خیالی پلاو نیا تھانیدار

ہاشم کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرنے والااشرف اب بدل چکا تھا۔ اشرف کے خطاب میں اکرم کی قربانی کا کہیں ذکر نہیں تھا۔


قیصر اعوان September 27, 2014
ہاشم کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرنے والااشرف اب بدل چکا تھا۔ اشرف کے خطاب میں اکرم کی قربانی کا کہیں ذکر نہیں تھا، اور ہوتا بھی کیسے، آخر وہ ہاشم خان کی سفارش پر ہی تو وہ اس علاقے میں تھانیدار بن کر آیا تھا۔ فوٹو: فائل

گاؤں کے سارے لوگ پُرانے بوہڑ کے درخت کے نیچے جمع تھے۔ یہ درخت چوہدریوں کی حویلی سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ گاؤں کا چوہدری ہاشم خان ہر جمعرات کو اسی درخت کے نیچے کھلی کچہری لگاتااور لوگوں کے مسائل سنتا ۔ مگر ہاشم خان نے یہ مسائل حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ تمام مسائل اُسی کے پیدا کردہ ہیں۔ گاؤں میں ہونے والی ایک چھوٹی سی چوری سے لیکر کسی کے قتل تک، ہر واردات کے پیچھے ہاشم خان یا اُس کے پالتوکارندوں کا ہی ہاتھ ہوتا تھا۔ یہ بات گاؤں کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے تھے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ زندگی کی قیمت اس گاؤں میں نہ ہونے کے برابر تھی ، ہاشم خان سے بغاوت کا مطلب صرف موت تھا۔ گاؤں سے کچھ فاصلے پر ایک تھانہ موجود تھا مگر گاؤں کا کوئی شخص اپنی فریاد لے کر وہاں نہیں جا سکتا تھا ۔ جس کسی نے بھی ایسا کرنے کی جرأت کی اُسے عبرت کا نشان بنا دیا گیاکیونکہ اس تھانے میں آنے والاہرتھانیدار ہاشم خان کے تلوے چاٹتا تھا اور جسے ہاشم خان سے اختلاف ہوتا وہ اپنا تبادلہ کسی دوسرے تھانے میں کروا لیتا تھا۔ آج بھی گاؤں کے لوگ نئے آنے والے تھانیدارکے استقبال کے لیے جمع تھے، یہ گاؤں کی روایت تھی یا ہاشم خان کا حکم، مگرانہیں ہر تھانیدار کا استقبال ایسے ہی کرنا پڑتا تھا۔

گاؤں کے لوگوں کو نئے آنے والے تھانیدار سے کوئی غرض نہیں تھی کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ علاقے کا تھانیدار کوئی بھی ہو لیکن گاؤں کا تھانیدار ہاشم خان ہی رہے گا۔ مگر وہاں ایک ایسا نوجوان بھی تھا جس کی رائے باقی گاؤں والوں سے تھوڑی مختلف تھی، اس نوجوان کا نام اشرف تھا اور وہ شہر کے کسی کالج میں پڑھتا تھا۔ اشرف ہاشم خان کے مُنشی دین محمد کا بیٹا تھا جو اُس کی زمینوں وغیرہ کا حساب کتاب دیکھتا تھا۔ ہاشم خان نے یہ سوچتے ہوئے اشرف کوبارہویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت دے دی تھی کہ کل اسی نے اپنے باپ کی جگہ ذمے داری سنبھالنی ہے ورنہ گاؤں کے دوسرے لوگ تواپنے بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اشرف نے اس نئے آنے والے تھانیدار کی نیک نامی کے قصّے شہر میں سُن رکھے تھے اِس لیے وہ پُر امید تھا کہ یہ تھانیدار دوسرے تھانیداروں کی طرح ہاشم خان کا بازو نہیں بنے گا۔

نیا تھانیدار اب گاؤں کے لوگوں سے مخاطب تھا ، ہاشم خان ساتھ بیٹھا تھا،

''مجھے چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ اس گاؤں میں چوری چکاری اور قتل و غارت بہت زیادہ ہے اور مجرموں کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، آپ لوگ فکر نہ کریں، میں چوہدری صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے سدّباب کے لیے مل کر کام کریں گے، مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ چوہدری صاحب آپ کے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے ہر جمعرات کو اسی جگہ تشریف فرماہوتے ہیں، آپ کو کوئی بھی شکایت ہو آپ چوہدری صاحب کے ذریعے مجھ تک پہنچا سکتے ہیں، میں آپ کی شکایات دور کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔'' اِس نئے تھانیدار نے بھی ہاشم خان کو اعتماد کا ووٹ دے دیا تھا۔

اپنے اِس مختصر سے خطاب کے بعد تھانیدار صاحب ہاشم خان سے اس گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے کہ جیسے برسوں سے جانتے ہوں، اور اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے اور گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں کو ، اُن کے لیے کچھ نہیں بدلا تھا ، وہ یہ سب برسوں سے سنتے آرہے تھے۔ مگر اشرف مایوس تھا، اُسے اس نئے تھانیدار سے اس رویے کی توقع نہیں تھی۔

'' اب بول اوئے ، میں نے تجھے کہا تھا ناں کہ تھانیدار کوئی بھی ہومگرحکم ہاشم خان کا ہی چلے گا۔ کہاں گئی اب تیری بڑی بڑی باتیں'' یہ اشرف کا اَن پڑھ دوست اکرم تھا جواشرف کا مذاق اُڑا رہا تھا۔ ہاشم خان کی لاڈلی گھوڑی کی دیکھ بھال پر معمور اکرم اَن پڑھ ہونے کہ باوجود وہ سب جانتا تھاجو شاید اشرف کی کتابوں میں نہیں لکھا تھا۔

''یار میں بھی تھانیدار بنوں گا''، اشرف نے اکرم سے کہا۔ اکرم نے پہلے تو حیران ہو کر اشرف کی طرف دیکھا اور پھر ایک اونچا قہقہ لگایا۔۔۔''تُو نہیں چھوڑے گا یہ بڑی بڑی باتیں کرنا''۔

''میں مذاق نہیں کر رہا، میں واقعی تھانیدار بن کر ہاشم خان سے اُن زیادتیوں کا بدلہ لینا چاہتا ہوں جو کئی سالوں سے وہ ہمارے ساتھ کرتا آرہا ہے۔'' اشرف سنجیدہ تھا۔

اکرم تھوڑا مسکرایا۔۔۔'' اگر تُو واقعی کچھ بننا چاہتا ہے تو ہاشم خان بن، تھانیدار بن کر بھی تو ہاشم خان کے پیچھے دُم ہی ہلائے گا''، اکرم کے لہجے میں طنز تھا۔ ''اور یہ جو تُو بڑی بڑی کتابیں پڑھ کر بڑی بڑی باتیں کرتا رہتا ہے ناں یہ باتیں کہیں کسی اور کے سامنے نہ کر دینا، خُدا کی قسم مارا جائے گا۔''

اشرف جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھالیکن اکرم نے بات کاٹ دی۔ '' یار میں تیری تقریر پھر کبھی سُن لوں گا ابھی مجھے ہاشم خان کی گھوڑی کوسیر کے لیے بھی لیکر جانا ہے''، اکرم یہ کہہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا چل پڑا۔

''تمہاری اسی سوچ نے تمہیں ہاشم خان کا غلام بنایا ہے''، اشرف پیچھے سے چلّایا۔

''کیونکہ میرا باپ ہاشم خان کا مُنشی نہیں تھا، ایک معمولی کوچوان تھا'' ، اکرم کے جواب نے اشرف کو لاجواب کر دیا تھا۔ بات تو سچ تھی، اگر اشرف ہاشم خان کے مُنشی کا بیٹا نہ ہوتا تو آج پڑھنے کے بجائے اکرم کی طرح ہاشم خان کی حویلی میں کام کر رہا ہوتا۔

وقت گزرتا جا رہا تھا، ہاشم خان کے مظالم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے تھے اور اشرف کا عزم مزید پختہ ہوتا جا رہا تھا۔ اشرف نے جب بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو مُنشی دین محمد کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔

''چل دین محمد اب کل سے اپنے بیٹے کو بھی اپنا کام سمجھانا شروع کردے، ویسے بھی اب تُو بوڑھا ہوگیا ہے''۔ ہاشم خان نے اشرف کی قسمت کا فیصلہ بوہڑکے درخت کے نیچے بیٹھ کر سنا دیا تھا۔

اشرف تو تھا ہی باغی، لہٰذااُس نے بغاوت کردی، اُس نے چوہدری ہاشم خان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ دین محمد اپنے بیٹے کے انجام سے واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ ہاشم خان کی حکم عدولی کا مطلب موت کے سوا کچھ نہیں۔ دین محمدنے بڑی کوشش کی کہ اشرف کسی بھی طرح مان جائے اور ہاشم خان سے معافی مانگ لے مگراشرف ماننے کو تیار نہ ہوا اور آخر کار اشرف کو ہاشم خان کی حویلی میں قید کر دیا گیا۔ اُس کے پاس دو راستے تھے یا تو وہ ہاشم خان سے معافی مانگ کر باقی گاؤں والوں کی طرح غلام بن جائے یا موت کا انتظار کرے، اشرف نے موت والا راستہ منتخب کیا تھا۔ مگر اشرف کے دوست اکرم کے پاس ایک تیسرا راستہ بھی تھا، ہاشم خان کی گھوڑی کی دیکھ بھال کی غرض سے اُس کا حویلی میں آنا جانا لگا رہتا تھا، لہٰذا موقع ملتے ہی اُس نے اشرف کو حویلی سے فرار کروا دیا۔ آخر اشرف کی بڑی بڑی باتیں اُسے بھی تو متاثر کرتی تھیں ، وہ اپنے اُس دوست کو ایک دردناک موت کے حوالے کیسے کر سکتا تھا جو اپنے گاؤں والوں کے لیے نجات دہندہ بننے کا خواب دیکھتا تھا۔ نہ جانے کیسے مگر ہاشم خان کو پتہ چل گیا کہ اشرف کو اکرم نے فرار کروایا ہے۔ ہاشم خان یہ گستاخی کیسے برداشت کر سکتا تھا لہٰذا اشرف کے حصّے کی موت اکرم کے مقدر میں لکھ دی گئی ۔ اکرم کا باپ تو بہت پہلے ہی مَر چکا تھا، جوان بیٹے کی موت کے چند دن بعد ماں بھی مَر گئی۔

دوسری طرف اشرف گاؤں سے بھاگ کر شہر آگیا تھا۔ اپنا مقصد پانے کے لیے اُسے انتھک محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ اپنی پڑھائی ، رہائش اور کھانے وغیرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اُسے چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنا پڑ رہی تھیں، اور ان نوکریوں کے حُصول کے لیے کبھی کسی کلاس فیلو کے باپ کی سفارش تو کبھی کسی کے بھائی کی۔ اصلی زندگی اُس کے خوابوں کی زندگی سے کتنی مختلف ہے وہ یہ جان چکا تھا مگر اُس نے ہار نہیں مانی، اپنے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے وہ ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا، اشرف کے خواب اب اُس کی ضد بن چکے تھے ۔ وقت کی ٹھوکریں کھاتا اشرف آگے بڑھتا رہا اور آخر کار پولیس میں ''سَب انسپکٹر '' بھرتی ہو گیا۔ اب وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا۔

آج پھر گاؤں والے نئے تھانیدار کے استقبال کے لیے پُرانے بوہڑ کے درخت کے نیچے جمع تھے ۔ آج اشرف تیرہ سال بعداپنے گاؤں واپس آگیاتھا، اُس کا بچپن کا خواب پورا ہو چکا تھا، وہی خواب جس کی آبیاری اکرم نے اپنے خون سے کی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا وہی غلام لوگ تھے اور وہی ہاشم خان، فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ مُنشی دین محمد جو ہمیشہ ہاشم خان کے پیچھے کھڑا رہتا تھا ، آج ہاشم خان کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ اب اشرف پرانے تھانیداروں کی طرح گاؤں کے لوگوں سے مخاطب تھا،

''مجھے چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ آج بھی اس گاؤں میں چوری چکاری اور قتل و غارت بہت زیادہ ہے اور مجرموں کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، آپ لوگ فکر نہ کریں، میں چوہدری صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے سدّباب کے لیے مل کر کام کریں گے، مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ چوہدری صاحب آپ کے مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے آج بھی ہر جمعرات کو اسی جگہ تشریف فرماہوتے ہیں، آپ کو کوئی بھی شکایت ہو آپ چوہدری صاحب کے ذریعے مجھ تک پہنچا سکتے ہیں، میں آپ کی شکایات دور کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔''

بڑی بڑی باتیں کرنے والااشرف اب بدل چکا تھا۔ اشرف کے خطاب میں اکرم کی موت کا کہیں ذکر نہیں تھا، اور ہوتا بھی کیسے، ہاشم خان کی سفارش پر ہی تو وہ اس علاقے میں تھانیدار بن کر آیا تھا۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔