔ اور نہیں تو پستول ہی سہی۔ لائسنس میں تمہیں دلوا دوں گا۔ وہ سب میرے جاننے والے ہیں۔
ہم نے کہا کہ ''لائسنس تو تم دلوا دو گے۔ اور پستول ہم خرید بھی لیں گے۔ مگر اسے چلائے گا کون۔ آنے والے ہی کو یہ زحمت کرنی پڑے گی۔ ہم نے تو زندگی میں ایک ہی ہتھیار چلایا ہے''۔
''وہ کونسا ہتھیار تھا''
ہم نے کہا ''غلیل''
اب منیرؔ نیازی پر میرا تھوڑا رعب پڑا ''اچھا واقعی تم غلیلچی تھے۔ یار تم تو چھپے رستم نکلے''۔
تب ہم نے اس یار عزیز کو بتایا کہ ہمارا نشانہ بہت اچھا تھا۔ مگر ہماری بستی کی چڑیاں بہت چوکنی تھیں۔ ہمارا غلہ بعد میں پہنچتا تھا۔ وہ پہلے ہی پھر کر کے اڑ جاتی تھیں''۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ غلیل بڑا ظالم ہتھیار ہے۔ اب تو لوگ اس سے ناآشنا ہیں۔ ورنہ اس کی دھاک اتنی تھی کہ منیرؔ نیازی ایسا خان زادہ بھی اس کے رعب کو مانتا تھا۔ ہم حیران ہیں کہ اتنا بڑا معرکہ پڑ گیا۔ دھرنے والوں کے غلیلچی کیا کرتے رہے۔ ایک پدی بھی نہیں ماری۔ خود خراب ہوئے۔ غلیل کے نام کو بھی رسوا کیا۔ جب ان ایسے انقلابیوں اور سورماؤں کی کارکردگی یہ تھی تو پھر آخر میں وہ بے نمکی ہی ہونی تھی جو اب ہم دیکھ رہے ہیں۔ ارے کسی غلیلچی نے کوئی ایک غلولہ تو چلایا ہوتا۔ پھر ہم دیکھتے کہ مخالف کیمپ میں کیسا غلغلہ پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہمارا دوستانہ مشورہ یہی ہے کہ ؎
بہت خوار اس کی گلی میں ہیں میرؔ
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
بہت ہو گئی۔ اس سے زیادہ کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے تھی۔ اصل میں تو یہ دھرنا جو ستیہ گرہ کا ترجمہ ہے گاندھی جی کی حکمت سے برآمد ہونے والا نسخہ ہے۔ اس نسخہ کا صحیح استعمال وہی جانتے تھے۔ وہ یہ خوب سمجھتے تھے کہ ہڑتال ہو' ستیہ گرہ ہو' مرن برت ہو' اسے کسی صورت طول نہیں پکڑنا چاہیے۔ لیجیے ان کا ایک برت یاد آ گیا۔ تحریک خلافت کے انجام کے ساتھ ہی ہندو مسلم فساد سر اٹھانے لگے۔ گاندھی جی فوراً دلی میں مولانا محمد علی کے گھر جا اترے اور برت رکھ لیا۔ سمجھ لو مرن برت۔ چاروں طرف ہا ہا کار پڑ گئی۔ ابھی علی برادران کے ساتھ ان کی رفاقت قائم تھی اور بھی مسلمان رہنما فکر مند تھے کہ اب کیا ہو گا۔ حکیم اجمل خاں بار بار گاندھی جی کی نبض دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر انصاری تھرما میٹر لیے کھڑے ہیں۔ مولانا شوکت علی سے اور کچھ بن نہ پڑا تو بازار سے جا کر ایک خوبصورت سی گائے خرید لائے۔ اور اسے گاندھی جی کے پاس جا کر کھڑا کر دیا۔ مطلب یہ کہ گؤماتا کی سنو اور برت توڑ دو۔ گاندھی جی نے گائے پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر اسی طرح چپ۔ نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے کھیلتے ہیں۔ خیر آخر سب ہندو مسلمان رہنماؤں نے جن جن کا تحریک خلافت سے تعلق تھا مل کر ایک راضی نامہ پر دستخط کیے کہ گاندھی جی کے کہنے کے مطابق ہندو مسلم منافرت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ اور لیجیے گاندھی جی نے میرا بائی کا ایک بھجن سنا اور تھوڑا چکھ کر برت توڑ دیا۔
گاندھی جی اس نسخہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پھر کسی مائی کے لال نے اسے نہیں آزمایا۔ اب اسے اسلام آباد میں برنگ دگر آزمایا گیا۔ غلیل بھی چلا کے دیکھ لی مگر؎
اے اسیران خانہ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
جتنا پایا ہے اسے غنیمت جانو۔ یہی کیا کم ہے کہ ایک مرتبہ یار و اغیار کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔