یونس امرے۔ ترکی کا عظیم صوفی شاعر

کہا جاتا ہے کہ ابھی یونس امرے نو عمر ہی تھے کہ اناطولیہ میں سخت قحط پڑا اور ان کا گاؤں بری طرح متاثر ہوا...


Doctor Nasir Mustehsan September 27, 2014

معروف ترکی شاعر اور عامل بہ عمل، یونس امرے کی زندگی قصے اورکہانیوں کی بدولت ہی ہم تک پہنچتی ہے، یونس کہاں پیدا ہوئے،کب پیدا ہوئے اس کے بارے میں قیاس ہے لیکن صحیح قیاس کے مطابق یونس امرے 1238 کے لگ بھگ ایک گاؤں ''صارے کوئے'' جدید ترکی نام ''ایمپرے'' میں پیدا ہوئے، ان کی کلیات کو کھنگالیے تو ان کی تاریخ پیدائش مل جاتی ہے۔

اس بے مثال عوامی شاعر کی زندگی کے متعلق بہت سی روایات زبان زدعام ہیں، جب یونس پیدا ہوئے تو اس وقت قونیہ پر سلجوق ترک حکمران تھے، اس وقت قونیہ اور اناطولیہ کا نواحی علاقہ ان وسط ایشیا کے مہاجرین کے لیے واحد پناہ گاہ تھا جن کے آبائی وطن کو منگول حملہ آوروں کی یورش اور قتل و غارت گری نے تباہ و برباد کر رکھا تھا اس وقت مذہبی اختلافات اپنے عروج پر تھے لوگ آج کس طرح اپنے اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے قتل و خون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ مہاجرین میں ایسی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں جن کے نام اور جن کے کام کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

ان میں سے ایک غیر فانی مثنوی معنوی کے خالق مولانا جلال الدین رومیؒ تھے اور حاجی بکتاش ولی رحم اللہ تھے جن سے امرے نے سعادت بیعت حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ ابھی یونس امرے نو عمر ہی تھے کہ اناطولیہ میں سخت قحط پڑا اور ان کا گاؤں بری طرح متاثر ہوا۔ یونس کو اپنے سے زیادہ دوسروں کی فکر تھی۔ یونس حاجی بکتاش کی درگاہ پرگئے تو بکتاشؒ کو ان کے دل کا حال پتا تھا انھوں نے اپنے ایک مرید خاص کو کہا کہ آج یونس آنے والا ہے ۔تم اس سے پوچھنا کہ اس کو اناج چاہیے یا ''برکت'' یونس اس لفظ سے ناآشنا تھے انھوں نے کہا کیا برکت اتنی ہی جگہ لے گی جتنا کہ اناج تو جواب ملا نہیں برکت تو چھوٹی سی جگہ میں سما سکتی ہے۔ یونس کو خیال آیا یہاں لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور اتنی چھوٹی سی چیز لے کر کیا کروں گا ۔انھوں نے اناج کی بوریاں اٹھائیں اور خوشی خوشی گاؤں کی طرف جانے لگے ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوسکتا ہے برکت کوئی ہیرا سونا ہو جس کو بیچ کر بہت سا اناج آجائے۔

یہ سوچ کر وہ واپس پلٹے تو ان کو جواب ملا کہ ان کے حصے کی برکت تو بکتاش سلسلہ صوفیا کے دوسرے شیخ حضرت تاپدوک امرے کو بھیجی جاچکی ہے، اس کے حصول کے لیے تو انھیں تاپدوکؒ کے پاس جانا ہوگا۔ الغرض قصہ مختصر جہاں سے فیض ملا حاصل کیا۔ فنافی اللہ ہوئے مرجع خلق ہوئے، مولانا رومؒ سے جو رشتہ حضرت شمس تبریز کا تھا تاپدوکؒ کا یونس امرے سے ہے، جن کی تربیت میں یونس نے راہ سلوک کی کٹھن منازل طے کیں اور گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، فقیرانہ صدا لگاتے محو سفر رہے، جمال الدین سرور اوغلو کی رائے میں یونس امرے عشق مجازی کی راہ سے نہیں بلکہ طریقت کی راہ سے عشق حقیقی تک پہنچے، یونس امرے کے کلام میں رباعیات، گیت اور نظمیں ہیں جن میں بلا کی سلاست و روانی اور سوزوگداز جا بہ جا ملتا ہے ۔

میں نہیں آیا فرش زمین پر
تفریق و تخلیف کی خاطر
آپس میں ہو پیار اور محبت
یونس یہ ہے میری ذات کا مقصد

یونس کے یہاں ہمیں کھوکھلی مذہبی روایات، قدامت پسندی اور اسلام کے نام پر بے ہودہ رسومات سے چھٹکارا ملتا ہے، صدیوں سے ملاؤں، پیروں، پاکھنڈیوں کے ہاتھوں بے وقوف بنانے کا طریقہ ملتا ہے۔ یونس امرے کے نزدیک باہمی پیار ومحبت، اخوت انسانی ہی زندگی کا اور زندہ رہنے کا عین مقصد ہے، غالباً یہی وجہ تخلیق انسانی ہے، جس کا فی زمانہ عنقا ہے۔

یونس کا کلام بھی اور ان کی شخصیت بھی آلائش وگندگی سے پاک ہے، جب دل صاف ہے تو ہر چیز ستھری دکھائی دیتی ہے، جس میں انفس و آفاق کا پرتو دکھائی دیتا ہے، آج بھی یونس کا کلام وہ مقدس گیت ہے جو صوفیا کی خانقاہوں میں وجد و حال کی سی کیفیت پیدا کردیتا ہے، صرف ترکی ہی کیا ترکی کے علاوہ بلقان اور البانیہ میں بھی ان کا کلام سر دھننے اور وجد وحال کا مرقع ہے، جس میں کلام کی سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ انسانوں سے ہمدردی و محبت سے پیش آنے کا وصف خاص ملتا ہے، جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ ان کے کلام میں حسن، سادگی، عام فہم زبان کی رنگینی طبع، جادو بیانی، روزمرہ کا استعمال، محاورہ بندی اور صوت و آہنگ کا وہ کیف آفریں سحر ہے جس کا ترجمہ چاہے کسی بھی زبان میں ہو وہ زبان تہی داماں ہے۔

ہم کو جو آج یونس امرے کا کلام چیدہ چیدہ ہی صحیح ملا ہے وہ بھی ایک مذہبی عالم کے طفیل ہی ملا ہے، کبھی کبھی اللہ ،حق کو بچانے کے لیے منکر حق سے کام لیتا ہے ایسا ہی ایک ملا قاسم بھی ہے، یونس امرے کی شاعری کا اچھا خاصا حصہ دریا برد ہوا ۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ملا قاسم جو ایک تنگ نظر، دقیانوسی اور ایک انتہا پسند ملا تھا یہ ایک بار دریا کے کنارے بیٹھا یونس امرے کی شاعری کا مطالعہ کر رہا تھا ایک کے بعد ایک صفحہ پلٹتا اور بڑبڑاتا کہ یہ تو خرافات ہے یہ تو کفر ہے اور اس صفحے کو توڑمروڑ کر پانی میں ڈال دیتا تاوقتیکہ وہ اس صفحے تک پہنچا جس پر یونس امرے نے اپنی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''یونس تم حق بات کہو اس لیے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ملا قاسم تمہارا محاسبہ کرے گا'' اس مقام پر ملا قاسم کو ہوش آیا اور وہ صفحات کو تلف کرنے کے بعد بہت پچھتایا اور بے اختیار رو دیا۔ آج تک ہم تک جو یونس امرے کے کلام کا ایک تہائی 1/3 انمول شعری اثاثہ پہنچا ہے وہ یونس کے کلیات کا وہی حصہ ہے جو ملا قاسم کی دست برد سے بچ پایا تھا ۔

یونس کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے موت یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ اختلافات کی بنا پر جنگ، اپنے موقوف پر بحث و تکرار، انانیت، غرور و تکبر، عداوت و رنجش، غصہ و بغض یہ سب زندگی کو ضایع کرنے والے اعمال ہیں، انسان کو محبت و خلوص سے دوسرے سے پیش آنا چاہیے۔ ہم گلوبلائزیشن کے نرغے میں ہیں، جہاں ہاری کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا لیکن اس کی محنت سے سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔

ہم نام نہاد جمہوریت کے شکنجے میں ہیں جہاں غلط کو صحیح نہیں کہا جاتا۔ ہم انسانوں کی بھیڑ میں تو ہیں لیکن ایک دوسرے سے اجنبی ہیں۔ ہم تنہائی کا رونا روتے ہیں لیکن تنہائی میں من کو صاف نہیں کرتے۔ شیطانیت اور کیا ہے صرف ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے لڑانا ہی شیطانیت نہیں ہے، یونس امرے نے اپنی شاعری سے دعوت تبلیغ کا کام لیا محکوم و مظلوم و مجبور کے حقوق کے علم بردار اور زمینداروں اور جاگیرداروں کی اصلاح کے آرزو مند تھے ان کی نظر میں حاکم اگر راہ راست پر اور عادل قائم ہو تو محکوم بھی نیک اور صالح ہوں گے۔

حاکم جب تو سیدھی راہ چلے گا
لوگ بھی صالح ہو جائیں گے
تو شاطر' مکار ہو گر خود
کیسے پھر وہ نیکو کار بنیں گے؟

تقریباً سولہویں صدی کے آخری ربیع میں عبدالباقی گول نیاربی نے نہایت عرق ریزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پلکوں سے موتی چننے کے مصداق یوں امرے کا کلام مرتب کیا جس میں 1308 میں لکھی گئی 1575 اشعار پر مبنی ایک مثنوی ''رسالہ النیصحہ'' ہے جو فارسی بحر و اوزان پر ہے، 350 نظمیں ہیں جن میں سے اکثر کا منبع فلسفہ ''وحدت الوجود'' ہے، ان کی شاعری میں ''فنا'' ایک دہرایا جانے والا موضوع ہے۔ لیکن اس کا انداز بیان افسردگی زدہ نہیں بلکہ واعظانہ ہے وہ کہتے ہیں زندگی ''اول و آخر فناء ظاہر و باطن فنا''

یونس تاپدوک سے پوچھو
ان کے مطابق دنیا کیا ہے
یہ ہے فریب اور کھیل تماشا
تم خود کیا ہو' میں خود کیا ہوں
سب کچھ فانی سب کو فنا ہے

یونس امرے کا انتقال 1320 میں ہوا اور ان کا مزار مرجع خلق ہے، ترکی زبان کی شعری تاریخ میں یونس ایک ایسی نئی روایت کے بانی ہیں جس کی ابتدا بھی انھوں نے کی اور اس روایت کو بام عروج تک پہنچایا یہ ان ہی کا کمال ہے۔

ترکی میں ایک زمانے میں لسانی بنیادوں پر جھگڑے ہوتے تھے جو ایک عرصہ پہلے، یونس امرے نے ان جھگڑوں کو فساد کی جڑ کہا اور اپنی ایک نظم ''تمہارے نام'' لکھی اس کی چند ایک لائنز حاضر خدمت ہیں:
میں اور تم ہم دونوں
اگر ایک لفظ کو
مختلف گردانتے ہیں
تو کیا
لفظ وہی رہتا ہے
ہم بدل جاتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں