سیاسی جماعتیں بالغ ہوگئیں
ادھر شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ۔۔۔
BUENOS AIRES:
پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر محب وطن پاکستانی کو شدید تشویش لاحق ہے۔ ایک طرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنوں کے لامتناہی سلسلہ کو جاری رہتے ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور دوسری جانب سیلاب کی تباہ کاریوں نے قیامت صغریٰ برپا کر دی ہے۔
ادھر شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف واقعی تحسین و تعریف کے مستحق ہیں کیونکہ دشمنان پاکستان کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا تمام تر کریڈٹ ان ہی کو جاتا ہے، کیونکہ یہ ان ہی کے ذہن رسا کی تخلیق ہے۔ تاہم اس عظیم چیلنج کا سامنا کرنے میں انھیں اپنے قابل اعتماد ساتھیوں اور جوانوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ دو ماہ کے عرصے میں سیکڑوں ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے اور ان کے مستقل ٹھکانوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور ان کے حوصلے بالکل پست ہو گئے ہیں۔
دریں اثنا ہماری بہادر فوج نے پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوجیوں کی مذموم اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا بروقت اور منہ توڑ جواب دے کر انھیں بری طرح ناکام بنا دیا ہے۔ اسی دوران وطن عزیز کی سیاسی صورتحال ایک عجیب و غریب طرح کی اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے اور گمان یہ ہو رہا ہے کہ شاید بعض ''نادیدہ قوتیں'' ہماری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم ہماری عسکری قیادت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے سیاست میں ملوث ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور سیاسی معاملات کو سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر خود ہی طے کر لینا چاہیے۔
ہم نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہندی ادب کے حوالے سے تین اقسام کی ضدوں کا تذکرہ پڑھا اور سنا تھا۔ زبان ہندی میں لفظ ضد کے لیے ''ہٹ'' کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تین ہٹیں بالترتیب یوں ہیں۔ بالک ہٹ یعنی بچے کی ضد۔ تریاہٹ یا عورت کی ضد اور راج ہٹ یعنی حکمرانی کی ضد۔ مگر بھلا ہو ہمارے دھرنے والے سیاست دانوں کا کہ انھوں نے ہمارے عوام کو ایک نئی قسم کی ضد سے متعارف کرا دیا ہے جس کا نام ہے ''دھرناہٹ''۔ ہمارے قائدین دھرنا گزشتہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے اپنی اس ''دھرناہٹ'' پر اڑے ہوئے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ ''زمین جنبد نہ جنبد گل محمد''۔
دھرنوں کی سیاست نے نہ صرف پوری قوم کو بلکہ ہمارے میڈیا کو بھی گروہوں میں منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں سخن فہمی ختم ہو گئی ہے اور غالبؔ کی طرف داری شروع ہو چکی ہے۔ اس باہمی کشمکش کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض لوگوں کی نہ صرف زبان بگڑ گئی ہے بلکہ ذہن بھی بگڑ گیا ہے۔ پبلک پلیٹ فارم سے وہ زبان استعمال کی جا رہی ہے جسے کسی بھی اعتبار سے پارلیمانی نہیں کہا جاسکتا۔ اس موقع پر ہمیں مرزا غالب بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
تحمل اور برداشت جمہوریت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات کی بھی شرط اول ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔ اظہار رائے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جوش خطابت میں انسان اتنا دیوانہ ہوجائے کہ بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے بے دھڑک کہہ ڈالے۔ ہم نے تو اپنے بزرگوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے ہوئے سنا تھا کہ پہلے تولو اور پھر بولو۔ آزادی اظہار کے بھی کچھ تقاضے ہیں جنھیں مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی اختلاف بنانا یا سمجھنا نہ صرف جمہوریت بلکہ اخلاقیات کی بھی نفی ہے اور پھر جس دین اسلام کے ہم پیروکار ہیں اس میں تحمل و برداشت اور حسن اخلاق کو ویسے بھی اولیت حاصل ہے۔
جمہوریت کو Art of the Possible کہا گیا ہے۔ مگر یہ اسی جمہوریت میں ممکن ہے جب متحارب فریقوں میں دونوں جانب سے تحمل و برداشت اور افہام و تفہیم کا مظاہرہ کیا جائے۔ بلاشبہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔ مسئلہ کتنا بھی پیچیدہ اور الجھا ہوا کیوں نہ ہو جب تک دونوں فریق اپنی اپنی جانب سے لچک دکھاتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس وقت تک کوئی بھی گتھی سلجھ نہیں سکتی خواہ اس کے لیے ایڑی چوٹی کا پورا زور ہی کیوں نہ لگا دیا جائے۔
دارالخلافہ اسلام آباد میں ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری دھرنوں نے جہاں ایک جانب حکومت کی ناقص کارکردگی کو ایکسپوز کردیا ہے وہاں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے امور مملکت میں تعطل اور خلل بھی پیدا کردیا ہے۔ دوسری طرف ملکی معیشت بھی زوال پذیر ہو رہی ہے اور بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بھی متاثر ہو رہا ہے۔ آپ ان دھرنوں کو آزادی، انقلاب یا تبدیلی جیسا کوئی بھی خوبصورت نام کیوں نہ دے ڈالیں لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے عالمی بینک کے وفد کو اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا، جو وطن عزیز کے حوالے سے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
یہی نہیں بلکہ ہمارے ایک دوست اور حمایتی ملک سری لنکا کے صدر مہنداراجا پاکسا نے بھی ہمارے ملک کے دورے سے معذرت کرلی۔ تاہم اس صورتحال کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سب سے گہرے دوست ملک چین کے صدر ژی جنگ پنگ کا انتہائی اہم اور تاریخی دورہ پاکستان عین وقت پر ملتوی ہوگیا جوکہ نہ صرف ایک غیر معمولی واقعہ ہے بلکہ دونوں ممالک کے بے حد قریبی اور گہرے تعلقات کے تناظر میں بہت برا شگون ہے۔ چین کے صدر کا یہ سہ ملکی دورہ کئی ماہ پہلے سے طے تھا اور پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کہ اس دورے میں پاکستان اول نمبر پر سرفہرست تھا۔ چینی صدر نے اپنے اس دو روزہ دورے کے بعد اسلام آباد سے دہلی اور پھر وہاں سے سری لنکا جانا تھا۔
اس تاریخ ساز دورے سے متعلق تمام معاملات اور امور طے پا چکے تھے اور اس دورے کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالرز مالیت کے انتہائی اہم منصوبوں کو حتمی شکل دی جانی تھی۔ پروگرام کے مطابق چینی صدر کو ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں اپنے میزبانوں کی جانب سے دی جانے والی ضیافتوں میں شرکت بھی کرنا تھی جن کے آس پاس دھرنے والے براجمان تھے۔ دھرنوں کے حالات کے باعث سیکیورٹی ٹیم نے منفی رپورٹ دی اور انجام کار چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا۔ چین کے صدر کے اس انتہائی اہم دورے کے نہ ہو پانے کی وجہ سے وطن عزیز کی معیشت کو ایسے نازک وقت میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جب اسے اس کی فوری اور اشد ضرورت تھی۔ بہ قول اقبال:
وقت پر کافی ہے قطرہ ابر خوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا
افراد کی طرح قوموں کی زندگی میں بھی وقت کو انتہائی اہمیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔چینی صدر کے اس دورے کے التوا یا منسوخی سے جہاں دونوں ممالک کی ہم آہنگی اور عوام دوستی کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے وہیں پاک چین دوستی کے مخالفین اور حاسدین کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی اور انھیں بڑی تقویت بھی حاصل ہوئی ہوگی۔
دھرنوں کی سیاست کے منفی پہلوؤں کے علاوہ اس کے چند ایک مثبت پہلو بھی ہیں جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان دھرنوں نے حکومتی شتر بے مہار کی ناک میں نکیل ڈال دی ہے جس کی وجہ سے اب وہ مزید خودسری اور غیر ذمے داری کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ خطرے کی اس گھنٹی نے خواب غفلت میں مبتلا نواز شریف حکومت کو نہ صرف سوتے سے جگا دیا ہے بلکہ اس کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ اب عوام کو جوابدہی کی تلوار اس کے سر پر ہمیشہ کے لیے لٹک گئی ہے اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اسے اب کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان و ممبران قومی اسمبلی کے لیے اب یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے بار بار غائب اور غیر حاضر رہیں۔ دوسری جانب دھرنوں کی سیاست نے ملک کی قابل ذکر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو نظام بچانے کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمان نے اپنی طاقت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اب بالغ ہوگئی ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر محب وطن پاکستانی کو شدید تشویش لاحق ہے۔ ایک طرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنوں کے لامتناہی سلسلہ کو جاری رہتے ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور دوسری جانب سیلاب کی تباہ کاریوں نے قیامت صغریٰ برپا کر دی ہے۔
ادھر شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف واقعی تحسین و تعریف کے مستحق ہیں کیونکہ دشمنان پاکستان کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا تمام تر کریڈٹ ان ہی کو جاتا ہے، کیونکہ یہ ان ہی کے ذہن رسا کی تخلیق ہے۔ تاہم اس عظیم چیلنج کا سامنا کرنے میں انھیں اپنے قابل اعتماد ساتھیوں اور جوانوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ دو ماہ کے عرصے میں سیکڑوں ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے اور ان کے مستقل ٹھکانوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور ان کے حوصلے بالکل پست ہو گئے ہیں۔
دریں اثنا ہماری بہادر فوج نے پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوجیوں کی مذموم اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا بروقت اور منہ توڑ جواب دے کر انھیں بری طرح ناکام بنا دیا ہے۔ اسی دوران وطن عزیز کی سیاسی صورتحال ایک عجیب و غریب طرح کی اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے اور گمان یہ ہو رہا ہے کہ شاید بعض ''نادیدہ قوتیں'' ہماری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم ہماری عسکری قیادت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے سیاست میں ملوث ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور سیاسی معاملات کو سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر خود ہی طے کر لینا چاہیے۔
ہم نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہندی ادب کے حوالے سے تین اقسام کی ضدوں کا تذکرہ پڑھا اور سنا تھا۔ زبان ہندی میں لفظ ضد کے لیے ''ہٹ'' کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تین ہٹیں بالترتیب یوں ہیں۔ بالک ہٹ یعنی بچے کی ضد۔ تریاہٹ یا عورت کی ضد اور راج ہٹ یعنی حکمرانی کی ضد۔ مگر بھلا ہو ہمارے دھرنے والے سیاست دانوں کا کہ انھوں نے ہمارے عوام کو ایک نئی قسم کی ضد سے متعارف کرا دیا ہے جس کا نام ہے ''دھرناہٹ''۔ ہمارے قائدین دھرنا گزشتہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے اپنی اس ''دھرناہٹ'' پر اڑے ہوئے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ ''زمین جنبد نہ جنبد گل محمد''۔
دھرنوں کی سیاست نے نہ صرف پوری قوم کو بلکہ ہمارے میڈیا کو بھی گروہوں میں منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں سخن فہمی ختم ہو گئی ہے اور غالبؔ کی طرف داری شروع ہو چکی ہے۔ اس باہمی کشمکش کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض لوگوں کی نہ صرف زبان بگڑ گئی ہے بلکہ ذہن بھی بگڑ گیا ہے۔ پبلک پلیٹ فارم سے وہ زبان استعمال کی جا رہی ہے جسے کسی بھی اعتبار سے پارلیمانی نہیں کہا جاسکتا۔ اس موقع پر ہمیں مرزا غالب بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
تحمل اور برداشت جمہوریت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات کی بھی شرط اول ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔ اظہار رائے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جوش خطابت میں انسان اتنا دیوانہ ہوجائے کہ بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے بے دھڑک کہہ ڈالے۔ ہم نے تو اپنے بزرگوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے ہوئے سنا تھا کہ پہلے تولو اور پھر بولو۔ آزادی اظہار کے بھی کچھ تقاضے ہیں جنھیں مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی اختلاف بنانا یا سمجھنا نہ صرف جمہوریت بلکہ اخلاقیات کی بھی نفی ہے اور پھر جس دین اسلام کے ہم پیروکار ہیں اس میں تحمل و برداشت اور حسن اخلاق کو ویسے بھی اولیت حاصل ہے۔
جمہوریت کو Art of the Possible کہا گیا ہے۔ مگر یہ اسی جمہوریت میں ممکن ہے جب متحارب فریقوں میں دونوں جانب سے تحمل و برداشت اور افہام و تفہیم کا مظاہرہ کیا جائے۔ بلاشبہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔ مسئلہ کتنا بھی پیچیدہ اور الجھا ہوا کیوں نہ ہو جب تک دونوں فریق اپنی اپنی جانب سے لچک دکھاتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس وقت تک کوئی بھی گتھی سلجھ نہیں سکتی خواہ اس کے لیے ایڑی چوٹی کا پورا زور ہی کیوں نہ لگا دیا جائے۔
دارالخلافہ اسلام آباد میں ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری دھرنوں نے جہاں ایک جانب حکومت کی ناقص کارکردگی کو ایکسپوز کردیا ہے وہاں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے امور مملکت میں تعطل اور خلل بھی پیدا کردیا ہے۔ دوسری طرف ملکی معیشت بھی زوال پذیر ہو رہی ہے اور بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بھی متاثر ہو رہا ہے۔ آپ ان دھرنوں کو آزادی، انقلاب یا تبدیلی جیسا کوئی بھی خوبصورت نام کیوں نہ دے ڈالیں لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے عالمی بینک کے وفد کو اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا، جو وطن عزیز کے حوالے سے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
یہی نہیں بلکہ ہمارے ایک دوست اور حمایتی ملک سری لنکا کے صدر مہنداراجا پاکسا نے بھی ہمارے ملک کے دورے سے معذرت کرلی۔ تاہم اس صورتحال کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سب سے گہرے دوست ملک چین کے صدر ژی جنگ پنگ کا انتہائی اہم اور تاریخی دورہ پاکستان عین وقت پر ملتوی ہوگیا جوکہ نہ صرف ایک غیر معمولی واقعہ ہے بلکہ دونوں ممالک کے بے حد قریبی اور گہرے تعلقات کے تناظر میں بہت برا شگون ہے۔ چین کے صدر کا یہ سہ ملکی دورہ کئی ماہ پہلے سے طے تھا اور پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کہ اس دورے میں پاکستان اول نمبر پر سرفہرست تھا۔ چینی صدر نے اپنے اس دو روزہ دورے کے بعد اسلام آباد سے دہلی اور پھر وہاں سے سری لنکا جانا تھا۔
اس تاریخ ساز دورے سے متعلق تمام معاملات اور امور طے پا چکے تھے اور اس دورے کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالرز مالیت کے انتہائی اہم منصوبوں کو حتمی شکل دی جانی تھی۔ پروگرام کے مطابق چینی صدر کو ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں اپنے میزبانوں کی جانب سے دی جانے والی ضیافتوں میں شرکت بھی کرنا تھی جن کے آس پاس دھرنے والے براجمان تھے۔ دھرنوں کے حالات کے باعث سیکیورٹی ٹیم نے منفی رپورٹ دی اور انجام کار چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا۔ چین کے صدر کے اس انتہائی اہم دورے کے نہ ہو پانے کی وجہ سے وطن عزیز کی معیشت کو ایسے نازک وقت میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جب اسے اس کی فوری اور اشد ضرورت تھی۔ بہ قول اقبال:
وقت پر کافی ہے قطرہ ابر خوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا
افراد کی طرح قوموں کی زندگی میں بھی وقت کو انتہائی اہمیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔چینی صدر کے اس دورے کے التوا یا منسوخی سے جہاں دونوں ممالک کی ہم آہنگی اور عوام دوستی کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے وہیں پاک چین دوستی کے مخالفین اور حاسدین کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی اور انھیں بڑی تقویت بھی حاصل ہوئی ہوگی۔
دھرنوں کی سیاست کے منفی پہلوؤں کے علاوہ اس کے چند ایک مثبت پہلو بھی ہیں جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ان دھرنوں نے حکومتی شتر بے مہار کی ناک میں نکیل ڈال دی ہے جس کی وجہ سے اب وہ مزید خودسری اور غیر ذمے داری کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ خطرے کی اس گھنٹی نے خواب غفلت میں مبتلا نواز شریف حکومت کو نہ صرف سوتے سے جگا دیا ہے بلکہ اس کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ اب عوام کو جوابدہی کی تلوار اس کے سر پر ہمیشہ کے لیے لٹک گئی ہے اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اسے اب کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان و ممبران قومی اسمبلی کے لیے اب یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے بار بار غائب اور غیر حاضر رہیں۔ دوسری جانب دھرنوں کی سیاست نے ملک کی قابل ذکر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو نظام بچانے کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمان نے اپنی طاقت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اب بالغ ہوگئی ہیں۔