توجہ چاہیے
میری اپنے تمام خواتین وحضرات اور خاص کر نوجوانوں سے گزارش ہے کہ فرضی ای میل اکاؤنٹ ...
جب انٹرنیٹ کارڈ کے عوض بکتا تھا تو اس کے استعمال میں نہایت احتیاط کی جاتی تھی، وقت دیکھ کر بیٹھا جاتا تھا اور مقررہ وقت پر جلدازجلد کام ختم کرلیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں آسانی کے ساتھ یہ وقت پھیلتا چلا گیا، ٹیلی فون کے تاروں سے جڑنے کے علاوہ کیبل کے تاروں نے بھی آسانی کردی، غالباً ان ہی دنوں فیس بیک کے بے انتہا شور نے متوجہ کیا۔ فرینڈز اور کزنز نے مذاق اڑایا کہ فیس بک پر کیوں نہیں ہو، لہٰذا کوشش میں لگ گئے اور ایک دن بالآخر کامیاب ہوگئے۔
اس کوشش میں ای میل اکاؤنٹ پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا سوچا گیا کہ اس طرح پاس ورڈ اور پتا بنایا جائے کہ یادداشت سے محو نہ ہو کیونکہ اس سے پہلے یہ عمل اپنے ایک عزیز سے کروایا تھا جنھوں نے بنی بنائی کھیر بناکر پکڑا دی تھی۔
یہ کھیر وہ اکثر اپنے کم علم دوستوں کے لیے انجام دیتے رہے تھے۔ ان ہی کم علموں میں ہم بھی سرفہرست آگئے کیونکہ اس کے بکھیڑے میں سر کھجاتے کھجاتے ہلکان ہونے کا پکا اندیشہ تھا بہرحال خود سے یہ عمل کیا تو اس کا اندازہ بھی ہوا لیکن جو شناخت اس وقت دماغ میں سمائی وہ اس وقت تو بہت آسان لگی لیکن بعد کے معاملات نے سمجھا دیا کہ ہر آسان نظر آنے والی چیز کبھی کبھی بہت مشکل کھیل میں بھی ڈال دیتی ہے۔ دوسروں کو بھی اور آپ کو بھی اور اگر آپ خاصے شریف اور باضمیر ہوں تو یہ مشکل بہت شرمندہ بھی کردیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک جاننے والے کے پاس ایک ای میل آئی موصوفہ نے اپنی ای میل میں ایک دردمندانہ تحریر میں لکھا کہ وہ کسی برے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس ان کے والدین کی جائیداد کا اور بزنس کا بہت بڑا حصہ ہے جسے وہ ان ہی کاموں میں خرچ کر دینا چاہتی ہے کیونکہ وہ اکلوتی اولاد تھی اس لیے وراثت میں تنہا ہی حصہ دار ہیں پھر کچھ عرصے پہلے ان کے شوہر نامدار کا بھی انتقال ہوچکا ہے اولاد کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اپنی دولت کو ٹھیک طرح سے ٹھکانے لگانے یعنی رفاہی کاموں میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے نجانے کتنے ای میلز میں انھوں نے اس ای میل کا انتخاب کیا ۔
لہٰذا وہ ڈھیر سارے صفروں والی دولت جو امریکن ڈالرز پر مبنی ہے ان کے حوالے کردینا چاہتی ہے (یقین جانیے ان صاحب کے سر پر کوئی خاص قسم کا پھول بھی نہیں اگا ہوا تھا) اب اس ٹھکانے لگانے کے عمل کے لیے ان کی قبر میں پیر لٹکائے خاتون کو ان صاحب کا فون نمبر، پتا، بینک اکاؤنٹ نمبر اور غرض ذاتی طور پر تمام معلومات درکار ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ ان صاحب کے بارے میں ان کے دوست احباب کا کہنا تھا کہ یاروں کا یار ہے وہ خاصے خوش ہوئے کہ ان کی اس فراخ دلی کے قصے ملکوں ملکوں پہنچ چکے ہیں اور کسی نیک دل خاتون کو جو خدا جانے دنیا کے کس خطے میں آباد ہیں اب چاہے اس ملک میں قحط و افلاس سے ان کے آس پڑوس والے ہڈی سے چمڑا تک رہے ہوں لیکن کسی بھلے مانس نے ان کا ای میل پتا بتا دیا، خوشی خوشی لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی خبر لے کر اپنے عزیز و اقارب اور یار دوستوں کو دی کسی نے کچھ کہا کسی نے کوئی صلاح دی، کسی نے سمجھایا تو کسی نے رجھایا۔
انھوں نے کسی کی نہ سنی اور اپنے بینک پہنچے اور منیجر سے سب حال کہا کہ چند ہی دنوں میں ان کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم آنے والی ہے بینک منیجر بھلا مانس تھا، سب سننے کے بعد انھیں سمجھایا کہ صاحب ان چکروں میں نہ پڑیے یہ کہانی ہی اور ہے ایسی ای میلز مشرق تو کیا مغرب میں بھی کئی لوگوں کو لوٹ چکی ہیں، شکر ہے وقت پر ان کی آنکھ کھلی ورنہ جمع پونجی جو برسوں کی ریاضت کے بعد جمع کی تھی نجانے کس کے ہاتھ چڑھ جاتی۔
بات ہو رہی تھی ہمارے اس فرضی برقیاتی پتے اور فیس بک کی کہ جس کا نام حرب سے متعلق تھا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ بند تھا۔ تجرباتی اور محض فن کی خاطر اس پتے کو استعمال کیا گیا تھا لہٰذا فیس بک پر بھی توجہ نہ دی گئی جس پر کبھی بچوں نے گیم بھی کھیلے تھے چند روز پہلے ہی دل میں آئی کہ پاس ورڈ بدل کر دیکھتے ہیں غالباً تین برسوں سے بند اس ای میل کا پاس ورڈ بدلا گیا تو جیسے جادوئی طور پر فوراً کھل گئی اور اس میں لاکھوں کروڑوں کی ای میلز دکھ درد سے تحریر تھی لیکن چونکا دینے والی ان ای میلز نے توجہ دلائی جس میں دس سے پندرہ لاکھ تنخواہ کی آفر کی گئی تھی حالانکہ اس پتے سے کبھی کوئی سی وی نہیں گئی اور بھیجنے والے کو بھی اس شناخت کے ادھورے پروفائل سے دلچسپی تھی جسے ان کے کلائنٹ نے پسند کیا تھا یہ آفر اس پڑوس کے ملک سے آئی تھی، اسی طرح کی کچھ اور ای میلز نے خاصا شرمندہ کیا کہ میرے بظاہر اس تجرباتی عمل نے نجانے کتنے خودبخود گول گول دائرے بنا ڈالے۔
میری اپنے تمام خواتین وحضرات اور خاص کر نوجوانوں سے گزارش ہے کہ فرضی ای میل اکاؤنٹ اور فیس بک پر طبع آزمائی نہ کریں کہیں معصومیت میں ہی آپ کسی اور بڑی پریشانی میں الجھ جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی سادہ لوحی کا گواہ سوائے خدا کے اور کوئی نہ رہے۔
اس کوشش میں ای میل اکاؤنٹ پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا سوچا گیا کہ اس طرح پاس ورڈ اور پتا بنایا جائے کہ یادداشت سے محو نہ ہو کیونکہ اس سے پہلے یہ عمل اپنے ایک عزیز سے کروایا تھا جنھوں نے بنی بنائی کھیر بناکر پکڑا دی تھی۔
یہ کھیر وہ اکثر اپنے کم علم دوستوں کے لیے انجام دیتے رہے تھے۔ ان ہی کم علموں میں ہم بھی سرفہرست آگئے کیونکہ اس کے بکھیڑے میں سر کھجاتے کھجاتے ہلکان ہونے کا پکا اندیشہ تھا بہرحال خود سے یہ عمل کیا تو اس کا اندازہ بھی ہوا لیکن جو شناخت اس وقت دماغ میں سمائی وہ اس وقت تو بہت آسان لگی لیکن بعد کے معاملات نے سمجھا دیا کہ ہر آسان نظر آنے والی چیز کبھی کبھی بہت مشکل کھیل میں بھی ڈال دیتی ہے۔ دوسروں کو بھی اور آپ کو بھی اور اگر آپ خاصے شریف اور باضمیر ہوں تو یہ مشکل بہت شرمندہ بھی کردیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک جاننے والے کے پاس ایک ای میل آئی موصوفہ نے اپنی ای میل میں ایک دردمندانہ تحریر میں لکھا کہ وہ کسی برے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس ان کے والدین کی جائیداد کا اور بزنس کا بہت بڑا حصہ ہے جسے وہ ان ہی کاموں میں خرچ کر دینا چاہتی ہے کیونکہ وہ اکلوتی اولاد تھی اس لیے وراثت میں تنہا ہی حصہ دار ہیں پھر کچھ عرصے پہلے ان کے شوہر نامدار کا بھی انتقال ہوچکا ہے اولاد کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اپنی دولت کو ٹھیک طرح سے ٹھکانے لگانے یعنی رفاہی کاموں میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے نجانے کتنے ای میلز میں انھوں نے اس ای میل کا انتخاب کیا ۔
لہٰذا وہ ڈھیر سارے صفروں والی دولت جو امریکن ڈالرز پر مبنی ہے ان کے حوالے کردینا چاہتی ہے (یقین جانیے ان صاحب کے سر پر کوئی خاص قسم کا پھول بھی نہیں اگا ہوا تھا) اب اس ٹھکانے لگانے کے عمل کے لیے ان کی قبر میں پیر لٹکائے خاتون کو ان صاحب کا فون نمبر، پتا، بینک اکاؤنٹ نمبر اور غرض ذاتی طور پر تمام معلومات درکار ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ ان صاحب کے بارے میں ان کے دوست احباب کا کہنا تھا کہ یاروں کا یار ہے وہ خاصے خوش ہوئے کہ ان کی اس فراخ دلی کے قصے ملکوں ملکوں پہنچ چکے ہیں اور کسی نیک دل خاتون کو جو خدا جانے دنیا کے کس خطے میں آباد ہیں اب چاہے اس ملک میں قحط و افلاس سے ان کے آس پڑوس والے ہڈی سے چمڑا تک رہے ہوں لیکن کسی بھلے مانس نے ان کا ای میل پتا بتا دیا، خوشی خوشی لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی خبر لے کر اپنے عزیز و اقارب اور یار دوستوں کو دی کسی نے کچھ کہا کسی نے کوئی صلاح دی، کسی نے سمجھایا تو کسی نے رجھایا۔
انھوں نے کسی کی نہ سنی اور اپنے بینک پہنچے اور منیجر سے سب حال کہا کہ چند ہی دنوں میں ان کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم آنے والی ہے بینک منیجر بھلا مانس تھا، سب سننے کے بعد انھیں سمجھایا کہ صاحب ان چکروں میں نہ پڑیے یہ کہانی ہی اور ہے ایسی ای میلز مشرق تو کیا مغرب میں بھی کئی لوگوں کو لوٹ چکی ہیں، شکر ہے وقت پر ان کی آنکھ کھلی ورنہ جمع پونجی جو برسوں کی ریاضت کے بعد جمع کی تھی نجانے کس کے ہاتھ چڑھ جاتی۔
بات ہو رہی تھی ہمارے اس فرضی برقیاتی پتے اور فیس بک کی کہ جس کا نام حرب سے متعلق تھا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ بند تھا۔ تجرباتی اور محض فن کی خاطر اس پتے کو استعمال کیا گیا تھا لہٰذا فیس بک پر بھی توجہ نہ دی گئی جس پر کبھی بچوں نے گیم بھی کھیلے تھے چند روز پہلے ہی دل میں آئی کہ پاس ورڈ بدل کر دیکھتے ہیں غالباً تین برسوں سے بند اس ای میل کا پاس ورڈ بدلا گیا تو جیسے جادوئی طور پر فوراً کھل گئی اور اس میں لاکھوں کروڑوں کی ای میلز دکھ درد سے تحریر تھی لیکن چونکا دینے والی ان ای میلز نے توجہ دلائی جس میں دس سے پندرہ لاکھ تنخواہ کی آفر کی گئی تھی حالانکہ اس پتے سے کبھی کوئی سی وی نہیں گئی اور بھیجنے والے کو بھی اس شناخت کے ادھورے پروفائل سے دلچسپی تھی جسے ان کے کلائنٹ نے پسند کیا تھا یہ آفر اس پڑوس کے ملک سے آئی تھی، اسی طرح کی کچھ اور ای میلز نے خاصا شرمندہ کیا کہ میرے بظاہر اس تجرباتی عمل نے نجانے کتنے خودبخود گول گول دائرے بنا ڈالے۔
میری اپنے تمام خواتین وحضرات اور خاص کر نوجوانوں سے گزارش ہے کہ فرضی ای میل اکاؤنٹ اور فیس بک پر طبع آزمائی نہ کریں کہیں معصومیت میں ہی آپ کسی اور بڑی پریشانی میں الجھ جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی سادہ لوحی کا گواہ سوائے خدا کے اور کوئی نہ رہے۔