اب قلم سے ازار بند ہی ڈال

پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ ۔۔۔


Saeed Parvez September 26, 2014

سچ نہ حکومتوں کو پسند ہوتا ہے نہ حکومتی اداروں کو اور نہ ہی اپوزیشن کو۔ سب یہی چاہتے ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے اور مخالفت میں کچھ نہ لکھا جائے۔ 67 سال ہوگئے۔ اپنے پاکستان میں ہم نے یہی دیکھا۔ ایک ماہ سے اوپر ہوگیا۔ اسلام آباد میں ایک سیاسی جماعت اور ایک مذہبی جماعت نے اپنے اپنے ''دھرنے'' دیے رکھے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ الیکشن 2013 میں PTI نے مسلم لیگ (ن) کے بعد تیسرے نمبر پر ساری جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ صوبہ خیبرپختونخوا کی اکثریتی جماعت ہونے کی وجہ سے PTI کی وہاں حکومت بھی قائم ہے۔

دھرنے والی دونوں جماعتوں کا مطالبہ نمبر 1 یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) مرکزی اور صوبہ پنجاب کی حکومتیں چھوڑ دیں۔ PTI کا موقف ہے کہ الیکشن 2013 میں زبردست دھاندلی ہوئی۔ جس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے نواز شریف وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں اور اگر تحقیقات میں یہ ثابت ہوجائے کہ الیکشن 2013 میں دھاندلی ہوئی ہے تو ملک میں دوبارہ الیکشن کروائے جائیں جب کہ PAT انقلاب کی بات کر تی ہے۔ علامہ طاہر القادری پورے نظام کو ملیامیٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔

تقریباً چالیس روز ہوگئے دارالخلافہ اسلام آباد دھرنوں کی زد پر ہے۔ سرکار کی پولیس دھرنے والوں کے خلاف ربڑ کی گولیاں چلاتی ہے۔ بے تحاشا آنسو گیس کے شیل برساتی ہے۔ پولیس کی اس کارروائی کو تمام چینلز کے کیمرہ مین اور دیگر نمایندے اپنے سازوسامان سمیت دکھانے میں مصروف ہوتے ہیں تو سرکار کی پولیس میڈیا کے نمایندوں پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ کیمرہ مینوں کے کیمرے چھین کر توڑ دیے جاتے ہیں۔

مختلف چینلز کی گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اندر سے صحافیوں کو گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے اور ان پر بہیمانہ ظلم کرکے لہولہان کردیا جاتا ہے۔ زخمی صحافی بھاگ کر اپنے ساتھیوں کی طرف جاتے ہیں تو ان پر مزید لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ اور پولیس یہ ظلم محض اس لیے کرتی ہے کہ عوام پر برستی گولیوں اور آنسو گیس کے برستے شیلوں کے مناظر، عوام کو نہ دکھائے جائیں۔ آزادی صحافت کے خلاف آج تک ہر سرکار کی پولیس یہی ''کارکردگی'' دکھاتی چلی آرہی ہے۔ دوسری طرف ہمارے دھرنے والے ہیں وہ جو ملک میں آزادی کے علم بردار ہیں اور انقلاب کے دعویدار ہیں۔ ان کا ''انصاف'' اور ''انقلاب'' بھی سب دیکھ رہے ہیں اور آج کا صحافی بھی ان کے انصاف اور انقلاب کا شکار نظر آتا ہے۔ یہ دھرنے والے بھی صحافیوں سے یہی چاہتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اسے ہی سچ مان کر آگے بڑھایا جائے۔

اپنے اپنے کنٹینر کی چھت پر دھواں دھار خطاب میں غلطاں رہنما اگر سامنے جمع لوگوں کی تعداد لاکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بتائیں تو اسے من و عن سچ تسلیم کیا جائے اور صحافی حضرات اپنے اندازے بیان کرنے سے مکمل گریز کریں اور اگر صحافیوں نے اپنا سچ بول دیا تو دھرنوں کے رہنما اپنے جیالوں کو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ''جاؤ! اور ان چینلز کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔'' اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ دھرنوں کے ''جیالے'' روزانہ اینٹ سے اینٹ والی آزادی اور انقلاب کا خوب مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ کون سی آزادی ہے؟ یہ کیسا انقلاب ہے؟ خیر ان سوالات کو یہیں چھوڑتے ہیں اور میں آپ کو فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں لیے چلتا ہوں۔ جنرل صاحب کے خلاف عوام سڑکوں پر تھے ، پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، لوگ بغاوت پر اتر آئے تھے اور باغیانہ نعروں سے پورا ملک گونج رہا تھا ادھر راولپنڈی سے کوئٹہ تک اور ادھر ڈھاکہ سے چاٹگام تک تبدیلی کے حق میں جلسے جلوس ہو رہے تھے اور تب بھی حکومت صحافیوں سے یہی چاہتی تھی کہ مخالفین کے جلسے جلوس سرکاری ٹی وی پر بالکل نہ دکھائے جائیں۔

یہ 1967-68 کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں صرف ایک ہی سرکاری ٹی وی ہوتا تھا۔ جسے PTV کہا جاتا تھا۔سرکار کا ایک نیشنل پریس ٹرسٹ تھا جس کا واحد کام تھا کہ اخباروں میں حکومت مخالف کوئی خبر شایع نہ ہو۔ حبیب جالب نے اس زمانے میں ایک نظم لکھی تھی اور وہ نظم پہلی بار انھوں نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے جلسے میں سنائی تھی۔ آج بھی ہمارے حکمرانوں اور پر تولتے حکمرانوں کے طور طریقے نہیں بدلے۔ آج بھی صحافی اسی ظلم اور جبر کا شکار ہیں۔ نظم ملاحظہ فرمائیں:

قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
فکر تعمیر ملک دل سے نکال
تیرا پرچم ہے تیرا دست سوال
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازاربند ہی ڈال
تنگ کردے غریب پر یہ زمیں
خم ہی رکھ آستان زر پہ جبیں
عیب کا دور ہے ہنر کا نہیں
آج حسن کمال کو ہے زوال
اب قلم سے ازاربند ہی ڈال
کیوں یہاں صبح نو کی بات چلے
کیوں ستم کی سیاہ رات ڈھلے
سب برابر ہیں آسماں کے تلے
سب کو رجعت پسند کہہ کر ٹال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
نام سے پیشتر لگا کے امیر
ہر مسلمان کو بنا کے فقیر
قصر و ایوان میں ہو قیام پذیر
اور خطبوں میں دے عمرؓ کی مثال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
آمریت کی ہم نوائی میں
تیرا ہمسر نہیں خدائی میں
بادشاہوں کی رہنمائی میں
روز اسلام کا جلوس نکال
(ملکہ کی وفاداری کے حلف بردار لیڈر غور فرمائیں)

جنرل ایوب صاحب کے دور اقتدار کے آخری ایام میں وہ صاحب فراش تھے، مگر صحافیوں کے لیے احکامات تھے کہ جنرل صاحب کی ناسازی طبع کا ذکر نہیں ہوگا تو جالب صاحب نے لکھا:

لاکھ ہونٹوں پہ دم ہمارا ہو
اور دل صبح کا ستارا ہو
سامنے موت کا نظارہ ہو
لکھ یہی ٹھیک ہے مریض کا حال
اب قلم سے ازاربند ہی ڈال

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔