برآمدی ہدف کا حصول مشکل

توانائی کے بحران امن و امان کی مخدوش صورتحال انفراسٹرکچر کا بہتر نہ ہونا شرح سود کا اضافہ گیس ...


ایم آئی خلیل September 27, 2014

KARACHI: گزشتہ سال فروری کی بات ہے جب تجارتی پالیسی میں اس بات کے عزم کا اظہار کیا گیا کہ آیندہ 3 برسوں میں 95 ارب ڈالر کا برآمدی ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ اس طرح 2013-14 کا برآمدی ہدف 32 ارب ڈالر کا ہوا لیکن برآمد کنندگان اور صنعتکار شروع سے ہی اس بات کا اظہار کر رہے ہیں جہاں ایک طرف بجلی مہنگی کی جا رہی ہے اس کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔

توانائی کے بحران امن و امان کی مخدوش صورتحال انفراسٹرکچر کا بہتر نہ ہونا شرح سود کا اضافہ گیس کی قلت ملک میں کہیں ہڑتال کہیں دھرنا کہیں احتجاج اور دیگر وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ منفی اثر برآمدات پر مرتب ہوتا ہے اور برآمدات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ آج کی نشست میں 2013-14 کی برآمدی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے حالیہ تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار جوکہ جولائی اگست 2014 کی ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ موجودہ مالی سال کا تجارتی ہدف 35 ارب ڈالر کا حصول مشکل ہے۔

مالی سال 2013-14 کے دوران 25 کھرب 85 ارب 65 کروڑ روپے برآمدات کی مد میں حاصل ہوئے جب کہ تجارتی پالیسی کے ہدف کے مطابق یہ وصولیاں نہیں تھیں لیکن اس میں ایک بات خوش آیند تھی کہ مثبت رجحان رہا یعنی 2012-13 کی نسبت برآمدات میں 9.26 فی صد اضافہ ہوا کیونکہ 2012-13 کے دوران کل برآمدی حجم 23 کھرب 66 ارب 48 کروڑ روپے کی تھیں۔ 2013-14 کے اعدادوشمار 30 جون 2014 تک کے تھے اس کے بعد ملک کی صورتحال میں سیاسی کشیدگی کے اضافے اور اب سیلاب کے باعث ملک کی موجودہ بیرونی تجارت کی صورتحال اب منفعیت کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔

GSP اسٹیٹس ملنے کے بعد سب سے زیادہ توقعات ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ کرلی گئی تھیں لیکن اب یہی شعبہ شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے 2013-14 کے دوران 14 کھرب 12 ارب 91 کروڑ روپے کی ٹیکسٹائل برآمدات کی مد میں وصول ہوئے تھے جوکہ 2012-13 کی نسبت تقریباً 12 فیصد اضافہ ہے یعنی مذکورہ مالی سال کے دوران 12 کھرب 62 ارب 33 کروڑ روپے کی ٹیکسٹائل برآمدات ہوئی تھیں۔ موجودہ مالی سال کے لیے تجارتی ہدف 35 ارب ڈالر کے حصول کے بجائے 2008-09 جیسی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے جب برآمدی ہدف 23 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا لیکن 18 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں اور تجارتی خسارہ 17 ارب 40 کروڑ ڈالر کی نوٹ کی گئی تھی۔ حکومت ایک دفعہ پھر جس انداز سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔

لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو رہا ہے گیس کی قیمت بڑھاتی چلی جا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر اس وقت دھرنا اور سیلاب کے باعث ملکی معیشت کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی مصنوعات کی لاگت میں اضافے کے باعث ملکی مصنوعات انڈیا، چائنا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت نہیں کر پائے گی۔ تاجر رہنما ایس ایم منیر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 ماہ سے برآمدی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں تقریباً 100 ارب سے زائد کا مالی نقصان برآمدات کی مد میں ہوچکا ہے۔ اگر گزشتہ 2 ماہ کے بیرونی تجارت کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو ایسا معلوم دیتا ہے کہ ہر برآمدی آئٹم منفعیت کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔

مالی سال 2014-15 کے 2 ماہ کا تجارتی حجم 3 کھرب 81 ارب 62 کروڑ روپے رہا جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران برآمدات کا حجم 4 کھرب 14 ارب 60 کروڑ 20 لاکھ روپے کا رہا۔ اس طرح موجودہ مالی سال کے دوران 7.96 فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مالی سال 2013-14 کے دوران بہت سی مصنوعات کی برآمدات میں نسبتاً مثبت اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، 2013-14 میں جن مصنوعات میں 2012-13 کی نسبت نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ان میں سے چند کا تذکرہ کیے دیتا ہوں مثلاً ٹیکسٹائل گروپ میں سے نٹ ویئر میں اضافہ 18.85 فیصد، لیڈومیٹر 27.39 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹ 9.49 فیصد اس کے علاوہ دیگر مصنوعات میں سے لیدرمینوفیکچر 17.96 فیصد اضافہ فٹ ویئر 20.38 فی صد اضافہ، سرجیکل گڈز 17.56 فی صد، رائس 19.43 فیصد، فش کا گروپ 22 فیصد، فٹبال 43.22 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ موجودہ 2 ماہ کے تجارتی اعدادوشمار میں فوڈ گروپ کے ہر آئٹم کی برآمد میں کمی ہوئی البتہ فش اور فش سے متعلق دیگر اشیا کی برآمدات بلحاظ مقدار اضافہ ہوا ہے۔

یہ اضافہ 6.54 فیصد بلحاظ مقدار لیکن کم قیمت کمی وصولی کے باعث بلحاظ مقدار اضافے کے باوجود بلحاظ قیمت 8.34 فیصد کم وصولی ہوئی ہے۔ فش اور دیگر اشیا کی جولائی اگست 2014 کے دوران 18 ہزار میٹرک ٹن برآمد ہوئی تھی جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت میں برآمدی مقدار 17 ہزار میٹرک ٹن تھیالبتہ 2 ماہ کے دوران شوگر 90 ہزار میٹرک ٹن برآمد کی گئی جس سے 4 ارب 20 کروڑ روپے وصول ہوئے جب کہ گزشتہ سال کے اسی مدت میں53 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرکے 2 ارب 55 کروڑ 80 لاکھ روپے وصول ہوئے یعنی 64.23 فیصد اضافہ ہوا لیکن اب معاشی حکام کو فوری طور پر اس جانب متوجہ ہونا چاہیے اور چینی کے اسٹاک کی صورتحال اور آیندہ کرشنگ سیزن میں متوقع پیداوار کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اپناتے ہوئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اگر چینی کی رسد میں کمی کے بارے میں ذرا سا بھی اشارہ مل رہا ہو تو فی الحال چینی کی برآمد پر عارضی پابندی لگا دی جائے۔

ماہ جنوری تک صورتحال واضح ہونے کے بعد برآمدات سے متعلق فیصلے کیے جائیں۔ گزشتہ 2 ماہ کے دوران ٹیکسٹائل برآمدات بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے اکثر و بیشتر سالوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کم ازکم 10 فیصد اضافہ ہو ہی جاتا تھا لیکن موجودہ مالی سال کے دوران اس میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن جس صنعت پر انحصار کیا جا رہا تھا۔ وہی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جولائی اگست کی ٹیکسٹائل برآمدات 2 کھرب 15 ارب 48 کروڑ70 لاکھ روپے رہی جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران برآمدی مالیت برائے ٹیکسٹائل گروپ 2 کھرب 33 ارب روپے کی تھیں، بہت سی مصنوعات میں منفی رجحان پایا گیا ہے۔ مثلاً کاٹن کلاتھ کی برآمدات میں 16 فی صد کمی کاٹن یارن 28.62 فیصد کمی، نٹ ویئر 9.25 فیصد کمی، کارپٹس 11 فیصد کمی، البتہ فٹبال کی برآمدات میں 25.36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

فٹ ویئر کی برآمدات میں 18.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیدر مصنوعات کی برآمدات میں 12 فی صد کمی، سرجیکل گڈز میں 17.56 فیصد کمی جب کہ ٹینٹ اور ترپالوں کی برآمد میں 79 فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ ٹینٹ اور ترپالوں کی کسی حد تک ملک کو بھی اس وقت ضرور ہے ۔ اس کے بارے میں سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا گیا کہ ٹینٹ کی شدید کمی محسوس کی گئی۔ ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ کہیں سے کچھ ٹینٹ اگر آتے بھی ہیں تو اس پر ہزاروں افراد جھپٹ پڑتے ہیں۔ یہ درست ہوگا کہ ملک میں ٹینٹ، خیموں کی کمی نہیں ہوگی لیکن متاثرین کو فوراً پہنچانا ان کو ضرورت کے بقدر پہنچانا یہ بھی تو ضروری ہے۔

اگر ہم پچھلے سال کی تجارتی پالیسی کو مدنظر رکھیں تو واضح ہے کہ جہاں 3 سال کے لیے 95 کھرب روپے کے برآمدات کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں سے اگر 2013-14 کے 26 کھرب کی برآمدات کو منہا کر دیا جائے تو آیندہ2 مالی سالوں میں 69 کھرب سے زائد کا برآمدی ہدف پورا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں تاجر رہنماؤں کا یہ کہنا درست ہے کہ اس سال کا تجارتی ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا کیونکہ 2 ماہ کی تجارتی صورتحال اور ملک کی سیاسی نیز سیلاب کے باعث صورتحال اور توانائی بحران کے ساتھ ساتھ توانائی اور دیگر مسائل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث برآمدی مالیت میں خاصی کمی واقع ہوسکتی ہے لہٰذا حکومت کو ان تمام مسائل کا فوری حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ برآمدی ہدف سے قریب رہیں زیادہ دور نہ ہوں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں