7500 قبل مسیح سے آج تک اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کا اجمالی جائزہ
بحری جہازوں کی تیاری، کوئلے اور فولادسازی کے علاوہ تیل کے ذخائر نے اسکاٹ لینڈ کی معیشت کو مضبوط بنارکھا ہے،
دھرتی پر انسانوں کی آباد کاری اور نقل مکانی بنیادی ضروریات زندگی اور سازگار ماحول کی مرہون منت رہی ہے، جہاں حالات زیادہ بہتر رہے، وہاں انسانی آبادی کی تاریخ اتنی ہی قدیم رہی، جہاں موسمی شدت، ضروریات زندگی اور جنگ وجدل کے مسائل زیادہ رہے، وہاں انسانی زندگی کے آثار اتنے ہی محدود رہے۔
یورپ کی ایک سمت میں واقع اسکاٹ لینڈ کی زمین طویل عرصے تک برف سے ڈھکی رہی۔ لگ بھگ 11000 قبل مسیح میں موسم کروٹ لیتا ہے۔۔۔ آکاش پر سورج کی نرم کرنیں جاگتی ہیں۔۔۔ فلک سے 'بدلی' کی دبیز تہ گھٹتی ہے۔۔۔ زمین پر جمے برف کے ساگر دھیرے دھیرے پرے کھسکتے ہیں۔۔۔ اور آہستہ آہستہ یہاں زندگی سانسیں لینا شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ موسم کی بہتری یہاں مویشیوں سے معاش حاصل کرنے والے کچھ لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ چوپائوں کے رکھوالوں کی آمدورفت شروع ہوتی ہے۔۔۔ کچھ جانوروں کے شکار سے پیٹ پوجا کرنے والے ہیں۔۔۔ لگ بھگ 7500 قبل مسیح کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ میں تعمیر ہونے والے پتھروں کے مکانات یہاں لوگوں کی مستقل رہایش کا پتا دیتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 27 قبل مسیح میں جب رومن سلطنت کا قیام عمل میں آیا، تو انگلستان اور ویلز کے ساتھ اسکاٹ لینڈ بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ رومیوں نے اسے برطانیہ کے ایک صوبے کی حیثیت دی۔ یوں اس سرزمین کے پہلی بار باقاعدہ طور پر برطانیہ سے ناتا جڑتا ہے۔۔۔ جس کے بعد باہمی تعلقات میں سردو گرم کے کئی دور آئے۔ برطانیہ کا نام دراصل برٹن قبائل کی بنا پر پڑا۔ یہ قبائل قرب وجوار کے خطوں سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔
اس کے بعد اسکاٹ لینڈ کبھی پانچ حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔۔۔ کبھی فرانس کی راج دہانی، تو کبھی انگلستان کے زیرنگیں، اور کچھ عرصے رومیوں کے زیر اثر بھی رہتا ہے۔۔۔ پھر 1034ء میں چار حصوں میں منقسم اسکاٹ لینڈ باقاعدہ متحد ہوجاتا ہے۔43ء تا 84ء جنرل جولیس اگریکولا (Gnaeus Julius Agricola ) کی زیرقیادت یہاں رومیوں کو فتح حاصل ہوتی ہے۔
ایک رومی مورخ ٹیسی ٹس (Tacitus) رقم طراز ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے باشندوں نے رومیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مسلح جدوجہد کی۔ اسکاٹ لینڈ کے بپھرے ہوئے قبائل کو قابو میں رکھنے کی خاطر یہاں ایک دیوار بھی تعمیر کی جاتی ہے، لیکن عوام کی مزاحمت کے مقابل، یہاں رومیوں کا قبضہ 40 سال سے زیادہ نہیں رہ پاتا اور مختلف مقامی گروہ اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ مارچ 1286ء میں الیگزینڈر سوئم (Alexander III) کی وفات کے بعد اس کی نواسی مارگریٹ (Margaret) کی تاج پوشی ہوتی ہے، لیکن 1290ء میں اس کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔
یوں اسکاٹ لینڈ پر شاہی خاندان کا دو سو سال پرانا تسلسل منقطع ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اول (Edward I) سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کے لیے نئے بادشاہ کا انتخاب کریں، لہٰذا 17 نومبر 1292ء کو اسکاٹ لینڈ کی فرماں روائی کے لیے جان بلیول (John Balliol) کو چن لیا جاتا ہے۔ انگلستان کی جانب سے اپنے مقرر کردہ نئے شاہ سے تابع داری کی توقع باندھ لی جاتی ہے۔۔۔ لیکن یہ امید اس وقت خاک میں مل جاتی ہے، جب اسکاٹ لینڈ، فرانس کے خلاف انگلستانی فوج کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی جانب سے فرانس سے اتحاد کے لیے وفود بھیجے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں 23 اکتوبر 1295ء کو فرانس اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 1560ء تک نافذ رہا۔ انگلستان نے اسکاٹ لینڈ اور فرانس کا یہ معاہدہ قبول ہی نہیں کیا اور یوں اسکاٹ لینڈ اور انگلستان کے درمیان کشیدگی باقاعدہ ایک جنگ کا روپ دھار لیتی ہے۔۔۔ جس کے نتیجے میں انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ، اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جان بلیول کو بے دخل کر کے اسکاٹ لینڈ پر قبضہ کرلیتا ہے، یوں جبراً اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرا دیا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے عوام اس قبضے کے خلاف بھی آزادی کا عَلم لیے سرِ میدان آجاتے ہیں۔ اینڈریو مرے (Andrew Murray) اور ولیم ویلس (william wallace) حریت پسند راہ نما بن کے ابھرتے ہیں۔ انگلستان سے آزادی کی یہ جنگ کئی دہائیوں تک جاری رہتی ہے۔ بالآخر اسکاٹ لینڈ کے حریت پسند انگریز افواج کو شکست سے دوچار کرتے ہیں اور 1328ء میں اسکاٹ لینڈ کو آزاد کرالیا جاتا ہے۔ یہ انگلستان کے ایڈورڈ دوم (Edward II) کا دور ہے اور اس شکست کے نتیجے میں اسے انگلستان میں بھی اپنے تخت سے دست بردار ہونا پڑ جاتا ہے۔
انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے معاملات کچھ عرصے کے لیے جدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1468ء میں اسکاٹ لینڈ کے فرماں روا جیمز سوم (James III) کچھ خارجی معاملات حل کرنے کی خاطر ڈنمارک کی شاہ زادی مارگریٹ (Margaret) سے شادی رچا لیتا ہے۔ دوسری طرف انگلستان کی نظریں بھی اسکاٹ لینڈ پر جمی رہتی ہیں، 1482ء میں جیمز سوم کی وفات کے بعد موقع پا کر اسکاٹ لینڈ کے ایک قصبے Berwick-upon-Tweed پر انگلستان اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔
1502ء میں اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان تعلقات ایک نئی کروٹ لیتے ہیں، جب جیمز چہارم (James IV) انگلستان کے ہنری ہفتم سے باہمی امن کا معاہدہ کرلیتا ہے۔ دونوں ممالک کی بادشاہت کو یک جا کرنے کی خاطر جیمز چہارم، ہنری ہفتم (Henry VII) کی بیٹی مارگریٹ ٹوڈو (Margaret Tudo) سے شادی کر لیتا ہے۔ 1603ء میں اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز ششم (James VI) کو انگلستان کی بادشاہت بھی وراثت میں ملتی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے یک جا ہونے کا خواب حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔
معاملات شاید اسی ڈگر رفتہ رفتہ آگے بڑھتے رہتے کہ 1690ء کے آخر میں اسکاٹ لینڈ میں شدید قحط پڑتا ہے۔ بھوک وہاں کی آبادی کے پانچویں حصے کو نگل لیتی ہے۔ شدید غذائی بحران سے نکلنے کی سبیل کے طور پر 1698ء میں اسکاٹ باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاناما میں تجارت کے لیے اپنی جمع پونجی لگاتی ہے، شومئی قسمت۔۔۔ یہ سرمایہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ شدید معاشی مسائل کا شکار پورا اسکاٹ لینڈ اب دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر برطانیہ سے مدد مانگی جاتی ہے۔
22 جولائی 1706ء کو اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے انضمام کا معاہدہ دونوں ممالک کے اراکین پارلیمان کے درمیان طے پاتا ہے۔ اگلے سال اس سمجھوتے کو دونوں طرف کے پارلیمان منظور کر لیتے ہیں اور یوں یکم مئی 1707ء کو یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن (United Kingdom of Great Britain) وجود میں آجاتی ہے۔ماضی میں اکثر ایک دوسرے کے حریف اور اچھے ہم سائے نہ رہنے والے اب حالات کے تحت یک جا ہونے پر آتے ہیں، تو اب ایک پرچم تلے باہم شیرو شکر ہونے لگتے ہیں۔
اس اتحاد سے اسکاٹ لینڈ کے معاشی حالات سنبھلنے لگتے ہیں۔ تاہم بحران سے نکلنے کے بعد اب اسکاٹ لینڈ باقاعدہ برطانیہ کے لیے معاشی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ (گلاسگو) کی بندرگاہ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح انیسویں صدی میں لوہے سے تیار شدہ مکانات کا اسکاٹش فن نہایت تیزی سے برطانیہ اور پھر پوری دنیا میں پھیلتا ہے۔ چوں کہ اسکاٹ لینڈ میں لکڑی کی قلت کی وجہ سے پہلے ہی بڑے پتھروں کے ذریعے مکانات بنانے کا رواج موجود تھا۔ اس کے بعد پہلی اور دوسری عالم گیر جنگ میں بھی اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ کے لیے افرادی قوت، بحری جہاز، مشینری سمیت سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران 1911ء میں 48 لاکھ کی کل آبادی میں سات لاکھ کے قریب جوان بھیجے جاتے ہیں، جن میں سے 74 ہزار مارے جاتے ہیں۔1707ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے میں یہ بات یقینی بنائی گئی تھی کہ اسکاٹ لینڈ میں اس کے اپنے قوانین ہوں گے۔ انگلستان اور ویلز کے قوانین کا اطلاق اسکاٹ لینڈ پر نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے ملاپ سے قبل کے بے شمار قوانین اسکاٹ لینڈ میں بعد تک موثر رہے۔ برطانیہ میں اگرچہ ''بینک آف انگلینڈ'' کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، تاہم اسکاٹش بینک بھی اپنے پائونڈ جاری کرتا ہے۔
تاج برطانیہ کا حصہ بننے کے بعد اسکاٹ لینڈ کا سربراہ بھی برطانوی بادشاہ یا ملکہ ہوتی ہے۔ اس وقت ایلزبتھ دوم (Elizabeth II) کو اس سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ 6 فروری 1952ء کو جارج ششم کی وفات کے بعد جب ان کی صاحب زادی ایلزبتھ دوم کی تاج پوشی کی گئی، تو اسکاٹ لینڈ میں خاصی ہلچل مچی، کیوں کہ ایلزبتھ اول ) 1558ء تا 1603ء (کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ ایک بالکل علیحدہ ریاست کی حیثیت کا حامل تھا، اس لیے ایلزبتھ اول کبھی بھی اسکاٹ لینڈ کی سربراہ نہیں رہیں، لیکن ایلزبتھ دوم برطانیہ کی ملکہ کی حیثیت سے اب اس کی سربراہ قرار پائیں۔
انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے علاوہ برطانیہ میں ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے ممالک بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکہ ایلزبتھ دوم مزید 14 ممالک کی بھی ملکہ ہیں، جن میں کینیڈا، آسٹریلیا، جمیکا، بارباڈوس، پاپوا نیوگنی (Papua New Guinea)، گریناڈا (Grenada)، بہاماس(The Bahamas) جزائر سولومن Solomon Islands) (، ٹوویلو(Tuvalu)، سینٹ لوشیا Saint Lucia) (، سینٹ وینسنٹ اینڈ دی گرینڈائنس (Saint Vincent and the Grenadines) بیلیز (Belize)، اینٹیگا اینڈ باربوڈا (Antigua and Barbuda) اور سینٹ کیٹس اینڈ نیوس (Saint Kitts and Nevis) شامل ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کے چند قابلِ ذکر پاکستانی
2011 کی مردم شماری کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں تقریباً 77 ہزار مسلمان بستے ہیں۔ ان میں پاکستانیوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے اور ان کی اکثریت اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر، گلاسگو میں مقیم ہے۔ یہ لگ بھگ 20 ہزار ہیں۔
٭ برٹش لیبر پارٹی سے وابستہ انس سرور کے والد چوہدری محمد سرور پاکستان میں پنجاب کے گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری سرور گلاسگو سے تین بار برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور 2011 کے انتخابات میں انہی کی نشست پر ان کے بیٹے انس سرور نے کام یابی حاصل کی۔ انس کی پیدائش اسکاٹ لینڈ کی ہے، جب کہ ان کے والد پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭ بشیر مان کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالا سے ہے۔ مان نامی ایک گاؤں سے برطانیہ جانے والے بشیر مان کو آج اسکاٹ لینڈ میں سیاست داں، بزنس مین، سماجی کارکن اور لکھاری کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ 1970میں انہیں مقامی حکومت کے انتخابات میں کام یاب ہونے پر 'گلاسگو کارپوریشن' کے تحت شہر کے ایک وارڈ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
٭ عامرانور کے اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ 1986 میں انگلینڈ سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے اور یہاں طلبہ سیاست سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اسکاٹ لینڈ آنے کا مقصد انجینئرنگ کی تعلیم کا حصول تھا، لیکن اسے ادھورا چھوڑدیا اور سوشل سائنسز کے مضامین میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم مکمل کی اور وکالت کا پیشہ اپنایا اور آج انہیں نام ور وکلا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اسکاٹ لینڈ میں مساوات اور انصاف کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں۔
٭ حمزہ یوسف بھی اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہیں اور 2011 میں انہیں پارلیمنٹ کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ اسکاٹ لینڈ میں مختلف شعبوں میں سرگرم شخصیات میں شبانہ اختر بخش کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں مقیم شبانہ بہ طور اداکارہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان کی شناخت کا اہم حوالہ اسکاٹ لینڈ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرمیاں بھی ہیں۔ اسی طرح 1954 میں پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی امتیاز دھارکر ایک سال کی عمر میں والدین کے ساتھ گلاسگو آگئی تھیں اور آج وہاں شاعرہ اور ڈاکومینٹری فلم میکر کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے حسن غنی بھی ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں، لیکن انہیں براڈ کاسٹ جرنل ازم کا تجربہ بھی ہے۔ وہ پاکستان، افغانستان، غزہ، ترکی، مصر اور صومالیہ میں کٹھن حالات میں صحافتی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ ماجد حق اور رانا عمر حسین اسکاٹ لینڈ میں کرکٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
محلِ وقوع
براعظم یورپ کے شمال مغرب میں واقع اسکاٹ لینڈ کی شمالی سرحد انگلینڈ سے ملتی ہے، جب کہ تین اطراف سے یہ بحرِاوقیانوس سے گھرا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ نما 78,387 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 790 دیگر چھوٹے جزائر بھی اسکاٹ لینڈ کا حصّہ ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ایڈن برگ ہے۔ اسے یورپ میں ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر گلاسگو ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے بالائی علاقے اور جزائر شمال اور مغرب میں واقع ہیں اور یہ زیادہ تر پہاڑی علاقے ہیں۔ وسطی نشیبی علاقوں کو معاشی اعتبار سے اہم قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں لوہے اور کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی بالائی علاقے میں 200 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ ہے اور یہ خوب صورت وادیوں پر مشتمل ہے۔n
اسکاٹ لینڈ کے وسائل اور معیشت
اسکاٹ لینڈ کی تجارت یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک سے جڑی ہوئی ہے۔ ایڈن برگ کو معاشی سرگرمیوں میں اہم کردار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں کی تیاری، کوئلے کی صنعت اور فولادسازی کے علاوہ تیل کے ذخائر سے بھی اس جزیرہ نما نے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا، لیکن گذشتہ کئی سال سے اسکاٹ لینڈ مختلف مصنوعات کی تیاری کے میدان میں سرگرم ہے۔ 2005 میں اس کی برآمدات کا 70 فی صد انہی مصنوعات کا حاصل تھا۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ قدرتی وسائل، جیسے گیس، تیل، زنک، کوئلے کے ذخائر سے بھی فائدہ اٹھارہا ہے۔ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں الگ پہچان رکھتا ہے اور اس کا تیسرا بڑا شہر ایبرڈین یورپ میں 'تیل کا مرکز' کہلاتا ہے۔
اس کے شمالی سمندر میں تیل کے ذخائر برطانیہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ پچھلے چند سال کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری، کمپیوٹر سافٹ ویئرز، برقی آلات کی تیاری کے علاوہ بینکاری، انشورنس، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں خدمات کی فراہمی پر توجہ دیتے ہوئے اسکاٹ لینڈ نے اپنی معیشت کا حجم بڑھانے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ اس جزیرہ نما کے مختلف علاقے پھلوں کے علاوہ سی فوڈ کی برآمدات سے معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ توانائی کے مختلف شعبوں میں بھی اسکاٹ لینڈ کی خدمات یورپ میں اہمیت رکھتی ہیں۔
انگلینڈ کے ساتھ کاروبار کے علاوہ یورپ کی مارکیٹ اسکاٹ لینڈ کے لیے اہم ہے۔ امریکا، ہالینڈ، جرمنی، فرانس اور اسپین جیسے اہم ممالک اس کی برآمدات کا مرکز ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بھی اسکاٹ لینڈ کی معیشت میں اہمیت اختیار کرچکا ہے اور یہ ملک اس شعبے سے معاشی ترقی ممکن بنا رہا ہے۔ یہاں کے پانچ ہوائی اڈّے بین الاقوامی آپریشن سے ملکی آمدن کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ہوائی اڈّوں سے 150ممالک کے لیے فضائی سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے 340 ریلوے اسٹیشنز سے سالانہ چھے کروڑ 20 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں اور ریاست کو مالی نفع پہنچاتے ہیں۔
یورپ کی ایک سمت میں واقع اسکاٹ لینڈ کی زمین طویل عرصے تک برف سے ڈھکی رہی۔ لگ بھگ 11000 قبل مسیح میں موسم کروٹ لیتا ہے۔۔۔ آکاش پر سورج کی نرم کرنیں جاگتی ہیں۔۔۔ فلک سے 'بدلی' کی دبیز تہ گھٹتی ہے۔۔۔ زمین پر جمے برف کے ساگر دھیرے دھیرے پرے کھسکتے ہیں۔۔۔ اور آہستہ آہستہ یہاں زندگی سانسیں لینا شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ موسم کی بہتری یہاں مویشیوں سے معاش حاصل کرنے والے کچھ لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ چوپائوں کے رکھوالوں کی آمدورفت شروع ہوتی ہے۔۔۔ کچھ جانوروں کے شکار سے پیٹ پوجا کرنے والے ہیں۔۔۔ لگ بھگ 7500 قبل مسیح کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ میں تعمیر ہونے والے پتھروں کے مکانات یہاں لوگوں کی مستقل رہایش کا پتا دیتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 27 قبل مسیح میں جب رومن سلطنت کا قیام عمل میں آیا، تو انگلستان اور ویلز کے ساتھ اسکاٹ لینڈ بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ رومیوں نے اسے برطانیہ کے ایک صوبے کی حیثیت دی۔ یوں اس سرزمین کے پہلی بار باقاعدہ طور پر برطانیہ سے ناتا جڑتا ہے۔۔۔ جس کے بعد باہمی تعلقات میں سردو گرم کے کئی دور آئے۔ برطانیہ کا نام دراصل برٹن قبائل کی بنا پر پڑا۔ یہ قبائل قرب وجوار کے خطوں سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔
اس کے بعد اسکاٹ لینڈ کبھی پانچ حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔۔۔ کبھی فرانس کی راج دہانی، تو کبھی انگلستان کے زیرنگیں، اور کچھ عرصے رومیوں کے زیر اثر بھی رہتا ہے۔۔۔ پھر 1034ء میں چار حصوں میں منقسم اسکاٹ لینڈ باقاعدہ متحد ہوجاتا ہے۔43ء تا 84ء جنرل جولیس اگریکولا (Gnaeus Julius Agricola ) کی زیرقیادت یہاں رومیوں کو فتح حاصل ہوتی ہے۔
ایک رومی مورخ ٹیسی ٹس (Tacitus) رقم طراز ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے باشندوں نے رومیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مسلح جدوجہد کی۔ اسکاٹ لینڈ کے بپھرے ہوئے قبائل کو قابو میں رکھنے کی خاطر یہاں ایک دیوار بھی تعمیر کی جاتی ہے، لیکن عوام کی مزاحمت کے مقابل، یہاں رومیوں کا قبضہ 40 سال سے زیادہ نہیں رہ پاتا اور مختلف مقامی گروہ اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ مارچ 1286ء میں الیگزینڈر سوئم (Alexander III) کی وفات کے بعد اس کی نواسی مارگریٹ (Margaret) کی تاج پوشی ہوتی ہے، لیکن 1290ء میں اس کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔
یوں اسکاٹ لینڈ پر شاہی خاندان کا دو سو سال پرانا تسلسل منقطع ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اول (Edward I) سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کے لیے نئے بادشاہ کا انتخاب کریں، لہٰذا 17 نومبر 1292ء کو اسکاٹ لینڈ کی فرماں روائی کے لیے جان بلیول (John Balliol) کو چن لیا جاتا ہے۔ انگلستان کی جانب سے اپنے مقرر کردہ نئے شاہ سے تابع داری کی توقع باندھ لی جاتی ہے۔۔۔ لیکن یہ امید اس وقت خاک میں مل جاتی ہے، جب اسکاٹ لینڈ، فرانس کے خلاف انگلستانی فوج کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی جانب سے فرانس سے اتحاد کے لیے وفود بھیجے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں 23 اکتوبر 1295ء کو فرانس اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 1560ء تک نافذ رہا۔ انگلستان نے اسکاٹ لینڈ اور فرانس کا یہ معاہدہ قبول ہی نہیں کیا اور یوں اسکاٹ لینڈ اور انگلستان کے درمیان کشیدگی باقاعدہ ایک جنگ کا روپ دھار لیتی ہے۔۔۔ جس کے نتیجے میں انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ، اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جان بلیول کو بے دخل کر کے اسکاٹ لینڈ پر قبضہ کرلیتا ہے، یوں جبراً اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرا دیا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے عوام اس قبضے کے خلاف بھی آزادی کا عَلم لیے سرِ میدان آجاتے ہیں۔ اینڈریو مرے (Andrew Murray) اور ولیم ویلس (william wallace) حریت پسند راہ نما بن کے ابھرتے ہیں۔ انگلستان سے آزادی کی یہ جنگ کئی دہائیوں تک جاری رہتی ہے۔ بالآخر اسکاٹ لینڈ کے حریت پسند انگریز افواج کو شکست سے دوچار کرتے ہیں اور 1328ء میں اسکاٹ لینڈ کو آزاد کرالیا جاتا ہے۔ یہ انگلستان کے ایڈورڈ دوم (Edward II) کا دور ہے اور اس شکست کے نتیجے میں اسے انگلستان میں بھی اپنے تخت سے دست بردار ہونا پڑ جاتا ہے۔
انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے معاملات کچھ عرصے کے لیے جدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1468ء میں اسکاٹ لینڈ کے فرماں روا جیمز سوم (James III) کچھ خارجی معاملات حل کرنے کی خاطر ڈنمارک کی شاہ زادی مارگریٹ (Margaret) سے شادی رچا لیتا ہے۔ دوسری طرف انگلستان کی نظریں بھی اسکاٹ لینڈ پر جمی رہتی ہیں، 1482ء میں جیمز سوم کی وفات کے بعد موقع پا کر اسکاٹ لینڈ کے ایک قصبے Berwick-upon-Tweed پر انگلستان اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔
1502ء میں اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان تعلقات ایک نئی کروٹ لیتے ہیں، جب جیمز چہارم (James IV) انگلستان کے ہنری ہفتم سے باہمی امن کا معاہدہ کرلیتا ہے۔ دونوں ممالک کی بادشاہت کو یک جا کرنے کی خاطر جیمز چہارم، ہنری ہفتم (Henry VII) کی بیٹی مارگریٹ ٹوڈو (Margaret Tudo) سے شادی کر لیتا ہے۔ 1603ء میں اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز ششم (James VI) کو انگلستان کی بادشاہت بھی وراثت میں ملتی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے یک جا ہونے کا خواب حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔
معاملات شاید اسی ڈگر رفتہ رفتہ آگے بڑھتے رہتے کہ 1690ء کے آخر میں اسکاٹ لینڈ میں شدید قحط پڑتا ہے۔ بھوک وہاں کی آبادی کے پانچویں حصے کو نگل لیتی ہے۔ شدید غذائی بحران سے نکلنے کی سبیل کے طور پر 1698ء میں اسکاٹ باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاناما میں تجارت کے لیے اپنی جمع پونجی لگاتی ہے، شومئی قسمت۔۔۔ یہ سرمایہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ شدید معاشی مسائل کا شکار پورا اسکاٹ لینڈ اب دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر برطانیہ سے مدد مانگی جاتی ہے۔
22 جولائی 1706ء کو اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے انضمام کا معاہدہ دونوں ممالک کے اراکین پارلیمان کے درمیان طے پاتا ہے۔ اگلے سال اس سمجھوتے کو دونوں طرف کے پارلیمان منظور کر لیتے ہیں اور یوں یکم مئی 1707ء کو یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن (United Kingdom of Great Britain) وجود میں آجاتی ہے۔ماضی میں اکثر ایک دوسرے کے حریف اور اچھے ہم سائے نہ رہنے والے اب حالات کے تحت یک جا ہونے پر آتے ہیں، تو اب ایک پرچم تلے باہم شیرو شکر ہونے لگتے ہیں۔
اس اتحاد سے اسکاٹ لینڈ کے معاشی حالات سنبھلنے لگتے ہیں۔ تاہم بحران سے نکلنے کے بعد اب اسکاٹ لینڈ باقاعدہ برطانیہ کے لیے معاشی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ (گلاسگو) کی بندرگاہ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح انیسویں صدی میں لوہے سے تیار شدہ مکانات کا اسکاٹش فن نہایت تیزی سے برطانیہ اور پھر پوری دنیا میں پھیلتا ہے۔ چوں کہ اسکاٹ لینڈ میں لکڑی کی قلت کی وجہ سے پہلے ہی بڑے پتھروں کے ذریعے مکانات بنانے کا رواج موجود تھا۔ اس کے بعد پہلی اور دوسری عالم گیر جنگ میں بھی اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ کے لیے افرادی قوت، بحری جہاز، مشینری سمیت سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران 1911ء میں 48 لاکھ کی کل آبادی میں سات لاکھ کے قریب جوان بھیجے جاتے ہیں، جن میں سے 74 ہزار مارے جاتے ہیں۔1707ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے میں یہ بات یقینی بنائی گئی تھی کہ اسکاٹ لینڈ میں اس کے اپنے قوانین ہوں گے۔ انگلستان اور ویلز کے قوانین کا اطلاق اسکاٹ لینڈ پر نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے ملاپ سے قبل کے بے شمار قوانین اسکاٹ لینڈ میں بعد تک موثر رہے۔ برطانیہ میں اگرچہ ''بینک آف انگلینڈ'' کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، تاہم اسکاٹش بینک بھی اپنے پائونڈ جاری کرتا ہے۔
تاج برطانیہ کا حصہ بننے کے بعد اسکاٹ لینڈ کا سربراہ بھی برطانوی بادشاہ یا ملکہ ہوتی ہے۔ اس وقت ایلزبتھ دوم (Elizabeth II) کو اس سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ 6 فروری 1952ء کو جارج ششم کی وفات کے بعد جب ان کی صاحب زادی ایلزبتھ دوم کی تاج پوشی کی گئی، تو اسکاٹ لینڈ میں خاصی ہلچل مچی، کیوں کہ ایلزبتھ اول ) 1558ء تا 1603ء (کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ ایک بالکل علیحدہ ریاست کی حیثیت کا حامل تھا، اس لیے ایلزبتھ اول کبھی بھی اسکاٹ لینڈ کی سربراہ نہیں رہیں، لیکن ایلزبتھ دوم برطانیہ کی ملکہ کی حیثیت سے اب اس کی سربراہ قرار پائیں۔
انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے علاوہ برطانیہ میں ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے ممالک بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکہ ایلزبتھ دوم مزید 14 ممالک کی بھی ملکہ ہیں، جن میں کینیڈا، آسٹریلیا، جمیکا، بارباڈوس، پاپوا نیوگنی (Papua New Guinea)، گریناڈا (Grenada)، بہاماس(The Bahamas) جزائر سولومن Solomon Islands) (، ٹوویلو(Tuvalu)، سینٹ لوشیا Saint Lucia) (، سینٹ وینسنٹ اینڈ دی گرینڈائنس (Saint Vincent and the Grenadines) بیلیز (Belize)، اینٹیگا اینڈ باربوڈا (Antigua and Barbuda) اور سینٹ کیٹس اینڈ نیوس (Saint Kitts and Nevis) شامل ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کے چند قابلِ ذکر پاکستانی
2011 کی مردم شماری کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں تقریباً 77 ہزار مسلمان بستے ہیں۔ ان میں پاکستانیوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے اور ان کی اکثریت اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر، گلاسگو میں مقیم ہے۔ یہ لگ بھگ 20 ہزار ہیں۔
٭ برٹش لیبر پارٹی سے وابستہ انس سرور کے والد چوہدری محمد سرور پاکستان میں پنجاب کے گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری سرور گلاسگو سے تین بار برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور 2011 کے انتخابات میں انہی کی نشست پر ان کے بیٹے انس سرور نے کام یابی حاصل کی۔ انس کی پیدائش اسکاٹ لینڈ کی ہے، جب کہ ان کے والد پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭ بشیر مان کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالا سے ہے۔ مان نامی ایک گاؤں سے برطانیہ جانے والے بشیر مان کو آج اسکاٹ لینڈ میں سیاست داں، بزنس مین، سماجی کارکن اور لکھاری کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ 1970میں انہیں مقامی حکومت کے انتخابات میں کام یاب ہونے پر 'گلاسگو کارپوریشن' کے تحت شہر کے ایک وارڈ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
٭ عامرانور کے اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ 1986 میں انگلینڈ سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے اور یہاں طلبہ سیاست سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اسکاٹ لینڈ آنے کا مقصد انجینئرنگ کی تعلیم کا حصول تھا، لیکن اسے ادھورا چھوڑدیا اور سوشل سائنسز کے مضامین میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم مکمل کی اور وکالت کا پیشہ اپنایا اور آج انہیں نام ور وکلا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اسکاٹ لینڈ میں مساوات اور انصاف کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں۔
٭ حمزہ یوسف بھی اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہیں اور 2011 میں انہیں پارلیمنٹ کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ اسکاٹ لینڈ میں مختلف شعبوں میں سرگرم شخصیات میں شبانہ اختر بخش کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں مقیم شبانہ بہ طور اداکارہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان کی شناخت کا اہم حوالہ اسکاٹ لینڈ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرمیاں بھی ہیں۔ اسی طرح 1954 میں پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی امتیاز دھارکر ایک سال کی عمر میں والدین کے ساتھ گلاسگو آگئی تھیں اور آج وہاں شاعرہ اور ڈاکومینٹری فلم میکر کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے حسن غنی بھی ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں، لیکن انہیں براڈ کاسٹ جرنل ازم کا تجربہ بھی ہے۔ وہ پاکستان، افغانستان، غزہ، ترکی، مصر اور صومالیہ میں کٹھن حالات میں صحافتی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ ماجد حق اور رانا عمر حسین اسکاٹ لینڈ میں کرکٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
محلِ وقوع
براعظم یورپ کے شمال مغرب میں واقع اسکاٹ لینڈ کی شمالی سرحد انگلینڈ سے ملتی ہے، جب کہ تین اطراف سے یہ بحرِاوقیانوس سے گھرا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ نما 78,387 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 790 دیگر چھوٹے جزائر بھی اسکاٹ لینڈ کا حصّہ ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ایڈن برگ ہے۔ اسے یورپ میں ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر گلاسگو ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے بالائی علاقے اور جزائر شمال اور مغرب میں واقع ہیں اور یہ زیادہ تر پہاڑی علاقے ہیں۔ وسطی نشیبی علاقوں کو معاشی اعتبار سے اہم قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں لوہے اور کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی بالائی علاقے میں 200 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ ہے اور یہ خوب صورت وادیوں پر مشتمل ہے۔n
اسکاٹ لینڈ کے وسائل اور معیشت
اسکاٹ لینڈ کی تجارت یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک سے جڑی ہوئی ہے۔ ایڈن برگ کو معاشی سرگرمیوں میں اہم کردار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں کی تیاری، کوئلے کی صنعت اور فولادسازی کے علاوہ تیل کے ذخائر سے بھی اس جزیرہ نما نے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا، لیکن گذشتہ کئی سال سے اسکاٹ لینڈ مختلف مصنوعات کی تیاری کے میدان میں سرگرم ہے۔ 2005 میں اس کی برآمدات کا 70 فی صد انہی مصنوعات کا حاصل تھا۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ قدرتی وسائل، جیسے گیس، تیل، زنک، کوئلے کے ذخائر سے بھی فائدہ اٹھارہا ہے۔ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں الگ پہچان رکھتا ہے اور اس کا تیسرا بڑا شہر ایبرڈین یورپ میں 'تیل کا مرکز' کہلاتا ہے۔
اس کے شمالی سمندر میں تیل کے ذخائر برطانیہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ پچھلے چند سال کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری، کمپیوٹر سافٹ ویئرز، برقی آلات کی تیاری کے علاوہ بینکاری، انشورنس، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں خدمات کی فراہمی پر توجہ دیتے ہوئے اسکاٹ لینڈ نے اپنی معیشت کا حجم بڑھانے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ اس جزیرہ نما کے مختلف علاقے پھلوں کے علاوہ سی فوڈ کی برآمدات سے معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ توانائی کے مختلف شعبوں میں بھی اسکاٹ لینڈ کی خدمات یورپ میں اہمیت رکھتی ہیں۔
انگلینڈ کے ساتھ کاروبار کے علاوہ یورپ کی مارکیٹ اسکاٹ لینڈ کے لیے اہم ہے۔ امریکا، ہالینڈ، جرمنی، فرانس اور اسپین جیسے اہم ممالک اس کی برآمدات کا مرکز ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بھی اسکاٹ لینڈ کی معیشت میں اہمیت اختیار کرچکا ہے اور یہ ملک اس شعبے سے معاشی ترقی ممکن بنا رہا ہے۔ یہاں کے پانچ ہوائی اڈّے بین الاقوامی آپریشن سے ملکی آمدن کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ہوائی اڈّوں سے 150ممالک کے لیے فضائی سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے 340 ریلوے اسٹیشنز سے سالانہ چھے کروڑ 20 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں اور ریاست کو مالی نفع پہنچاتے ہیں۔