دو سوچ دو راستے
انسانوں کی بات ہے، اقتدار، بادشاہت، سیاست، درباری سیاست ۔۔۔
دنیا میں دو طرح کی سوچ ہمیشہ رہی، ہے اور رہے گی۔ ایک وہ سوچ ہے جو آج کے بارے میں ہے، ایک وہ سوچ ہے جو کل کے بارے میں ہے، ملک کی بات نہیں کر رہا یہ تو نوٹ پر لکھا ہوا تھا ایک زمانے میں خداداد مملکت پاکستان، تو ظاہر ہے مالک ہی اس کو سنبھالے گا۔
انسانوں کی بات ہے، اقتدار، بادشاہت، سیاست، درباری سیاست، سرکاری سیاست، یہ سب انسان کے پیدا کردہ شوشے ہیں اور ان کا مقصد خود نمائی، آسان راستوں سے بظاہر بلند مقام کا حصول، شاید دولت، زمین وہی انسان کی پرانی کمزوریاں اور ایک راستہ وہ اور سوچ وہ کہ یہ سب چند روزہ ہے اور آخرکار ہمیں ابد تک جانا ہے۔ یہ ہم یوں کہتے ہیں کہ نیک لوگ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ عجیب سی ایک بات سوچ میں آتی ہے کہ کیا سب کچھ کرنے کا مقصد کچھ ''حاصل'' کرنا ہی ہے؟ چاہے وہ ''یہ دنیا'' ہو یا ''وہ دنیا''۔
اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے، جہاں تک ''یہ دنیا'' کا تعلق ہے تو یہ قصہ آدمؑ کے بیٹوں سے شروع ہوکر آج کے ابن آدم تک آجاتا ہے اور درمیان میں کہیں کسی نیک بندے کے بیٹے ہیں تو پھر ایک طرف شاہ جہاں کے بیٹے۔
میرا مقصد بزرگ ترین ہستیوں کو دنیا کے چاہنے والوں سے ملانا یا موازنہ کرنا نہیں ہے۔ میں دو راستوں کے لوگوں کو الگ الگ آپ کو دکھا رہا ہوں کہ دونوں طرف ایک ''طلب'' اور دوسرے اس کے حصول کے لیے غلط یا صحیح راستے کا اختیار کرنا ہے۔
کیا ہم حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس راستے کو ہم ''درست راستہ'' کسی بھی اعتبار سے کہیں، وہاں کے راہرو جو بھی تھے انھوں نے منزل کو سر کرلیا؟ وہ اس طرح ہی اس راستے سے گزر گئے جو مقصود فطرت'' تھا، بڑا نازک سوال ہے یوں جیسے ''پل صراط'' کا سفر۔
دنیا داروں کا مقصود تو معلوم ہے، رسول پیغمبرؐ دنیا میں وارد ہوئے اﷲ کے حکم سے اور اﷲ کا حکم انسانوں تک پہنچاتے رہے۔ یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ رب کا پیغام ہر دور میں صراط مستقیم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ایمان کا دوسرا محکم حصہ یہ بھی کہ انبیائنے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا ۔ ورنہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر ایمان رکھنا ہمارا ایمان نہ قرار دیا جاتا تو پھر قصہ کیا ہے؟ اس کے لیے اس تمثیل پر بھی غور کرنا پڑے گا جو ایک حقیقت ہے اور ڈرامائی حقیقت ہے کہ جب آگ نے مٹی کا انکار کیا اور رب نے آگ کو مسترد اور مٹی کو بلند کردیا تو جب سے آگ اور مٹی کا کھیل شروع ہوگیا۔ انسان! اس کی تشکیل کا عنصر مٹی اور انسان دشمن کی تشکیل کا عنصر آگ۔
چوں کہ رب العالمین نے مٹی کو آگ پر ترجیح دی اس کی وجوہات کے لیے ہزاروں کالم چاہیے ہیں۔ تو آگ نے اپنے ہونے کا صلہ مانگا، حالانکہ وہ تخلیق بھی پروردگار کی تھی مگر یہ کیسا انوکھا واحد اور کریم، رحیم، مالک ہے جس نے یہ نہیں کہا کہ تیری ہستی کیا ہے؟ تو میری تخلیق ہے۔
اس کے بجائے اجازت دے دی کہ جسے میں نے پسند کیا ہے اور تونے پسند نہیں کیا ہر چند کہ تو بھی میری مخلوق ہے تو جا آزمالے۔ بے شک میں ہی سچا ہوں اور یہ تو اسے آزماکر دیکھ لے جسے میں نے دنیا کے لیے پسند کیا ہے جسے دنیا میں آباد کروںگا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ابلیس نے اپنے Comercial Structure کو اس قدر مضبوطی سے قائم کیا ہے کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے۔ انسانی ذہن جو اس نے مسخر کرلیے ان کو عیاری اور مکاری سے بھردیا۔ ایسا کہ کسی صورت وہ پلٹے نہیں ہیں۔
رب تعالیٰ نے بندوں سے عہد لیا، دنیا میں بھیج دیا، میدان میں کھلاڑی اتاردیے۔ Games Rules واضح طور پر ''کھلی نشانیوں'' کی صورت بتا دیے اور واپسی کا پروانہ بھی تھما دیا جس کی تحریر صرف قضا کا فرشتہ پڑھ سکتا ہے۔ یہ دنیا جس کو اﷲ اور انسان کے دشمن نے اتنا خودنما بنا دیا ہے کہ انسان کا ''یقین'' ہر ایک قدم پر ''ڈانواڈول'' ہے، کیا کل کچھ ہے؟ وہ دل میں کہتا ہے کوئی کل نہیں ہے بس جو ہے ''آج ہے'' پھر اس کے اندر سے ضمیر اسے سمجھاتا ہے ''پاگل نہ بنو یہ سب صرف ایک Show ہے جس کے بعد پردہ گر جائے گا، تمہیں واپس جانا ہوگا۔
میں نے کم نام لکھے ہیں ہزاروں نام ہیں۔ انسانوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کے کبھی کسی طرح کبھی کسی طرح، اب اگر ان کے چہرے ''اسرائیل'' اور ''امریکا'' اور چند اور ہیں تو ان سے پہلے کے لوگوں نے کون سے دودھ اور شہد کی ندیاں بہائی تھیں۔ آدم کے بیٹے نے قتل کیا تھا تو چاہے کچھ بھی ہو فطرت میں خون کرنا تو شامل ہوگیا تھا۔
میں مذہب کے حوالے نہیں دے رہا، تاریخ کی بات کر رہا ہوں۔ عقائد میرے پیش نظر نہیں ہیں۔ میں کم ہی ان پر توجہ دیتا ہوں، بنیادی طور پر ہر انسان کی عزت کرتا ہوں تو پھر یہ خون کرنا، خون میں شامل ہوگیا تھا اس وجہ سے اتنے مصلح، مفکر، انبیاء پیدا ہوئے، بھیجے گئے کہ اولاد آدم ''خون ریزی'' سے باز رہے، رب کی پہچان میں غلطی نہ کرے، اسے رب نہ مان لے جو رب کا روپ ''دھارے'' دنیا میں بیٹھا ہے، جس کا داخلہ وہاں بند ہے جہاں انسان جا سکتا ہے۔
تو یہ دنیا میں دو قسم کی سوچ کا قصہ ہے۔ آج بھی یہ برقرار ہیں۔ فلسطینی ہزاروں شہید ہوگئے، ہوتے رہیں گے، کوئی نہیں بولے گا، اس طرح کہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے، ان کے پہلو میں زبانی جمع خرچ ہوتا رہے گا۔
امریکا اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ بدی کے فرشتے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا، انسانوں کے دشمن نے ہم میں دشمن پیدا کردیے۔ ہماری فوج ان سے نبرد آزما ہے، میں انھیں ''اﷲ کے سپاہی'' کہتا اور سمجھتا ہوں۔ میدان جنگ میں اسلحے کے علاوہ صرف اﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
آج اس زمین کے لیے اﷲ کے دعوے پر لڑ رہے ہیں کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
ساری دنیا دو سوچ میں تقسیم ہے۔ ہر مذہب، فرقہ، خیال دو سوچوں میں ہے۔ کیا ہم یہ کہیں کہ دو سوچ نہیں ہونی چاہیے۔ نہیں اس طرح تو ہم اپنے مقام سے گر جائیں گے، فرشتے کہلائیں گے، اﷲ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔
کرنا کیا ہے؟ یہاں بھی دو سوچ ہیں، میں نے جو کہا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں یا اس سے اتفاق نہیں کرتے، بہت آسان ہے بات، عمل مشکل ہے۔ پیمانہ سامنے ہے، کتاب مقدس ذات گرامی ان کے لوگ رفقا اور تاریخ۔
جو قومیں ماضی کی تاریخ یاد نہیں رکھتیں اور اس سے مثبت سبق حاصل نہیں کرتیں وہ مٹ جاتی ہیں اور خدا ان کی جگہ دوسری قوم پیدا کردیتا ہے، فیصلہ آپ خود کرلیجیے۔
انسانوں کی بات ہے، اقتدار، بادشاہت، سیاست، درباری سیاست، سرکاری سیاست، یہ سب انسان کے پیدا کردہ شوشے ہیں اور ان کا مقصد خود نمائی، آسان راستوں سے بظاہر بلند مقام کا حصول، شاید دولت، زمین وہی انسان کی پرانی کمزوریاں اور ایک راستہ وہ اور سوچ وہ کہ یہ سب چند روزہ ہے اور آخرکار ہمیں ابد تک جانا ہے۔ یہ ہم یوں کہتے ہیں کہ نیک لوگ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ عجیب سی ایک بات سوچ میں آتی ہے کہ کیا سب کچھ کرنے کا مقصد کچھ ''حاصل'' کرنا ہی ہے؟ چاہے وہ ''یہ دنیا'' ہو یا ''وہ دنیا''۔
اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے، جہاں تک ''یہ دنیا'' کا تعلق ہے تو یہ قصہ آدمؑ کے بیٹوں سے شروع ہوکر آج کے ابن آدم تک آجاتا ہے اور درمیان میں کہیں کسی نیک بندے کے بیٹے ہیں تو پھر ایک طرف شاہ جہاں کے بیٹے۔
میرا مقصد بزرگ ترین ہستیوں کو دنیا کے چاہنے والوں سے ملانا یا موازنہ کرنا نہیں ہے۔ میں دو راستوں کے لوگوں کو الگ الگ آپ کو دکھا رہا ہوں کہ دونوں طرف ایک ''طلب'' اور دوسرے اس کے حصول کے لیے غلط یا صحیح راستے کا اختیار کرنا ہے۔
کیا ہم حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس راستے کو ہم ''درست راستہ'' کسی بھی اعتبار سے کہیں، وہاں کے راہرو جو بھی تھے انھوں نے منزل کو سر کرلیا؟ وہ اس طرح ہی اس راستے سے گزر گئے جو مقصود فطرت'' تھا، بڑا نازک سوال ہے یوں جیسے ''پل صراط'' کا سفر۔
دنیا داروں کا مقصود تو معلوم ہے، رسول پیغمبرؐ دنیا میں وارد ہوئے اﷲ کے حکم سے اور اﷲ کا حکم انسانوں تک پہنچاتے رہے۔ یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ رب کا پیغام ہر دور میں صراط مستقیم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ایمان کا دوسرا محکم حصہ یہ بھی کہ انبیائنے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا ۔ ورنہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر ایمان رکھنا ہمارا ایمان نہ قرار دیا جاتا تو پھر قصہ کیا ہے؟ اس کے لیے اس تمثیل پر بھی غور کرنا پڑے گا جو ایک حقیقت ہے اور ڈرامائی حقیقت ہے کہ جب آگ نے مٹی کا انکار کیا اور رب نے آگ کو مسترد اور مٹی کو بلند کردیا تو جب سے آگ اور مٹی کا کھیل شروع ہوگیا۔ انسان! اس کی تشکیل کا عنصر مٹی اور انسان دشمن کی تشکیل کا عنصر آگ۔
چوں کہ رب العالمین نے مٹی کو آگ پر ترجیح دی اس کی وجوہات کے لیے ہزاروں کالم چاہیے ہیں۔ تو آگ نے اپنے ہونے کا صلہ مانگا، حالانکہ وہ تخلیق بھی پروردگار کی تھی مگر یہ کیسا انوکھا واحد اور کریم، رحیم، مالک ہے جس نے یہ نہیں کہا کہ تیری ہستی کیا ہے؟ تو میری تخلیق ہے۔
اس کے بجائے اجازت دے دی کہ جسے میں نے پسند کیا ہے اور تونے پسند نہیں کیا ہر چند کہ تو بھی میری مخلوق ہے تو جا آزمالے۔ بے شک میں ہی سچا ہوں اور یہ تو اسے آزماکر دیکھ لے جسے میں نے دنیا کے لیے پسند کیا ہے جسے دنیا میں آباد کروںگا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ابلیس نے اپنے Comercial Structure کو اس قدر مضبوطی سے قائم کیا ہے کہ عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے۔ انسانی ذہن جو اس نے مسخر کرلیے ان کو عیاری اور مکاری سے بھردیا۔ ایسا کہ کسی صورت وہ پلٹے نہیں ہیں۔
رب تعالیٰ نے بندوں سے عہد لیا، دنیا میں بھیج دیا، میدان میں کھلاڑی اتاردیے۔ Games Rules واضح طور پر ''کھلی نشانیوں'' کی صورت بتا دیے اور واپسی کا پروانہ بھی تھما دیا جس کی تحریر صرف قضا کا فرشتہ پڑھ سکتا ہے۔ یہ دنیا جس کو اﷲ اور انسان کے دشمن نے اتنا خودنما بنا دیا ہے کہ انسان کا ''یقین'' ہر ایک قدم پر ''ڈانواڈول'' ہے، کیا کل کچھ ہے؟ وہ دل میں کہتا ہے کوئی کل نہیں ہے بس جو ہے ''آج ہے'' پھر اس کے اندر سے ضمیر اسے سمجھاتا ہے ''پاگل نہ بنو یہ سب صرف ایک Show ہے جس کے بعد پردہ گر جائے گا، تمہیں واپس جانا ہوگا۔
میں نے کم نام لکھے ہیں ہزاروں نام ہیں۔ انسانوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کے کبھی کسی طرح کبھی کسی طرح، اب اگر ان کے چہرے ''اسرائیل'' اور ''امریکا'' اور چند اور ہیں تو ان سے پہلے کے لوگوں نے کون سے دودھ اور شہد کی ندیاں بہائی تھیں۔ آدم کے بیٹے نے قتل کیا تھا تو چاہے کچھ بھی ہو فطرت میں خون کرنا تو شامل ہوگیا تھا۔
میں مذہب کے حوالے نہیں دے رہا، تاریخ کی بات کر رہا ہوں۔ عقائد میرے پیش نظر نہیں ہیں۔ میں کم ہی ان پر توجہ دیتا ہوں، بنیادی طور پر ہر انسان کی عزت کرتا ہوں تو پھر یہ خون کرنا، خون میں شامل ہوگیا تھا اس وجہ سے اتنے مصلح، مفکر، انبیاء پیدا ہوئے، بھیجے گئے کہ اولاد آدم ''خون ریزی'' سے باز رہے، رب کی پہچان میں غلطی نہ کرے، اسے رب نہ مان لے جو رب کا روپ ''دھارے'' دنیا میں بیٹھا ہے، جس کا داخلہ وہاں بند ہے جہاں انسان جا سکتا ہے۔
تو یہ دنیا میں دو قسم کی سوچ کا قصہ ہے۔ آج بھی یہ برقرار ہیں۔ فلسطینی ہزاروں شہید ہوگئے، ہوتے رہیں گے، کوئی نہیں بولے گا، اس طرح کہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے، ان کے پہلو میں زبانی جمع خرچ ہوتا رہے گا۔
امریکا اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ بدی کے فرشتے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا، انسانوں کے دشمن نے ہم میں دشمن پیدا کردیے۔ ہماری فوج ان سے نبرد آزما ہے، میں انھیں ''اﷲ کے سپاہی'' کہتا اور سمجھتا ہوں۔ میدان جنگ میں اسلحے کے علاوہ صرف اﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
آج اس زمین کے لیے اﷲ کے دعوے پر لڑ رہے ہیں کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
ساری دنیا دو سوچ میں تقسیم ہے۔ ہر مذہب، فرقہ، خیال دو سوچوں میں ہے۔ کیا ہم یہ کہیں کہ دو سوچ نہیں ہونی چاہیے۔ نہیں اس طرح تو ہم اپنے مقام سے گر جائیں گے، فرشتے کہلائیں گے، اﷲ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔
کرنا کیا ہے؟ یہاں بھی دو سوچ ہیں، میں نے جو کہا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں یا اس سے اتفاق نہیں کرتے، بہت آسان ہے بات، عمل مشکل ہے۔ پیمانہ سامنے ہے، کتاب مقدس ذات گرامی ان کے لوگ رفقا اور تاریخ۔
جو قومیں ماضی کی تاریخ یاد نہیں رکھتیں اور اس سے مثبت سبق حاصل نہیں کرتیں وہ مٹ جاتی ہیں اور خدا ان کی جگہ دوسری قوم پیدا کردیتا ہے، فیصلہ آپ خود کرلیجیے۔