کراچی مافیاز کے نرغے میں… دوسرا حصہ
بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ واٹربورڈ کی پانی کی لائنوں میں والو(Volve) لگاکر پانی چوری کرنا ۔۔۔
اور اب بات ٹینکر مافیا کی جس کے قصے پورے ملک میں ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے وقتاً فوقتاً پہنچتے ہی رہتے ہیں۔ فنڈز نہ ملنے اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ رہی سہی کسر شہریوں کی طرف سے اس کے واجبات کی عدم ادائیگی نے پوری کردی ہے۔ مختصراً تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کو صاف پانی کی ادائیگی اب ایک ناممکن امر بن چکی۔ تو کیوں نہ صاف پانی جو بہت تھوڑی مقدار میں موجود ہے اس کو بیچا جائے اور خوب منافع کمایا جائے۔ لوگوں کی یہ شکایت اب عام ہے کہ یا تو واٹر بورڈ کی طرف سے پانی آتا ہی نہیں یا پھر آتا ہے تو اس قدر گندا ہوتا ہے کہ استعمال کے قابل ہی نہیں۔
یعنی جس کو استعمال کرکے جراثیم ختم نہیں بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں۔ آئے دن کے ۔الیکٹرک کی جانب سے واٹر بورڈ کی بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی منقطع کرنے کی شکایات عام ہیں جس کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنز بند اور رہا سہا پانی بھی ندارد۔ ان حالات میں صاحب ثروت لوگوں کے پاس ٹینکر مافیا کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ اور اب تو ٹینکر چلانے والے لوگ اپنے کاروبارکو دیگر تجارتی اداروں کے طرز پر مشتہر (Advertise) بھی کر رہے ہیں۔ اور کراچی کے پوش علاقے میں (جو ان کی بڑی مارکیٹ ہے) Circulate کرنے والے تمام میگزین اور اخبارات میں ان کے اشتہارات نمایاں نظر آتے ہیں۔
بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ واٹربورڈ کی پانی کی لائنوں میں والو(Volve) لگاکر پانی چوری کرنا اور پھر عوام کو وہی پانی جو ان کو ویسے ہی لائنوں سے ملنا تھا ان کو بیچ کر اپنا منافع کمانا کون سا کاروبار ہے۔ لیکن یہ مافیا اپنی پہنچ اور حکام بالا تک اپنی رشوت وقت پر پہنچانے کے لیے مشہور ہے۔ تو اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ایک انتہائی دشوار امر لگتا ہے۔ کبھی کبھار صوبائی وزیر بلدیات کے کان پر جوں رینگتی ہے تو وہ میڈیا میں آکر چند لوگوں کی گرفتاری اور خود موقعے پر پہنچ کر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی نوید سناتے ہیں، لیکن پورے شہر کی سڑکوں پر دندناتے یہ واٹرٹینکرز اس شہر کے باسیوں کی بے چارگی کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہاں سڑکوں کو خراب کرنے کی پاداش میں ان کو ٹریفک پولیس کے غضب کا نشانہ ضرور بننا پڑتا ہے۔
جوکہ رشوت کی صورت میں ان اہلکاروں کی جیبوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ لیکن اس لاگت کو بھی ٹینکر والے اضافی قیمت میں شامل کرکے شہریوں سے ہی وصول کرتے ہیں۔ واٹر بورڈ کے چیئرمین کو شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے پولیس تعاون نہیں کرتی۔ لہٰذا اس ٹینکرز مافیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کیسے کی جائے پولیس کے عدم تعاون کی وجہ سے تو قارئین بخوبی واقف ہوں گے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آخر دنیا ترقی کی منازل طے کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اور ہم آج بھی لاچارگی کے عالم میں زیرزمین بورنگ اور کنواں کھود کر پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔ جس کے ذخائر میں بھی کراچی میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے کمی آرہی ہے۔
آج کلفٹن اور ڈیفنس کے پوش علاقوں میں بھی لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر صبح سویرے واٹر فلٹر کے سامنے قطاریں بنائے ہوئے کھڑے نظر آتے ہیں کہ کب پانی جو دن کے مخصوص اوقات میں وہاں نصیب ہوتا ہے آئے اور وہ اپنی مراد پوری کریں۔ کیا واقعی اتنے بڑے شہر کو بغیر کسی موثر پائپ لائن کے نظام کے صرف واٹرٹینکر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، کیا وہ پانی کی بوسیدہ لائنیں جن میں اب سیوریج لائنیں بھی مکس (Mix) تبدیلی کی صدا نہیں لگا رہیں؟ اس کا جواب شاید عنقریب تو کسی کے پاس بھی نہیں۔ کراچی کے ساحل پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کیا وہ انمول ذخیرہ نہیں؟ جس کو میٹھا بناکر اس شہر کے لوگوں کی پیاس بجھائی جاسکے؟ اب آجائیے شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر جو تقریباً اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یہاں کے لوگ لاہور کی میٹرو بس اور اب میٹرو ٹرین منصوبے کو دیکھ کر صرف ٹھنڈی آہیں ہی بھرسکتے ہیں۔
شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے بسوں کے ڈھانچے اس شہر کی خوبصورتی کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ اور آفس ٹائمنگ میں لوگوں کا جم غفیر ان کم ہوتی ہوئی بسوں کی راہ تکتے نظر آتا ہے۔ چھتوں پر بیٹھے مسافر ایسا لگتا ہے کہ اپنے کام پر جانے کے لیے کسی جہاد پر نکلے ہیں۔کھچاکھچ بھری ہوئی ان بسوں میں خواتین کا سفر کرنا جتنا اذیت ناک ہے وہ یقینا بیان سے باہر ہے۔ تو جناب اس کا بھی حل کراچی کے ایک اور نئے ابھرتے ہوئے مافیا کے پاس ہے، اور وہ ہے چنگ چی اور پبلک رکشہ مافیا۔ اب بس مہیا ہو نہ ہو مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہوئے یہ موٹر سائیکل رکشے اور 9 سیٹر پبلک رکشہ (جو صرف کراچی کی ایجاد ہے) ہر جگہ صبح 8 سے لے کر رات تک نظر آتے ہیں۔ چاہے ان کے پاس گاڑی کے کاغذات ہوں یا نہ ہوں لائسنس ہو یا نہ ہو ان کی گاڑی چوری کی ہو یا قانونی ہو، کوئی ان سے پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا۔
شہر کی بڑھتی ہوئی ٹریفک جہاں ہر مہینے ہزاروں نئی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں ان کی موجودگی میں ان ہزاروں عجیب الخلقت رکشوں کا نزول شہریوں اور خاص طور سے گاڑیاں چلانے والے لوگوں کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں۔ مسافروں کے انتظار میں ان رکشہ ڈرائیوروں کی چیل جیسی نگاہیں ان کو سڑک کے بیچ میں گاڑی روکنے سے بھی خوفزدہ نہیں کرتیں۔ بس مسافر آجائے اور پھر ان میں کنڈیکٹر حضرات بھی تشریف لے آتے ہیں، جن میں سے اکثر کم عمر بچے ہیں۔ جن کو انتہائی کم اجرت پر کام میں لگادیا جاتا ہے۔
جو چائلڈ لیبر ایکٹ کی صریحاً اور کھلی خلاف ورزی ہے مگر پوچھے تو کون؟ ایک کار والا اگر گاڑی سڑک کے بیچ میں روک لے یا سگنل کی خلاف ورزی کرلے تو فوراً ٹریفک پولیس والے چالان کاٹنے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں لیکن ان رکشے والوں کی دیدہ دلیری کو چیک کرنے والے بالکل خاموش۔ وجہ جانی تو پتا چلا کہ ان کے روٹ میں جتنی ٹریفک چوکیاں آتی ہیں سب کو مہینے کا نذرانہ دیا جاتا ہے، تو جناب! اب سڑکوں پر بھی ہوگیا قبضہ اور آفس کی تھکن کے بعد اب گھر جانے کے لیے گاڑی پر نکلو تو ان قابضوں کے سامنے گاڑی چلانا انتہائی صبر اور جوکھم کا کام، یعنی جو گاڑی والا حکومت کو ٹیکس (Tax) دے رہا ہے وہ ہے خوار اور لاچار اور جن کی طرف سے حکومت کے خزانے میں ایک پائی بھی نہ جمع کرائی جائے وہ مختلف گروپوں کی حمایت سے شہر کی سڑکوں پر کرے قبضہ۔
کیا اس شہر کے لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت اور آلودگی کم کرنے کے لیے بڑی بسوں اور سرکلر ریلوے کی ضرورت ہے یا ان عجیب الخلقت رکشوں کی۔جواب تو حکام بالا ہی دے سکتے ہیں۔ تو یہ وہ چند بڑے مافیاز ہیں جن کے قبضے میں یہ پورا شہر ہے اس کے علاوہ کچھ چھوٹے مافیا بھی ہیں جو شہریوں کا رہا سہا سکون برباد کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ جیساکہ پارکنگ مافیا، شہر کی بڑی سڑکوں پر گاڑیاں دھونے والا مافیا، بھتہ مافیا، شہر کی فٹ پاتھوں اور مارکیٹوں میں قائم ہونے والی تجاوزات کا مافیا۔ مگر ان کا ذکر کبھی اور کسی موقعے پر۔ شاید کبھی کراچی کے پاس ان مافیاؤں سے آزاد بھی ہوپائیں۔ مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی۔