بات کچھ اِدھر اُدھر کی آبی جارح کون

اگر پاکستان کی سنجیدگی کاعالم یہی رہا تو 2025 تک پاکستان پانی کے حوالے سے بدترین کمی کا شکار ملک بن جائے گا۔


علی رضا شاف September 28, 2014
سندھ طاس معاہدے کے اندر رہتے ہوئے بھارت جو کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کیا کررہا ہے؟ ہم ایٹمی جنگ کے لیے بھی تیار ہیں اور بھارت کو نیست و نابود کرنے کے لئے بھی مگرتیار نہیں ہیں تو ڈیم بنانے کےلیے نہیں ہیں۔ فوٹو: فائل

اگر دھرنوں پر بیٹھی سیاسی اور مریدینی جماعتوں کی باتیں بور کرنے لگی ہوں تو توجہ ذرا وفاقی وزیر صاحب کے ایک بیان پر مبذول کیجئے۔ فرمایا! بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے بعد حکومت کے پاس 'ری ایکشن ٹائم' بے حد کم تھا۔

انتہائی عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ 'ری ایکشن ٹائم' کا وقت کس طرح کم ہوسکتا ہے کہ جب گزشتہ برس ہی بھارت کی جانب سے برسات کے موسم میں اپنے ڈیموں سے زائد الضرورت پانی چھوڑے جانے کے فوراًبعد اِس کھیل کا آغاز ہو چکا تھا۔

پھر آبی جارحیت کا ذمہ دار کون؟ سیلاب کو بھارت کی آبی جارحیت قرار دے کر اپنی سیاست چمکانے والے محب وطن پاکستانی یا پانی کو نایاب جانتے ہوئے ڈیموں میں بھر کر قابلِ استعمال بنانے والے کم عقل بھارتی بنیے؟ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہم سے کم پڑھی لکھی، زیادہ جذباتی، قدرے کم باصلاحیت اور کہیں زیادہ سازشوں کا شکار کسی قوم کے پاس پانی کی فراہمی کا مون سون جیسا قدرتی موسمی نظام ہوتا جو ہر سال خاص مہینوں میں آسمان سے پانی برسا سکتا تو بلاشبہ اس پانی کوملک کے طول و عرض میں یوں تباہی مچا تے ہوئے سمندر کا پیٹ بھرنے کی کھلی اجازت نہ دی جاتی۔

یہ طرہ امتیاز ہمارا ہی ہے۔ سمجھنے میں اتنی کوئی مشکل بات نہیں کہ چونکہ کم ظرف بھارت پانی کو قیمتی جانتا ہے اور 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی قانونی حدود و قیود کوبھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے اپنے مشرقی دریاؤں کے علاوہ مغربی پاکستانی دریاؤں پر بھی ڈیم در ڈیم بناتے ہوئے پانی کے انتظام و استعمال اور ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر چکا ہے توجتنی بارش زیادہ ہوگی اتنا ہی زیادہ پانی بھارت کو اپنے ڈیموں سے دریاؤں میں چھوڑنا پڑے گا۔

پانی سے متعلق دونوں ممالک کی سنجیدگی کا معیارجانچنے کے لئے مابعد تقسیم دونوں ممالک میں تعمیر کردہ ڈیموں کی تعداد کا تقابلی جائزہ لینے سے کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے 67 برسوں میں بھارت نے 3,500 سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہیں جبکہ پاکستان میں یہی تعداد 150 کے لگ بھگ ہے ۔مغربی دریاؤں کے بہاؤ کے تناظر میں چونکہ پاکستان نچلی سمت میں واقع ہے تو سندھ طاس معاہدے کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو بھارت سے کہیں زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے جس میں اب تک پاکستان بلاشبہ ناکام رہا ہے۔ چھوٹی سی مثال مقبوضہ کشمیر میں بھارت کاکشن گنگا ڈیم کا منصوبہ اور آزاد کشمیر میں پاکستان کا نیلم جہلم ڈیم کا منصوبہ ہے۔ اگر پاکستان کا نیلم جہلم منصوبہ 2008 کے بجائے اپنے ابتدائی مقررہ سال 2002 میں شروع کر دیا جاتا تو اس صورت میں بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا منصوبہ کے لئے پانی کو موڑکر دریائے نیلم کے پانی کے بہاؤ میں 10 فیصد کمی کرنے کے حق سے محروم ہو جاتا کیونکہ پاکستان نیلم جہلم منصوبے کے لئے اس پانی کے استعمال پر اپنا حق ثبت کر چکا ہوتا۔پر ہوا یوں کہ کشن گنگا منصوبہ 2007 میں نیلم جہلم منصوبے سے ایک سال پہلے شروع ہو گیا۔2010 میں پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے باعث دریائے نیلم میں پانی کی کمی کے خلاف اپیل کی اور ماضی کے دیگرمنصوبوں کی طرح بین الاقوامی ثالثی عدالت نے فروری 2013 میں پاکستان کے تکنیکی اعتراضات کو دور کرتے ہوئے بھارتی ڈیم کے ڈیزائین میں چند تبدیلیاں کیں اور ڈیم بنانے کا فیصلہ بھارت کے حق میں دیا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر کشن گنگا منصوبے کا دریائے جہلم میں پانی کے بہاؤ پر کوئی اثر نہیں پڑتا!

ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے یہی کافی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو پانی کی کمی کے دباؤ کا شکار ملک قرار دے چکا ہے اور اگر سنجیدگی کا عالم یہی رہا تو 2025 تک پاکستان پانی کے حوالے سے بدترین کمی کا شکار ملک بن جائے گا۔ کیونکہ گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی لاکھوں کیوسک پانی بارش اور طغیانی کی صورت میں تباہی مچاتا سمندر میں جا گرنے کے سفر پر گامزن ہے اور پاکستان اس سال بھی اپنے ساتھ بذاتِ خود آبی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے!

پانی کے معاملے پر بھارت کو گالیاں دینااور اس سے جنگ و جدل و ایٹمی جنگ کے خواب دیکھنے والے سیاسی و مذہبی مجاہدین اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ بھارت اپنے بہتر مستقبل کے لئے سندھ طاس معاہدے کے اندر رہتے ہوئے عملی طور جو کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے اور ہم آنکھیں میچے جتنی بڑھکیں مار سکتے ہیں مار رہے ہیں۔بس ہم ایٹمی جنگ کے لیے تو تیار ہیں بھارت کو نیست و نابود کرنے کے لیے بھی تیار ہیں بس اگر کسی چیز کے لیے تیار نہیں ہیں تو اپنے بنیادی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں