خیالی پلاؤ نظم ’’دل ترا شہرِ انبساط رہے‘‘
تیرے آنگن میں قافلے اُتریں، جھلملاتے ہوئے ستاروں کے، ہو کے بے اختیار اُٹھ جائیں، تیری جانب قدم بہاروں کے۔
ہے تمنا کہ تجھ کو آج کا دن
ہر مسرت سے ہمکنار کرے
کھل اٹھیں پھول دل کے آنگن میں
تو اگر خواہش بہار کرے
مسکراہٹ لبوں پہ ہو رقصاں
سارا عالم تجھی سے پیار کرے
تجھ سے ہر رنج دُور ہو جائے
ہر خوشی تجھ پہ جاں نثار کرے
تیری رعنائیوں میں کھو جائے
غم کا سورج غروب ہو جائے
تیرے آنگن میں قافلے اُتریں
جھلملاتے ہوئے ستاروں کے
ہو کے بے اختیار اُٹھ جائیں
تیری جانب قدم بہاروں کے
ہر نئی صبح تیرے دامن میں
چاہتوں کے گلاب بھر جائے
ہر حسین شام اپنی رعنائی
تیرے خوابوں کے نام کر جائے
دیکھ کر تیرے رُخ کی شادابی
رنگ قوسِ قزح نکھر جائے
مسکراتی سدا حیات رہے
تیرے قدموں میں کائنات رہے
پرَتو غم نہ پڑ سکے تجھ پر
دل ترا شہر اِنبساط رہے
غم نہ دِل میں کبھی اجاگر ہو
شادمانی ترا مقدر ہو
آنے والے دِنوں کی تابانی
جانے والے دِنوں سے بڑھ کر ہو
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔