یہ عالم شوق کا

پھر زندگی دی، دی ہوئی اسی کی تھی۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو ۔۔۔


طوطی خان September 26, 2014

ABU DHABI: رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ جی چاہا کہ جہاں گولیاں برس رہی ہوں وہاں کود پڑوں کسی سوہنے کڑیل جوان کی طرف آنے والی گولی کو اپنے سینے پہ روک لوں کہ جس طرح ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے اسی طرح شاید ایک انسان کو بچانے سے انسانیت بچ جائے ۔انسانیت جو کبھی مسلم معاشروں کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی، آج چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ ڈاکٹر نے جب وارننگ دی کہ جس قدر جلد ہوسکے بائی پاس کرالیں وگرنہ دوسرا بڑا خطرناک ہوگا تو ہمیں سعید اجمل کا 'دوسرا' یاد آگیا مگر یہاں تو دوسرا کرانے والا بڑا بے نیاز ہے اس کی مرضی پہ منحصر ہے کہ دوسرا کرائے یا نہ کرائے۔

پھر زندگی دی، دی ہوئی اسی کی تھی۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ سات دہائیاں گزار دیں اسی انتظار میں کہ کوئی خلفائے راشدین کی جوتیوں کی خاک جیسا ہی میر کارواں نصیب ہوجائے۔ جس کی نگاہ اتنی بلند ہو جو مشیران خاص کے لیے کیچڑ میں کھلنے والے کنول اور دھول مٹی میں چھپی ہوئے ہیروں کی پہچان رکھتا ہو۔ دل دودھ کا دھلا اور سخن اس قدر دلنواز کہ دشمن کو دوست بنتے دیر نہ لگے۔ آزاد اتنا کہ جب جی چاہے جہاں جی چاہے بغیر حفاظتی لاؤ لشکر کے جانے آنے میں آزاد ہو۔ دولت کی فصیلوں کے پیچھے چھپے ہوئے مکار دشمن خون کے پیاسے تو ضرور ہوں گے مگر کروڑوں شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن میں ڈھلے ہوئے محافظوں کے درمیان، ہزاروں کیا لاکھوں بھی بھاڑے کے ٹٹو اس کا بال بیکا بھی نہ کرسکیں گے بشرطیکہ آئی نہ ہو۔

وہ جو ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہو کیونکہ بیت المال سے اس کی خدمات کے عوض وظیفہ ایک مزدور کی کم سے کم آمدن کے برابر مقرر ہوا ہو مملکت کے امور وہ خدا کے گھر میں انجام دیتا ہو۔ کہ اس کے احکامات کی پاسداری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ پہلی بار عوام کو اپنے ہونے کا احساس ہوا ہو۔ پہلی بار عوام نے کسی دباؤ یا ڈکٹیشن کے بغیر آزادانہ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا ہو۔

پہلی بار عوام نے انھیں منتخب کیا ہو جو انھیں میں سے ہو اور جو ان کی پہنچ میں ہو۔ انھیں کی طرح سادہ سے چار چھ جوڑے کپڑوں کے ہوں اس کے پاس، کبھی گھر میں کبھی دھوبی سے دھلوا کر زیب تن کیے رکھتا ہو۔ جانے کیسے یہ ''ہو'' اچانک ''ہے'' میں تبدیل ہوگیا۔ ساڑھے تین ارب روپے کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والی اسمبلی بلڈنگ میں دو حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ایک تو بہت ہی کم لاگت میں مصنوعی ٹھنڈی ہوا سے نجات دلادی گئی ہے اور اس کو اس قابل بنادیا گیا کہ بیرونی موسموں کی تیزی و تندی اندر محسوس نہ ہو۔ دوسری یہ کہ اب یہ عمارتیں مشہور و معروف اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے نام سے پہچانی جانے لگی ہیں۔

پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی معاونت سے ملک کے طول و عرض میں علم و آگہی کا کچھ ایسا سونامی آیا ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد یا دنیا بھر کے چاچا خواہ مخواہ کی امداد برائے معاشی و سماجی ترقی نامی رکاوٹیں اس کو روکنے سے عاجز ہیں۔ جب سے فیشن اور گلیمر کا بھوت سر سے اترا ہے باہمی محبت، عزت و احترام، ہمدردی و رواداری کی مثالیں بھی دیکھیں میں آنے لگی ہیں۔ خودپرستی و خودنمائی کے کینسر سے چھٹکارے کے بعد زندگی میں گونا سکون میسر آگیا ہے۔ نکاح کو آسان بنا کے جنسی بے راہ روی کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ ہر نئے جوڑے کو چھت فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کی خواہش رکھنے والوں سے پرانی رہائش کے بدلے میں افراد خانہ کے مطابق نئی رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ رہائشی پروجیکٹس پہ بلڈرز کو اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی جس کی وجہ سے تعمیری لاگت میں اضافہ اور غیر ضروری تاخیر ہوتی تھی۔ ایچ بی ایف سی فرداً فرداً قرضہ دینے کی بجائے پروجیکٹ کی لاگت کے مطابق قرضہ بلڈرز کو فراہم کرتی ہے اور ٹائم فریم پہ نظر رکھتی ہے۔ پروجیکٹس کی تکمیل تک بلڈرز کو اپنا سرمایہ بمع محنتانہ حکومت کی طرف سے وصول ہوچکا ہوتا ہے اور رہائشی پروجیکٹ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔ اب یہ حکومت کی صوابدید پہ منحصر ہے کہ حقداروں کو معمولی سے سرمایہ اور آسان اقساط میں سر چھپانے کی جگہ فراہم کرے۔ کسی کو کنبہ کی مناسبت سے زیادہ بڑے مکانات بنوانے یا رہائشی پلاٹ خریدنے کی اجازت نہیں۔ وطن عزیز کے چپے چپے پہ تعمیراتی میٹریل بنانے کی فیکٹریاں شب و روز مصروف ہیں۔ روزگار کی ہر روز نئی راہیں کھل رہی ہیں اسی لیے تعمیراتی میٹریل کی درآمد پہ پابندی ہے۔

بجلی کے بحران سے عوام الناس نامانوس ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ سورج بادشاہ روز گھریلو صارفین کو شمسی توانائی کے چھوٹے چھوٹے گھریلو یونٹوں کے ذریعے ان کی ضرورت سے زیادہ بجلی دان کرجاتے ہیں۔ ساحلی پٹی پہ ونڈ ملز کے چلتے ہوئے دیوہیکل پنکھوں کا جنگل اگ آیا ہے۔ جب سے اسلحہ کو مردوں نے اپنا زیور بنایا ہے راجوں مہاراجوں کے شکاری کتے پالنے کے شوق میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ فوج میں خدمات انجام دینے کی خواہش رکھنے والے جو نوجوان کسی بھی وجہ سے معیار پر پورے نہیں اترتے ان کو بالکل ناکام و نامراد واپس نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو شہر میں قانون کے نفاذ کے لیے منتخب کرلیا جاتا ہے اور ان کی تربیت کی ذمے داری خود افواج پاکستان نے اپنے ذمے لی ہے۔ اب شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے شکایت کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔

عدالتیں ہفتہ دس دن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتی ہیں اور سزا پہ عمل درآمد تک بری الذمہ قرار نہیں پاتیں۔ جرائم کی شرح میں کمی سے نام نہاد مہذب دنیا جو قاتل کو سزائے موت دینے کو غیر مہذب عمل قرار دیتی ہے انگشت بدنداں ہے۔ صرف کرنا یہ پڑا ہے کہ ملک کے بارہ تیرہ شہروں میں لگ بھگ اتنے ہی مجرموں کو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے پر سرعام سزا دی گئی۔ اور حیرت انگیز نتائج سامنے ہیں۔ ابھی تو دنیا کو حیرت زدہ کردینے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔ مثلاً یہ کہ ہمارا نوجوان تفریح برائے تفریح کا قائل نہیں۔ فارغ اوقات میں ان کی تمام تر دلچسپی کا مرکز شہری دفاع اور ہنگامی امداد کی تربیت فراہم کرنے والے ادارے ہوتے ہیں اور ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ یہ بین الاقوامی مقابلوں میں کسی سے پیچھے ہیں۔ نشانہ بازی، تیراکی، پول والٹ، جمناسٹک، مکہ بازی، جوڈو کراٹے اور سو میٹر ریس سے لے کر میراتھن تک کوئی ان کا ثانی نہیں۔ آج کوئی ہم پر جنگ مسلط کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا کہ نو دس لاکھ کی باقاعدہ افواج سے مقابلہ کرنے کا سوچا جاسکتا ہے مگر نو دس کروڑ کی باقاعدہ اور بے قاعدہ افواج سے پنگا لینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

ہم ابھی وطن عزیز کی کایا پلٹ پر سجدہ شکر بجا لانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس ہونا شروع ہوگئے یوں لگ رہا تھا کہ کوئی میرے وجود کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں رول کر رہا ہو۔ میں سمجھ گیا کہ قیامت برپا ہونے کو ہے۔ اور پھر قیامت آ بھی گئی خدا جانے وہ بھیانک چیخ سور اسرافیل تھی یا کچھ اور ایک کان کے پردے کو چھیدتی ہوئی داخل ہوئی اور دوسرے کان کے پردے کو چھیدتی ہوئی باہر نکل گئی اب اٹھ بھی جا۔۔۔۔ئیں کیا آج بھی نماز قضا کرنے کا ارادہ ہے۔ ہم ہڑبڑا کے اٹھے وضو کیا اور خدا کے گھر طرف دوڑ لگادی۔ واپسی میں اردگرد کا جائزہ لینے کی فرصت ملی۔ شکر کیا کہ کچھ بھی نہ بدلا تھا وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ اگرچہ سورج ابھی مکمل طلوع نہیں ہوا تھا مگر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ پی کیپ اور سن گلاسز سے لیس توند پہ منڈھی ٹی شرٹ اور برمودا شرٹ میں دیکھنے والوں کے دلوں پہ قیامت ڈھاتے خراماں خراماں چلتے جا رہے تھے۔

ایک دوشیزہ کار میں بیٹھی پوٹیٹو چپس کا پیکٹ اور پیپسی کی بوتل ایک ہی ہاتھ میں تھامے یاد رہے وہ ہاتھ ونڈو کی طرف تھا تاکہ دیکھنے والوں کو دیکھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ بریک فاسٹ سے لطف اندوز ہوتی ہوئی شاید اپنی مادر علمی کی طرف رواں دواں تھی۔ وہی کچی نیند سے اٹھا دیے جانے والے اونگھتے رینگتے بچے۔ اسکول وین کے انتظار میں ماؤں کا سہارا لیے آڑے ٹیڑھے کھڑے وہی ہمارے سامنے والے مکان میں آنے والا نیا کرایہ دار جوڑا۔ صاحب الٹے ہاتھ میں سیب پکڑے ٹونگ رہے ہیں سیدھے ہاتھ سے گاڑی پہ کپڑا مار رہے ہیں خاتون کے ہاتھ میں اورنج جوس کا گلاس ہے ضرورت سے زیادہ چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی ہیں کہ وقت سے پہلے گلاس خالی نہ ہوجائے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اس کے اثرات اپنی صحت پر پڑتے دیکھنے کی بجائے کنکھیوں سے ہماری صحت پہ پڑنے والے اثرات کا زیادہ معائنہ کر رہی ہیں ۔ میں بھی کوئی کم تھوڑا ہی ہوں ہمیشہ پہلے ہی سلام داغ کر ان کو اب تک گڈمارننگ کہنے سے محروم رکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وہی چھوٹی چھوٹی خباثتیں وہی دکھاوے۔ وہی گھر وہی بے غم اور ہم ہیں دوستو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔