پاکستان ایک نظر میں لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم سب بہت خوش ہیں، یہاں میرے ساتھ اور بھی میری بہت سی بہنیں موجود ہیں، کوئی تیزاب جلی اور کسی نے خود کو جلا دیا۔
KARACHI:
میں بہت پریشان تھی، سات آٹھ گھروں میں کام کرکے کتنا کما لیتی ہونگی۔آپ بھی سمجھ سکتے ہیں آپ کے گھروں میں بھی تو ہم جیسی کام کاج
والیاں آتی ہی ہونگی؟کوئی مہمان آجائے تو اس کے سامنے اپنا اسٹیٹس ہائی کرنے کے لئے آپ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ میں سے گلاس بھر کر اپنے مہمان کو اپنے ہاتھوں دینا بھی توہین سمجھتے ہیں اور پھر لگتی ہے ہمارے نام کی پکار۔۔۔اور ہمارا تو کوئی نام بھی نہیں ہے ،اگر ہوتا ہو گا تو وہ بھی شاید بچپن میں ہوگا۔ہاں مجھے بھی ایسا ہی نام دیا تھا میرے گھر والوں نے سلمی ۔
اس نام سے کبھی کسی نے پکارا ہی نہیں اس لئے بھول گئی تھی۔ کسی گھر میں مجھے ماسی ، اے ماسی، اور کچھ پڑھے لکھے لوگ مجھے باجی، خالہ بھی کہہ دیتے تھے مگر ایسے گھر کم ہی تھے میرے پاس۔مجھے بڑی شرمندگی ہوتی تھی جب تنخواہ کی باری آتی تھی تو میرے کاموں میں طرح طرح کے نقص نکال کر میرے سامنے رکھے جاتے تا کہ بہانے سے کوئی نہ کوئی کٹوتی ڈالی جائے۔ بس پیسے دینا نہ پڑیں۔
میں ایک گھر میں صفائی کا کام کرتی تھی ساتھ ہی گملوں کو پانی دینا بھی میری ذمہ داری تھی،جب تنخواہ دینے کا دن آیا تو بیگم صاحبہ نے 200 روپے کاٹ لئے کہ میں نے دو گملے توڑے ہیں میں نے کہا کہ بی بی جی میں نے آپ سے کافی دن پہلے کہا تھا کہ کچھ گملے بہت پرانے ہیں اور ان میں دراڑیں بھی ہیں انہیں پھینک دوں؟ اور آپ نے کہا تھا کہ ہاں ٹھیک ہے۔مگر بیگم صاحبہ کو یاد نہیں آ یابس پھر کیا تھا اس دن میرا بہت دل ٹوٹا۔میں اپنے کام میں لگ گئی پیاس لگی تو بیگم صاحبہ اس وقت کچن میں تھیں میں نے اپنا گلاس اٹھایا اور کولر سے پانی پینے لگی پیاس زیادہ تھی گرمی جو بہت تھی،میں نے کولر سے ایک گلاس پانی کا پیا اور دوسرا ابھی بھر ہی رہی تھی بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا اور بہت ناراض ہوئیں کہنے لگی میں بھی سوچوں کے ٹھنڈا پانی کہاں جاتا ہے،وہ تو سارے کا سارا تم پی جاتی ہو۔جاتے ہوئے خالی بوتل مجھ سے لے جانا اور اپنا پانی بھر کر لایا کرو۔
ایک گھر میں چھوٹی بی بی بڑا خیال رکھتی تھی جب بھی کوئی چیز باہر سے منگواتی تو جو دس بیس روپے ہوتے تھے وہ واپس نہیں لیتی تھی مجھے دے دیتی تھی میں بھی ان کی بہت خدمت کرتی تھی جب وہ پڑھ رہی ہوتی تو میں اسے چائے بنا کر دینے جاتی اور اکثر سوچتی کہ میری بیٹی بھی اسی کی طرح پڑھے ۔وہ مجھے اکثرچوری چھپے گرمیوں میں فریج سے برف نکال کر جاتے ہوئے دے دیتی کہ گھر لے جاؤ بچوں کے لئے۔مگر پھر ایک دن بڑی بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا اور بس کہانی ختم۔میں بھی کیا باتیں آپ سے لے کر بیٹھ گئی ہوں۔
میں کرائے کے مکان میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے اور پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی تھی۔جب میں صبح سویرے کام کاج کے لئے گھر سے نکلتی تو ایک کالج کے سامنے سے گزرتی تو سوچتی تھی کہ میرا بیٹا بھی ایک دن اسی طرح کالج کی یونیفارم میں کالج جائے گا۔ پڑھے گا اور پھر بڑا آدمی بنے گا۔میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو وہ میرا خیال رکھے گا۔گھر کما کر لایا کرے گا۔میری بیٹی بھی کالج جائے گی میں اسے ڈاکٹر بناؤں گی۔ہاں چار گھر اور پکڑلوں گی اتنا تو کرلوں گی یا پھراسے پروفیسر بناؤں گی جب وہ پڑھائے گی اور تھکی ہاری گھر آئے گی تو میں اسے چائے بنا کر دیا کروں گی جیسے میں اپنی چھوٹی بی بی کو بنا کر دیا کرتی تھی جب وہ کالج سے گھر آتی تھی۔
لیکن ابھی میری عمر 37 سال ہی تھی۔اوپر سے غربت بہت بھیانک شے ہے یہ بچپن کی شرارتیں، شوخیاں سب کچھ کھا جاتی ہے ، اس نے میرا بھی یہی حال کیا، مجھے لوٹ لیا۔ہوا یوں کہ میں اچھے دنوں کی آس لئے غربت کی جنگ سے مقابلے میں مصروف تھی کہ اچانک ایک دن بجلی کا بل آگیا اور وہ بھی 29300 روپے۔مالک مکان نے بھی آدھا بل طلب کرلیا ،میں ایک ایک در پر گئی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔بس پھر میں نے سوچا کہ میں خود کو اور اپنے بچوں کواس غربت سے ہمیشہ کے لئے آزاد کر دوں گی، پر ماں تھی ناں ہمت نہیں پڑی انہیں مارنے کی اور خود مر گئی۔اب میں یہاں ہوں میرے ساتھ اور بھی میری بہت سی بہنیں موجود ہیں،کوئی تیزاب جلی اور کسی نے خود کو جلا دیا۔ ہمارا ایک ہی دکھ تھا کہ ہمیں کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا، حق نہیں ملا۔ اب ہم سب یہاں بہت خوش ہیں۔ یہاں ہر سو ایک ہی آواز گونجتی رہتی ہے:
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں بہت پریشان تھی، سات آٹھ گھروں میں کام کرکے کتنا کما لیتی ہونگی۔آپ بھی سمجھ سکتے ہیں آپ کے گھروں میں بھی تو ہم جیسی کام کاج
والیاں آتی ہی ہونگی؟کوئی مہمان آجائے تو اس کے سامنے اپنا اسٹیٹس ہائی کرنے کے لئے آپ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ میں سے گلاس بھر کر اپنے مہمان کو اپنے ہاتھوں دینا بھی توہین سمجھتے ہیں اور پھر لگتی ہے ہمارے نام کی پکار۔۔۔اور ہمارا تو کوئی نام بھی نہیں ہے ،اگر ہوتا ہو گا تو وہ بھی شاید بچپن میں ہوگا۔ہاں مجھے بھی ایسا ہی نام دیا تھا میرے گھر والوں نے سلمی ۔
اس نام سے کبھی کسی نے پکارا ہی نہیں اس لئے بھول گئی تھی۔ کسی گھر میں مجھے ماسی ، اے ماسی، اور کچھ پڑھے لکھے لوگ مجھے باجی، خالہ بھی کہہ دیتے تھے مگر ایسے گھر کم ہی تھے میرے پاس۔مجھے بڑی شرمندگی ہوتی تھی جب تنخواہ کی باری آتی تھی تو میرے کاموں میں طرح طرح کے نقص نکال کر میرے سامنے رکھے جاتے تا کہ بہانے سے کوئی نہ کوئی کٹوتی ڈالی جائے۔ بس پیسے دینا نہ پڑیں۔
میں ایک گھر میں صفائی کا کام کرتی تھی ساتھ ہی گملوں کو پانی دینا بھی میری ذمہ داری تھی،جب تنخواہ دینے کا دن آیا تو بیگم صاحبہ نے 200 روپے کاٹ لئے کہ میں نے دو گملے توڑے ہیں میں نے کہا کہ بی بی جی میں نے آپ سے کافی دن پہلے کہا تھا کہ کچھ گملے بہت پرانے ہیں اور ان میں دراڑیں بھی ہیں انہیں پھینک دوں؟ اور آپ نے کہا تھا کہ ہاں ٹھیک ہے۔مگر بیگم صاحبہ کو یاد نہیں آ یابس پھر کیا تھا اس دن میرا بہت دل ٹوٹا۔میں اپنے کام میں لگ گئی پیاس لگی تو بیگم صاحبہ اس وقت کچن میں تھیں میں نے اپنا گلاس اٹھایا اور کولر سے پانی پینے لگی پیاس زیادہ تھی گرمی جو بہت تھی،میں نے کولر سے ایک گلاس پانی کا پیا اور دوسرا ابھی بھر ہی رہی تھی بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا اور بہت ناراض ہوئیں کہنے لگی میں بھی سوچوں کے ٹھنڈا پانی کہاں جاتا ہے،وہ تو سارے کا سارا تم پی جاتی ہو۔جاتے ہوئے خالی بوتل مجھ سے لے جانا اور اپنا پانی بھر کر لایا کرو۔
ایک گھر میں چھوٹی بی بی بڑا خیال رکھتی تھی جب بھی کوئی چیز باہر سے منگواتی تو جو دس بیس روپے ہوتے تھے وہ واپس نہیں لیتی تھی مجھے دے دیتی تھی میں بھی ان کی بہت خدمت کرتی تھی جب وہ پڑھ رہی ہوتی تو میں اسے چائے بنا کر دینے جاتی اور اکثر سوچتی کہ میری بیٹی بھی اسی کی طرح پڑھے ۔وہ مجھے اکثرچوری چھپے گرمیوں میں فریج سے برف نکال کر جاتے ہوئے دے دیتی کہ گھر لے جاؤ بچوں کے لئے۔مگر پھر ایک دن بڑی بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا اور بس کہانی ختم۔میں بھی کیا باتیں آپ سے لے کر بیٹھ گئی ہوں۔
میں کرائے کے مکان میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے اور پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی تھی۔جب میں صبح سویرے کام کاج کے لئے گھر سے نکلتی تو ایک کالج کے سامنے سے گزرتی تو سوچتی تھی کہ میرا بیٹا بھی ایک دن اسی طرح کالج کی یونیفارم میں کالج جائے گا۔ پڑھے گا اور پھر بڑا آدمی بنے گا۔میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو وہ میرا خیال رکھے گا۔گھر کما کر لایا کرے گا۔میری بیٹی بھی کالج جائے گی میں اسے ڈاکٹر بناؤں گی۔ہاں چار گھر اور پکڑلوں گی اتنا تو کرلوں گی یا پھراسے پروفیسر بناؤں گی جب وہ پڑھائے گی اور تھکی ہاری گھر آئے گی تو میں اسے چائے بنا کر دیا کروں گی جیسے میں اپنی چھوٹی بی بی کو بنا کر دیا کرتی تھی جب وہ کالج سے گھر آتی تھی۔
لیکن ابھی میری عمر 37 سال ہی تھی۔اوپر سے غربت بہت بھیانک شے ہے یہ بچپن کی شرارتیں، شوخیاں سب کچھ کھا جاتی ہے ، اس نے میرا بھی یہی حال کیا، مجھے لوٹ لیا۔ہوا یوں کہ میں اچھے دنوں کی آس لئے غربت کی جنگ سے مقابلے میں مصروف تھی کہ اچانک ایک دن بجلی کا بل آگیا اور وہ بھی 29300 روپے۔مالک مکان نے بھی آدھا بل طلب کرلیا ،میں ایک ایک در پر گئی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔بس پھر میں نے سوچا کہ میں خود کو اور اپنے بچوں کواس غربت سے ہمیشہ کے لئے آزاد کر دوں گی، پر ماں تھی ناں ہمت نہیں پڑی انہیں مارنے کی اور خود مر گئی۔اب میں یہاں ہوں میرے ساتھ اور بھی میری بہت سی بہنیں موجود ہیں،کوئی تیزاب جلی اور کسی نے خود کو جلا دیا۔ ہمارا ایک ہی دکھ تھا کہ ہمیں کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا، حق نہیں ملا۔ اب ہم سب یہاں بہت خوش ہیں۔ یہاں ہر سو ایک ہی آواز گونجتی رہتی ہے:
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔