وہی پرانی کہانی
میری ماں ابھی تک زندہ ہے اپنے بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے دن رات پلنگ پر پڑی رہتی ہے ...
لاہور:
میں ان 10 کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک ہوں جو روز بھوکے سوتے ہیں میں ایک کچی آبادی کے انتہائی بوسیدہ سے گھر میں رہتا ہوں جس کے درودیوار تقریباً گرنے کو ہیں میرے پانچ بچے ہیں جنہوں نے غربت کی وجہ سے نہ کبھی پیٹ بھر کر دودھ پیا ہے اور نہ ہی کھاناکھایا ہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی اسکول کی شکل دیکھی ہے۔ میری بیوی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صرف اپنی شادی کے روز ہی خوش و خرم تھی اس کے بعد میں نے اسے کبھی خوش ہوتے یا ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ہے صرف برا بھلا کہتے اور اپنے نصیب کو کوستے دیکھا ہے اپنے بچوں کو پیار کرنا تو دور کی بات انھیں گالیاںدیتے ہی سنا ہے۔
میری ماں ابھی تک زندہ ہے اپنے بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے دن رات پلنگ پر پڑی رہتی ہے مہینے میں کبھی کبھار حکیم سے اسے دوائی لا کر دے دیتا ہوں۔ میری ایک بہن ہے جسے شادی کی عمر پارکیے عرصہ بیت چکا ہے وہ اب محلے اور امیر گھروں کی عورتوں کے کپڑے سیتی ہے۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ میں کڑی گرمیوں میں خیراتی اسپتال میں پیدا ہوا تھا اور جب پاکستان بنا تھا تو میری عمر 2 یا 3 سال کی تھی میرے گھر کاکل اثاثہ 4 ٹوٹی ہوئی چارپائیاں 3 ٹین کی پیٹیاں ایک بہت ہی پرانا سا ٹی وی جو میری بہن نے ایک امیر عورت سے 700 روپے میں خریدا تھا، جس کے وہ کپڑے سیتی ہے۔ چند گندے سے بستر اور تکیے اور 5 یا 6پھٹی چادریں اور صدیوں پرانے برتن ہیں میری ما چارپائی پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی ہم سب بھی اس کی موت کے منتظر ہیں ۔
میں سارا دن محنت و مشقت کرکے بمشکل 100 سے لے کر 150 روپے تک کما پاتا ہوں ۔ میں پیدائشی غریب ہوں اسی طرح جس طرح میرے ماں باپ پیدائشی غریب تھے ، ہم نسل در نسل غریب ہیں فقیر ہیں مجھے ذلیل کرنا اور میری بے عزتی کرنا ہر امیر اور طاقتور انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔ میرے نصیب میں گالیاں، ٹھوکریں بدنصیبی کے طعنے ، ذلت مصیبتیں، پریشانیاں اور فاقے لکھ دیے گئے ہیں میں روز جیتا ہوں اور روز مرتا ہوں میری زندگی میں دکھوں، تکلیفوں اور غموں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔جب میں اپنے بچوں اور گھر والوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں اور خوشیوں کے لیے تڑپتا ، بلکتا اور سسکتا دیکھتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر دوں ۔
میں اکثر آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے فریاد کرتا ہوں کہ آخر مجھ سے کونسا ایسا گناہ ہوگیا ہے۔ کونسا ایسا جرم ہوگیاکونسی ایسی خطا ہوگئی کہ تو مجھ سے اتنا ناراض ہوگیا ہے کہ ساری محرومیاں،ساری بے بسی اور بے کسی تو نے میرے ہی مقدر میں لکھ دی ہے ۔ میں تو تیری عبادت بھی کرتا ہوں تجھ سے ہر وقت توبہ کا طلبگار بھی رہتا ہوں لیکن پھر بھی میرا خوشحالی اور خوشیوں کی طرف سفر ختم ہوتا ہی نہیں ہے میں ہر روز اپنے آپ پر ماتم کرتا ہوں ۔
کافی سال پہلے میں نے انڈیا کی ایک فلم دیکھی تھی اس فلم میں ایک بہت بڑی حویلی کے پیچھے والے حصے کے نیچے فٹ پاتھ پر غریب لوگ رہتے تھے۔ رات کو اس حویلی سے بچا کھچا کھانا فٹ پاتھ پر پھینکا جاتا تھا اور فٹ پاتھ پر رہنے والے اس بچے کھچے کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اس بچے کھچے کھانے سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے اور روز رات اس حویلی سے بچا کھچا کھانا پھینکے جانے کا انتظار کرتے تھے۔ فلم میں ان غریبوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور چاول کے ایک ایک دانے کے لیے تڑپتے اور ترستے دکھایا گیا تھا۔
آج جب میں اپنے ملک کے غریبوں کی زندگیوں کا حال دیکھتا ہوں تو ان کا حال دیکھ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے ملک کے کروڑوں غریبوں کو بھکاری بنا دیا گیا ہے اور یہ کروڑوں بھکاری روز انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب ملک کے امیر وکبیر اپنا بچا کھچا کھانا پھینکیں گے اور مجھ جیسے کروڑوں بھکاری اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ ہمارے ملک کے لاکھوں غریب اور مفلس بچے اپنے تاریک ، گندے اور بوسیدہ مکانوں میں روز اپنے ماں باپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے گھر کے آنگن اتنے برباد کیوں ہیں ہمارے گھروں میں اتنی خاک کیوں اڑتی پھرتی ہے ہماری ماں روٹی مانگنے پر مارتی کیوں ہے ہم روز بھوکے کیوں سوتے ہیں۔ ہم روز فاقے کیوں کرتے ہیں ہم اتنے گندے اور غلیظ کیوں رہتے ہیں امیروں کو ہم کو دیکھ کر گھن کیوں آتی ہے وہ ہمیں حقارت کی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں ہمیں کیوں دھتکارا جاتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے ہمیں دیکھتے ہی کیوں گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے عوام کی بدحالی کے پیچھے چھپی وہی پرانی کہانی ہے جو ہم سے پہلے فرانس ، امریکا، انگلینڈ، جرمنی ، روس، چین اور دیگر ممالک میں بار بار دہرائی جاچکی ہے اس کہانی میں صرف کرداروں کے نام بدلتے رہے لیکن کردار ہمیشہ وہ ہی رہے عزائم اور مقصد ہمیشہ یکساں رہا، کہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہو عوام کو غلام بنائے رکھو، انھیں بدحال سے بدحال اور تقسیم در تقسیم کرتے رہو۔ انھیں بھوکا ، ننگا رکھو، ان کو ذلیل کرتے رہو ان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ بننے نہ دو ۔
اس کہانی میں ہمیشہ دو کردار نمایاں رہے ہیں ایک استحصال کرنے والا اور ایک استحصال سہنے والا ، ایک ظلم کرنے والا اور ایک ظلم سہنے والا ظالم جابر اور استحصال کرنے والوں کا کردار ہمیشہ بادشاہوں اور آمروں نے ادا کیا اور مظلوم ، بے کس اور ماتم کرنے والوں کاکردار ہمیشہ عوام نے ادا کیا ، ہمارے ملک میں بھی باربار عوام دشمن اقتدار میں آتے رہے ہیں اور اپنے ہی عوام کو برباد اور ذلیل و رسوا کرتے رہے ہیں اپنے ہی عوام کے نصیب میں غربت ، بھوک ، مہنگائی بیروزگاری ، گندگی ، بیماری اور ذلت لکھتے رہے انھیں بھکاری بناتے چلے گئے۔ عوام دشمن سیاست دان ہمیشہ ایک ہی غلط فہمی کا شکار رہے کہ ملک کے اصل مالک عوام انتہائی کمزور اور بدحال ہو چکے ہیں اب ان کے اقتدار کو عوام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہمارا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہے گا ۔ لیکن بظاہر کمزور، بدحال ، لاغر نظرآنے والے عوام کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنی بربادیوں ، بھوک ، غربت کا بدلہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان سے لے لیا ۔
آج ایک بار پھر اقتدار کے بھوکے اور عوام کے نصیب میں بربادی لکھنے والے اس کوشش میں ہیں کہ انھیں کوئی ایسا موقع مل جائے کہ جس کے ذریعے وہ اقتدار پر ہمیشہ قابض رہیں ۔پاکستان کے عوام کو اس بات کا بھی اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ ان کے نصیب میں خوشحالی صرف حقیقی جمہوریت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کے نصیب میں آچکی ہے ۔
پاکستان میں خوشحالی صرف حقیقی جمہوری طریقے سے ہی ممکن ہے کوئی بھی دوسرا راستہ پاکستان اور اس کے عوام کو مزید ابتری ، بدحالی اور غربت سے دوچار کردیگا، پاکستان کے عوام نے حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے بھرپور قربانیاں دی ہیں۔پاکستان کے عوام جاگ رہے ہیں اور وہ ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کرکے ہی دم لیں گے۔
میں ان 10 کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک ہوں جو روز بھوکے سوتے ہیں میں ایک کچی آبادی کے انتہائی بوسیدہ سے گھر میں رہتا ہوں جس کے درودیوار تقریباً گرنے کو ہیں میرے پانچ بچے ہیں جنہوں نے غربت کی وجہ سے نہ کبھی پیٹ بھر کر دودھ پیا ہے اور نہ ہی کھاناکھایا ہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی اسکول کی شکل دیکھی ہے۔ میری بیوی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صرف اپنی شادی کے روز ہی خوش و خرم تھی اس کے بعد میں نے اسے کبھی خوش ہوتے یا ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ہے صرف برا بھلا کہتے اور اپنے نصیب کو کوستے دیکھا ہے اپنے بچوں کو پیار کرنا تو دور کی بات انھیں گالیاںدیتے ہی سنا ہے۔
میری ماں ابھی تک زندہ ہے اپنے بڑھاپے اور بیماریوں کی وجہ سے دن رات پلنگ پر پڑی رہتی ہے مہینے میں کبھی کبھار حکیم سے اسے دوائی لا کر دے دیتا ہوں۔ میری ایک بہن ہے جسے شادی کی عمر پارکیے عرصہ بیت چکا ہے وہ اب محلے اور امیر گھروں کی عورتوں کے کپڑے سیتی ہے۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ میں کڑی گرمیوں میں خیراتی اسپتال میں پیدا ہوا تھا اور جب پاکستان بنا تھا تو میری عمر 2 یا 3 سال کی تھی میرے گھر کاکل اثاثہ 4 ٹوٹی ہوئی چارپائیاں 3 ٹین کی پیٹیاں ایک بہت ہی پرانا سا ٹی وی جو میری بہن نے ایک امیر عورت سے 700 روپے میں خریدا تھا، جس کے وہ کپڑے سیتی ہے۔ چند گندے سے بستر اور تکیے اور 5 یا 6پھٹی چادریں اور صدیوں پرانے برتن ہیں میری ما چارپائی پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی ہم سب بھی اس کی موت کے منتظر ہیں ۔
میں سارا دن محنت و مشقت کرکے بمشکل 100 سے لے کر 150 روپے تک کما پاتا ہوں ۔ میں پیدائشی غریب ہوں اسی طرح جس طرح میرے ماں باپ پیدائشی غریب تھے ، ہم نسل در نسل غریب ہیں فقیر ہیں مجھے ذلیل کرنا اور میری بے عزتی کرنا ہر امیر اور طاقتور انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔ میرے نصیب میں گالیاں، ٹھوکریں بدنصیبی کے طعنے ، ذلت مصیبتیں، پریشانیاں اور فاقے لکھ دیے گئے ہیں میں روز جیتا ہوں اور روز مرتا ہوں میری زندگی میں دکھوں، تکلیفوں اور غموں کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔جب میں اپنے بچوں اور گھر والوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں اور خوشیوں کے لیے تڑپتا ، بلکتا اور سسکتا دیکھتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر دوں ۔
میں اکثر آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے فریاد کرتا ہوں کہ آخر مجھ سے کونسا ایسا گناہ ہوگیا ہے۔ کونسا ایسا جرم ہوگیاکونسی ایسی خطا ہوگئی کہ تو مجھ سے اتنا ناراض ہوگیا ہے کہ ساری محرومیاں،ساری بے بسی اور بے کسی تو نے میرے ہی مقدر میں لکھ دی ہے ۔ میں تو تیری عبادت بھی کرتا ہوں تجھ سے ہر وقت توبہ کا طلبگار بھی رہتا ہوں لیکن پھر بھی میرا خوشحالی اور خوشیوں کی طرف سفر ختم ہوتا ہی نہیں ہے میں ہر روز اپنے آپ پر ماتم کرتا ہوں ۔
کافی سال پہلے میں نے انڈیا کی ایک فلم دیکھی تھی اس فلم میں ایک بہت بڑی حویلی کے پیچھے والے حصے کے نیچے فٹ پاتھ پر غریب لوگ رہتے تھے۔ رات کو اس حویلی سے بچا کھچا کھانا فٹ پاتھ پر پھینکا جاتا تھا اور فٹ پاتھ پر رہنے والے اس بچے کھچے کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اس بچے کھچے کھانے سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے اور روز رات اس حویلی سے بچا کھچا کھانا پھینکے جانے کا انتظار کرتے تھے۔ فلم میں ان غریبوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور چاول کے ایک ایک دانے کے لیے تڑپتے اور ترستے دکھایا گیا تھا۔
آج جب میں اپنے ملک کے غریبوں کی زندگیوں کا حال دیکھتا ہوں تو ان کا حال دیکھ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے ملک کے کروڑوں غریبوں کو بھکاری بنا دیا گیا ہے اور یہ کروڑوں بھکاری روز انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب ملک کے امیر وکبیر اپنا بچا کھچا کھانا پھینکیں گے اور مجھ جیسے کروڑوں بھکاری اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ ہمارے ملک کے لاکھوں غریب اور مفلس بچے اپنے تاریک ، گندے اور بوسیدہ مکانوں میں روز اپنے ماں باپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے گھر کے آنگن اتنے برباد کیوں ہیں ہمارے گھروں میں اتنی خاک کیوں اڑتی پھرتی ہے ہماری ماں روٹی مانگنے پر مارتی کیوں ہے ہم روز بھوکے کیوں سوتے ہیں۔ ہم روز فاقے کیوں کرتے ہیں ہم اتنے گندے اور غلیظ کیوں رہتے ہیں امیروں کو ہم کو دیکھ کر گھن کیوں آتی ہے وہ ہمیں حقارت کی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں ہمیں کیوں دھتکارا جاتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے ہمیں دیکھتے ہی کیوں گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے عوام کی بدحالی کے پیچھے چھپی وہی پرانی کہانی ہے جو ہم سے پہلے فرانس ، امریکا، انگلینڈ، جرمنی ، روس، چین اور دیگر ممالک میں بار بار دہرائی جاچکی ہے اس کہانی میں صرف کرداروں کے نام بدلتے رہے لیکن کردار ہمیشہ وہ ہی رہے عزائم اور مقصد ہمیشہ یکساں رہا، کہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہو عوام کو غلام بنائے رکھو، انھیں بدحال سے بدحال اور تقسیم در تقسیم کرتے رہو۔ انھیں بھوکا ، ننگا رکھو، ان کو ذلیل کرتے رہو ان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ بننے نہ دو ۔
اس کہانی میں ہمیشہ دو کردار نمایاں رہے ہیں ایک استحصال کرنے والا اور ایک استحصال سہنے والا ، ایک ظلم کرنے والا اور ایک ظلم سہنے والا ظالم جابر اور استحصال کرنے والوں کا کردار ہمیشہ بادشاہوں اور آمروں نے ادا کیا اور مظلوم ، بے کس اور ماتم کرنے والوں کاکردار ہمیشہ عوام نے ادا کیا ، ہمارے ملک میں بھی باربار عوام دشمن اقتدار میں آتے رہے ہیں اور اپنے ہی عوام کو برباد اور ذلیل و رسوا کرتے رہے ہیں اپنے ہی عوام کے نصیب میں غربت ، بھوک ، مہنگائی بیروزگاری ، گندگی ، بیماری اور ذلت لکھتے رہے انھیں بھکاری بناتے چلے گئے۔ عوام دشمن سیاست دان ہمیشہ ایک ہی غلط فہمی کا شکار رہے کہ ملک کے اصل مالک عوام انتہائی کمزور اور بدحال ہو چکے ہیں اب ان کے اقتدار کو عوام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہمارا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہے گا ۔ لیکن بظاہر کمزور، بدحال ، لاغر نظرآنے والے عوام کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنی بربادیوں ، بھوک ، غربت کا بدلہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان سے لے لیا ۔
آج ایک بار پھر اقتدار کے بھوکے اور عوام کے نصیب میں بربادی لکھنے والے اس کوشش میں ہیں کہ انھیں کوئی ایسا موقع مل جائے کہ جس کے ذریعے وہ اقتدار پر ہمیشہ قابض رہیں ۔پاکستان کے عوام کو اس بات کا بھی اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ ان کے نصیب میں خوشحالی صرف حقیقی جمہوریت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کے نصیب میں آچکی ہے ۔
پاکستان میں خوشحالی صرف حقیقی جمہوری طریقے سے ہی ممکن ہے کوئی بھی دوسرا راستہ پاکستان اور اس کے عوام کو مزید ابتری ، بدحالی اور غربت سے دوچار کردیگا، پاکستان کے عوام نے حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے بھرپور قربانیاں دی ہیں۔پاکستان کے عوام جاگ رہے ہیں اور وہ ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کرکے ہی دم لیں گے۔