کھیل کود یونس خان سچ کیوں نہ بولیں

میں ذاتی طورپریونس خان کے ساتھ ہوں۔ اُنہوں نے جوکچھ بھی کہا اُس بارے میں میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی اختلاف کرسکتا ہے۔


فہیم پٹیل September 27, 2014
اگر کرکٹ بورڈ سینئرز کے مسلسل غلط رویہ اپنائے گا تو پھر کیوں یونس خان سچ نہ بولیں؟ اگر سینئرز کے ساتھ بورڈ کا رویہ یہی رہا تو وہ وقت دور نہیں جب نئے آنے والے کھلاڑی سوچنا شروع کردیں کہ قومی ٹیم کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں کہ سینئر بننے کے بعد کہیں بے عزت نہ کردیا جائے؟، فوٹو: فائل

بات کا آغاز جاوید میانداد ، وسیم اکرم، وقاریونس یا پھر اختتام انضمام الحق، محمد یوسف اور شعیب اختر پر کیا جائے ، میں اب تک یہی سمجھتا تھا کہ اِن تمام عظیم کھلاڑیوں کے کیرئیر کا مایوس کن اختتام صرف اور صرف اِنہیں کھلاڑیوں کی حرکتوں کا نتیجہ ہے۔

ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں جب دنیا کے دیگر کھلاڑیوں کے غیر معمولی ریٹائرمنٹ کے مناظر دیکھتا تھا تو دل سے اپنے کھلاڑیوں کے لیے بُرے خیالات آتے تھے کہ ہمارے سارے کھلاڑی مطلب پرست اور زندگی بھر کھیل کے میدان میں رہنا چاہتے ہیں اور پھر مجبوراً بورڈ اُن کو نکال دیتا ہے مگر میری اتنے عرصے کی یہ غلط فہمی تو گزشتہ روز یونس خان کی ایک مختصر مگر سخت پریس کانفرنس نے ختم کی اور مجھے اندازہ ہوا کہ تصویر کے ہمیشہ دو رُخ ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ ایک ہی دیکھتا رہا ہوں۔

یونس خان کی تلخی وہ سب کچھ بتارہی ہے جس کا تو شاید مجھے اور آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ قومی ٹیم کے لیے منتخب ہونا کس قدر مشکل کام ہے اور اِس سے بھی کئی گنا مشکل کام ٹیم میں مستقل طور پر جگہ بنانا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کیا بات کی جائے۔ جہاں ایک طویل عرصے تک صرف چئیرمین کے آنے اور جانے کا کھیل چلتا رہا ، جہاں رات کو سوتے ہوئے ایک چئیرمین ہوتا تھا اور صبح اُٹھنے کے بعد پتہ چلتا کہ اب چئیرمین کوئی اور ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہا تھا جہاں ٹیم کا حال اِس قدر بُرا ہے کہ ورلڈ کپ سے محض چھ ماہ قبل بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ آخر ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کیا ہوگا تاکہ اُس کی تیاریوں پر غور کیا جائے۔

اِس بار بھی ورلڈ کپ آسٹریلیا میں ہے اور آسٹریلیا سے تو ہماری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ وہ بھی کیا وقت تھا جب ایک کمزور سی ٹیم نے خوداعتمادی اور محنت کے سبب اِس قوم کو ایک عظیم تحفے سے نوازا ۔۔۔ مگر آج 22 سال بعد مقام وہی ہے مگر نتیجہ بالکل مختلف نظر آرہا ہے۔قومی ٹیم پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں ہمیں کوئی عمران خان،جاوید میانداد، وسیم اکرم اور مشتاق احمد کا متبادل نظر نہیں آتا۔ جہاں بالکل نئی ٹیم ہے جس کا مورال بھی کم ہے اور جس کا تجربہ بھی۔گنتی کے 4، 3 تجربہ کار کھلاڑی ہمارے پاس تھے مگر اُس میں سے بھی ایک تجربہ کار کھلاڑی پر آئی سی سی نے پابندی لگادی اور ایک تجربہ کار کھلاڑی پر ہم نے خود کرکٹ کے دروازے بند کردیے۔

کرکٹ بورڈ تو اپنے کھلاڑیوں کے نگراں کے طور پر کام کرتا ہے جس کی ذمہ داری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانااور قوم کے وقار کو بلند کرنا ہوتا ہے مگر چونکہ اِس وطن عزیز میں ابھی سب کچھ اُلٹا چل رہا ہے تو وہی معاملہ یہاں بھی ہے۔نہ ہی دور رس دیکھنے کا کمال اور نہ ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کہ آخر وہ کونسا طریقہ اپنایا جائے کہ عالمی میلے کے لیے بہتر سے بہتر ٹیم کا انتخاب کیا جائے۔ نہیں یہ تو کرنا ہی نہیں۔ اور جب کوئی کھلاڑی اِن کمزوریوں کا تذکرہ کرلے تو اِسے سینٹرل کانٹریکٹ کی خلاف ورزی قرار دے کر اظہار رجوع کا نوٹس جاری کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ ناک جو بہت اونچی ہے آخر بھلا کوئی کھلاڑی کس طرح سچ بولنے کی جسارت کرسکتا ہے۔

ہم بہت دور نہیں جاتے لیکن کیا ہم شعیب اختر اور عبدالرزاق کے ساتھ رکھے جانے والے رویے کے گواہ نہیں ہیں؟ 2011 کے ورلڈ کپ میں شعیب اختر عزت کے ساتھ رُخصت کے خواہشمند تھے مگر ان فٹ قرار دے کر بھارت کے خلاف میچ نہ کھلا کر اُنہیں اِس حق سے محروم کردیا گیا۔ اب آ پ خود ہی بتائیے کہ جناب اِس میں کس کا قصور ہے؟ عبدالرزاق کو اگر طریقے سے استعمال کیا جاتا تو یہ بڑا کھلاڑی اِس وقت بھی قومی ٹیم کا حصہ ہوسکتا تھا جس نے پاکستان کو بڑی بڑی فتوحات سمیٹ کردی ہیں مگر غلط پالیسیوں کے سبب اگر ہم نے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا ضائع کردیے تو کوئی کیوں نہ بولے؟

میں ذاتی طور پر یونس خان کے ساتھ ہوں۔ اُنہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جو کچھ بھی کہا اُس بارے میں میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی پاکستانی اختلاف کرسکتا ہے۔اگر سینئرز کے ساتھ بورڈ کا رویہ یہی رہا تو وہ وقت دور نہیں جب نئے آنے والے کھلاڑی تذبذب کا شکار ہوجائے اور سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ کیا قومی ٹیم کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں کہ سینئر بننے کے بعد کہیں بے عزت نہ کردیا جائے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں