نئے صوبوں کا مسئلہ

نئے صوبوں کی ضرورت حمایت اور مخالفت پر اگر ہم سنجیدگی سے نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نئے ....


Zaheer Akhter Bedari September 27, 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ROME: متحدہ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کے مطالبے کے بعد سندھ میں ایک بار پھر کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ الطاف حسین کے مطالبے کے جواب میں پی پی پی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' کی گردان کی ہے۔ الطاف حسین نے جواب الجواب کے طور پر بلاول بھٹو کو سمجھایا ہے کہ بچے بڑے مسائل پر نہیں بولا کرتے۔ الطاف حسین کا کہنا ہے کہ باپ جو بات نہیں کر سکتے تھے وہ بات انھوں نے بیٹے سے کروا دی۔

تحریک انصاف چھوڑنے والے جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ اگر نئے صوبے نہیں بنائے گئے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ نئے صوبوں کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے اس حوالے سے سرائیکی اور ہزارہ ہندکوصوبوں کے قیام کے حوالے سے تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبے کی بھرپور حمایت کی تھی۔

نئے صوبوں کی ضرورت حمایت اور مخالفت پر اگر ہم سنجیدگی سے نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نئے صوبوں کی حمایت اور مخالفت کے پیچھے سیاسی مفادات بھی کارفرما نظر آتے ہیں عموماً نئے صوبوں کے قیام کو انتظامی ضرورتوں کے حوالے سے دیکھنے کے بجائے سیاسی مفادات کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اصولاً ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کا کام قیام پاکستان کے فوری بعد ہی ہو جانا چاہیے تھا لیکن اقتدار چونکہ ایسے گروہوں کے ہاتھوں میں آ گیا تھا جو تمام انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے تھے اس مقصد کے لیے ان طاقتوں نے دانستہ طور پر ضرورت کے مطابق نئے صوبے بنانے سے گریز کیا۔

اس جرم میں سب سے زیادہ جس طبقے کا ہاتھ ہے وہ ہے جاگیردار طبقہ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے استحکام اور جاگیردارانہ ذہنیت سیاست پر اس طرح حاوی ہو گئی کہ وہ طبقات بھی جاگیردارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرنے لگے جن کا طبقاتی مفاد جاگیردارانہ نظام سے ٹکراتا ہے اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایک بڑے صنعتکار خاندان کے ہاتھوں میں ہے اور صنعتکار طبقہ طبقاتی طور پر جاگیردارانہ نظام کا مخالف ہوتا ہے لیکن پاکستان میں صنعتکار طبقہ اپنے روایتی طبقاتی کردار سے ہٹ کر جاگیردارانہ ذہنیت کا مظاہرہ اس لیے کر رہا ہے کہ وہ بھی جاگیرداروں کی طرح زیادہ سے زیادہ انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد حصہ صرف ایک صوبے یعنی پنجاب میں رہتا ہے لگ بھگ 13-12 کروڑ آبادی کے اس صوبے میں ایک سے زیادہ صوبے بھی ہوتے تو انتظامی حوالے سے فائدہ مند اور ناگزیر تھے لیکن اتنی بڑی آبادی کا انتظام صرف ایک وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔

اتنے بڑے صوبے کے اربوں کھربوں کے ترقیاتی فنڈ پرفرد واحد کا اختیارہے وہ جس طرح چاہے انھیں استعمال کر سکتا ہے۔ مالی اختیارات کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے صوبے کے انتظامی اختیارات ایک جگہ ہونے کی وجہ سے مالی اختیارات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے میں آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانیوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔ آج ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھربوں روپوں کی کرپشن اور بدانتظامی کی جو داستانیں بکھری نظر آتی ہیں ان کی ایک بڑی وجہ انتظامی اور مالی اختیارات کا ارتکاز ہے۔

ہمارے حکمران طبقات کی زیادہ سے زیادہ مالی اور انتظامی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہش کا مظاہرہ ہم بلدیاتی نظام کی مخالفت میں کر سکتے ہیں۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات کو سات سال کا عرصہ ہو رہا ہے سپریم کورٹ سمیت مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی بعض جماعتوں کی طرف سے بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کرانے پر زور دیا جا رہا ہے الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے بار بار انتخابی تاریخیں دیں لیکن حکمران طبقات کسی نہ کسی بہانے بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہے اس کی بھی سب سے بڑی وجہ مالی اور انتظامی اختیارات کا صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں میں ارتکاز ہے۔

بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت سارے ترقیاتی فنڈز پر قابض ہو جاتی ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔ ترقیاتی فنڈ کے نام پر ارکان اسمبلی کو جو کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں اس کا اصل مقصد اراکین اسمبلی کو کرپشن کی سہولتیں فراہم کر کے انھیں اپنا وفادار بنائے رکھنا ہوتا ہے۔ اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جاتے ہیں تو ایم پی اے اور ایم این اے کے کھانے پینے کے راستے بند ہو جاتے ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ محترم اراکین پر صوبائی حکومت کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں میں صوبوں میں اضافے کا مسئلہ اس لیے متنازعہ نہیں بنا کہ ان ملکوں کی سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو انتظامی نظر سے دیکھا اور انتظامی سہولتوں کے تناظر ہی میں حل کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں حصول آزادی کے فوری بعد جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا گیا جس کی فطرت میں زیادہ سے زیادہ انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں 67 سال بعد بھی جاگیردارانہ نظام کو ختم نہیں کیا جا سکا جو ہر قیمت پر انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ ملک بھر میں ضرورت کے مطابق مزید صوبے بنانے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی سے اس کے تنازعے کی وجہ یہ ہے کہ اگر انتظامی حوالے سے مزید صوبے بنانے پر اتفاق کر لیا جاتا ہے تو کراچی بھی ایک صوبہ بن سکتا ہے اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر کراچی ایک صوبہ بن گیا تو اس کا وزیر اعلیٰ متحدہ کا ہو سکتا ہے اور کراچی جیسے معاشی ہب پر پیپلز پارٹی غیروں کی حکمرانی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس مفروضے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کراچی اب اردو اسپیکنگ ہی کا شہر نہیں رہا 'کراچی میں اے این پی کے دعوے کے مطابق 50 لاکھ پختون رہتے ہیں۔ بنگالیوں سمیت غیر ملکیوں کی تعداد 20 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ پنجابی، بلوچ آبادی اس کے علاوہ ہے اس صورتحال میں یہ فرض کر لینا کہ کراچی صوبہ بنا تو اردو اسپیکنگ کا اس پر قبضہ ہو جائے گا ایک احمقانہ مفروضہ ہے پھر اس قسم کی تاویلوں سے لسانی نفرتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی ایک طبقے کے لیے لسانی بنیادوں پر عوام کی تقسیم فائدہ مند ہو لیکن یہ اس ملک کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہو گی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل کا کام ایسے غیر جانبدار غیر متعصب اور سیاسی مفادات سے بالاتر لوگوں کے حوالے کیا جائے جو اس مسئلے کو لسانی حوالے سے نہیں بلکہ انتظامی حوالے سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہوں اور پیپلز پارٹی بھی اسے محض متحدہ کے حوالے سے دیکھنے کے بجائے اس شہر کی بدلی ہوئی لسانی ساخت کے حوالے سے دیکھے اور اسے یہ ادراک ہو کہ نئے صوبوں کی حکومتیں محض لسانی حوالے سے نہیں چل سکیں گی بلکہ بلاتفریق بلاامتیاز کارکردگی کے حوالے ہی سے چل سکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں