خیالی پلاؤ – ہم یہ جنگ ہار چکے
تم بھی ایسے ہی ڈیوٹی دیا کرو، پھر دیکھو تماشا۔ خوف طاری کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
شہر میں تناوٴ تھا۔ ہاں، بہت زیادہ تناوٴ۔ دلوں پر جیسے خوف کے پہرے اور آنسووٴں پر پابندی تھی۔ سری نگر شہر کے سب سے بڑے پولیس آفیسر نے مسجد کے امام کی وساطت سے لاوٴڈ اسپیکر پر یہ اعلان کروایا تھا کہ علاقے کا ایک نوجوان، جو پولیس حراست میں جسمانی اذیت کے باعث مارا گیا ہے، اس کے ماتم میں کوئی احتجاج یا ہنگامہ نہ کیا جائے۔ واضح ہدایت دی گئی تھی کہ احتجاج کی صورت میں مارے گئے نوجوان کی لاش بھی پولیس تھانے میں ہی رکھی جائے گی اور اہل خانہ کو مذہبی رسوم کے مطابق اپنے لخت جگر کو دفنانے کی اجازت تک نہیں ہوگی۔
علاقے کے زعماء مقامی مسجد میں جمع ہوئے اور متاثرہ کنبہ کے اہم اراکین کے ساتھ گفت وشنید میں مصروف ہوگئے۔
آخر کریں تو کیا کریں؟
ایک طرف محلے کے لوگوں، بالحضوص نوجوانوں، میں غم و غصے کی لہر اور دوسری طرف پولیس کی تازہ ترین دھمکی۔ زعماء یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے کہ ہنگامے سے حالات مزیر ابتر ہو سکتے ہیں اور اس لئے کسی احتجاج یا شور شرابے کے بغیر ہی جنید کی نعش کو مقامی قبرستان میں دفنانا عقل مندی ہوگی۔
حکیم منظور صاحب، جنید کے ابا، اس مشورے کو قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ جنید کو بھی کشمیر کے باقی شہداء کی طرح ہی پروقار طریقے سے، آزادی کے حق میں نعروں کی گونج میں، اور ایک جلوس کی صورت میں علاقے کے سب سے بڑے مزار شہداء میں دفنایا جائے۔
علاقے کے زعماء سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ نیا پولیس آفیسر بہت ہی تنگ نظر، شدت پسند اور آزادی مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا انسان بھی ہے جس کے سینے میں دل تو ہے لیکن وہ شاید انسانی جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور انسانی ہمدردی کے لئے دھڑکنا نہیں جانتا۔
لیکن منظور صاحب اپنی ضد پر قائم رہے۔ علاقے کی معتبر شخصیت ہونے کے باعث ان سے زیادہ بحث کرنا مناسب بھی نہیں سمجھا گیا۔ ساتھ ہی جوان بیٹے کو کھونے کی وجہ سے ان کے احساسات اور جذبات کا لحاظ بھی رکھا گیا۔
دوسری جانب جنید کی ماں ایک زندہ لاش کی مانند گھر کے ایک کونے میں پڑی کسی سے کچھ نہیں بول پا رہی تھی۔ جیسے وہ ایک خاموش تماشائی ہو۔ اس کے سکوت میں سخن تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، لیکن کسی سے کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں۔ ٰفاطمہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا نور چشم جنید، جو کچھ روز قبل ہی بھارتی ریاست اتر پردیش میں قائم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مختصر چھٹیوں پر کشمیر آیا ہوا تھا، کیسے پولیس کو مطلوب ہو سکتا تھا اور اسے گرفتار کرنے کے بعد اذیت خانے میں کیوں کر موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا تھا؟
ادھر پولیس تھانے میں سخت گیر موقف کے حامل اعلیٰ پولیس آفیسر اور اس کے ماتحت دوسرے آفیسر کے درمیان اس بات پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا کہ کس طرح شہر کو محصور کیا جائے اور کرفیو کو سو فیصد کامیاب۔ پولیس مارے گئے جنید کے پورے معاملے کو بغیر کسی ہنگامے کے مکاری سے دبانے کی سازشوں میں مصروف عمل تھی۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس لئے صبح اخباروں میں اس خبر کا شائع ہونا بھی جمہوریت کے نام پر امن و قانون کی آڑ میں ناممکن بنایا گیا۔
پولیس کو متاثرہ خاندان اور محلے کے زعماء کے فیصلے کا انتظار تھا۔ لیکن حکیم منظور حاصب، جنید کے ابا، اپنی ضد پر اب بھی قائم۔
اسی دوران تھانے میں ایک غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر پولیس افسران دھنگ سے رہ گئے۔ فاطمہ، جنید کی امی جان، اکیلی پولیس تھانے میں داخل ہوئی اور آفیسر سے دھیمی آواز میں پوچھنے لگی، میرا جنید، جنید کی لاش کہاں ہے؟
اس سے پہلے کہ پولیس ایک مرتبہ پھر اپنے شرط نامے کو دہراتی فاطمہ نے خاموشی سے افسران کو یقین دلایا کہ کوئی شور شرابا نہیں ہوگا، کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوگا، کچھ بھی نہیں، اور یہاں تک کہ اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ جنید کی لاش کو محلے کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے گا۔
وعدے کے مطابق کوئی نعرے نہیں لگے، آزادی کے نعروں کی کوئی گونج سنائی نہیں دی، کوئی احتجاج نہیں، کچھ بھی نہیں اور جنید کی آخری رسومات خاموشی سے پوری ہوگئیں۔
ایک طرف علاقے میں صف ماتم اور سارا ماحول ساکت۔ کوئی ہنگامہ نہیں۔ خاموشی اور ماتم۔ کرفیو پر سختی سے عمل ہورہا تھا۔ پولیس کے لئے علاقے کی یہ خاموشی اور جنید کی موت کسی جشن سے کم نہیں تھی۔ پورے شہر کو محصور کرکے انہیں اپنی بہادری پر عجیب سا ناز تھا۔
پولیس کا اعلیٰ آفیسر ڈی کے تریپاٹھی خوشیاں منارہا تھا اور اپنے ظلم و ستم کی داستان پر اسے قدرے فخر بھی تھا۔ ایک مخصوص انداز میں اپنے لئے جام تیار کررہا تھا اور تندوری مرغ کے مزے لوٹتے ہوئے اپنے جونیئر آفیسر اجے رائے کو یہ جتانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ کیسے اس نے برسوں سے سارے علاقے پر اپنا قہر جما رکھا ہے۔ 'تم بھی ایسے ہی ڈیوٹی دیا کرو، پھر دیکھو تماشا۔ خوف طاری کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔' اسے بڑی خوشی تھی۔ لوگوں کی بے بسی اس کے لئے جشن کا سماں تھا۔
پولیس تھانے کو مصنوعی روشنیوں سے سجایا گیا، موسیقی کا ہلکا پھلکا انتظام بھی کیا گیا۔ اب صرف اس بات کی دیر تھی کہ کب تریپاٹھی سر اپنے ماتحت اہلکاروں کو رقص کرنے کا اشارہ کرتا۔ شراب کے نشے میں وہ خوب ناچا کرتا تھا۔ قہقہوں کی گونج اور جنید کے حراستی قتل کی خوشی میں ایسا تاثر دیا جارہا رہا تھا کہ جیسے کوئی بڑی جنگ جیتی گئی ہو۔
اجے رائے کو حکم ہوا کہ ڈسکو ڈانس کی تیاری کی جائے۔ شہر میں کرفیو پر برابر عمل ہو رہا تھا۔ بس تھانے میں موسیقی، رقص، قہقہے اور خوشی کے ماحول سے کرفیو کی تھوڑی بہت خلاف ورزی ہو رہی تھی۔
تریپاٹھی سر، اجے نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا، 'مجھے لگتا ہے کہ میں رقص نہیں کر پاوٴں گا۔'
مسٹر اجے، تریپھاٹی سر نے ذرا غصے کے انداز سے کہا، 'کیا تم اپنے ہوش میں ہو؟'
اجے تو ہوش میں تھا۔ لیکن تریپاٹھی سر شراب کے نشے میں چور۔
بہرحال، کچھ ہمت باندھنے کے بعد اجے نے کہا، 'تریپاٹھی سر، جب لوگ احتجاج کرتے، نعرے بلند کرتے، اور یہاں تک کہ ہم پر پتھراوٴ بھی کرتے، گالیاں دیتے، کہیں نہ کہیں انہیں ہم سے اور اس نظام سے انصاف کی امید ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب یہ لوگ شاید مان چکے ہیں کہ پولیس کا کام صرف انہیں مارنے کا ہے، انہیں احتجاج نہیں کرنا اور انصاف کی امید بھی نہیں رکھنی۔'
مسٹر اجے، تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
بس اتنا ہی، تریپاٹھی سر، 'مجھے لگتا ہے ہم یہ جنگ ہار چکے ہیں۔'
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
علاقے کے زعماء مقامی مسجد میں جمع ہوئے اور متاثرہ کنبہ کے اہم اراکین کے ساتھ گفت وشنید میں مصروف ہوگئے۔
آخر کریں تو کیا کریں؟
ایک طرف محلے کے لوگوں، بالحضوص نوجوانوں، میں غم و غصے کی لہر اور دوسری طرف پولیس کی تازہ ترین دھمکی۔ زعماء یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے کہ ہنگامے سے حالات مزیر ابتر ہو سکتے ہیں اور اس لئے کسی احتجاج یا شور شرابے کے بغیر ہی جنید کی نعش کو مقامی قبرستان میں دفنانا عقل مندی ہوگی۔
حکیم منظور صاحب، جنید کے ابا، اس مشورے کو قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ جنید کو بھی کشمیر کے باقی شہداء کی طرح ہی پروقار طریقے سے، آزادی کے حق میں نعروں کی گونج میں، اور ایک جلوس کی صورت میں علاقے کے سب سے بڑے مزار شہداء میں دفنایا جائے۔
علاقے کے زعماء سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ نیا پولیس آفیسر بہت ہی تنگ نظر، شدت پسند اور آزادی مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا انسان بھی ہے جس کے سینے میں دل تو ہے لیکن وہ شاید انسانی جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور انسانی ہمدردی کے لئے دھڑکنا نہیں جانتا۔
لیکن منظور صاحب اپنی ضد پر قائم رہے۔ علاقے کی معتبر شخصیت ہونے کے باعث ان سے زیادہ بحث کرنا مناسب بھی نہیں سمجھا گیا۔ ساتھ ہی جوان بیٹے کو کھونے کی وجہ سے ان کے احساسات اور جذبات کا لحاظ بھی رکھا گیا۔
دوسری جانب جنید کی ماں ایک زندہ لاش کی مانند گھر کے ایک کونے میں پڑی کسی سے کچھ نہیں بول پا رہی تھی۔ جیسے وہ ایک خاموش تماشائی ہو۔ اس کے سکوت میں سخن تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، لیکن کسی سے کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں۔ ٰفاطمہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا نور چشم جنید، جو کچھ روز قبل ہی بھارتی ریاست اتر پردیش میں قائم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مختصر چھٹیوں پر کشمیر آیا ہوا تھا، کیسے پولیس کو مطلوب ہو سکتا تھا اور اسے گرفتار کرنے کے بعد اذیت خانے میں کیوں کر موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا تھا؟
ادھر پولیس تھانے میں سخت گیر موقف کے حامل اعلیٰ پولیس آفیسر اور اس کے ماتحت دوسرے آفیسر کے درمیان اس بات پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا کہ کس طرح شہر کو محصور کیا جائے اور کرفیو کو سو فیصد کامیاب۔ پولیس مارے گئے جنید کے پورے معاملے کو بغیر کسی ہنگامے کے مکاری سے دبانے کی سازشوں میں مصروف عمل تھی۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس لئے صبح اخباروں میں اس خبر کا شائع ہونا بھی جمہوریت کے نام پر امن و قانون کی آڑ میں ناممکن بنایا گیا۔
پولیس کو متاثرہ خاندان اور محلے کے زعماء کے فیصلے کا انتظار تھا۔ لیکن حکیم منظور حاصب، جنید کے ابا، اپنی ضد پر اب بھی قائم۔
اسی دوران تھانے میں ایک غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر پولیس افسران دھنگ سے رہ گئے۔ فاطمہ، جنید کی امی جان، اکیلی پولیس تھانے میں داخل ہوئی اور آفیسر سے دھیمی آواز میں پوچھنے لگی، میرا جنید، جنید کی لاش کہاں ہے؟
اس سے پہلے کہ پولیس ایک مرتبہ پھر اپنے شرط نامے کو دہراتی فاطمہ نے خاموشی سے افسران کو یقین دلایا کہ کوئی شور شرابا نہیں ہوگا، کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوگا، کچھ بھی نہیں، اور یہاں تک کہ اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ جنید کی لاش کو محلے کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے گا۔
وعدے کے مطابق کوئی نعرے نہیں لگے، آزادی کے نعروں کی کوئی گونج سنائی نہیں دی، کوئی احتجاج نہیں، کچھ بھی نہیں اور جنید کی آخری رسومات خاموشی سے پوری ہوگئیں۔
ایک طرف علاقے میں صف ماتم اور سارا ماحول ساکت۔ کوئی ہنگامہ نہیں۔ خاموشی اور ماتم۔ کرفیو پر سختی سے عمل ہورہا تھا۔ پولیس کے لئے علاقے کی یہ خاموشی اور جنید کی موت کسی جشن سے کم نہیں تھی۔ پورے شہر کو محصور کرکے انہیں اپنی بہادری پر عجیب سا ناز تھا۔
پولیس کا اعلیٰ آفیسر ڈی کے تریپاٹھی خوشیاں منارہا تھا اور اپنے ظلم و ستم کی داستان پر اسے قدرے فخر بھی تھا۔ ایک مخصوص انداز میں اپنے لئے جام تیار کررہا تھا اور تندوری مرغ کے مزے لوٹتے ہوئے اپنے جونیئر آفیسر اجے رائے کو یہ جتانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ کیسے اس نے برسوں سے سارے علاقے پر اپنا قہر جما رکھا ہے۔ 'تم بھی ایسے ہی ڈیوٹی دیا کرو، پھر دیکھو تماشا۔ خوف طاری کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔' اسے بڑی خوشی تھی۔ لوگوں کی بے بسی اس کے لئے جشن کا سماں تھا۔
پولیس تھانے کو مصنوعی روشنیوں سے سجایا گیا، موسیقی کا ہلکا پھلکا انتظام بھی کیا گیا۔ اب صرف اس بات کی دیر تھی کہ کب تریپاٹھی سر اپنے ماتحت اہلکاروں کو رقص کرنے کا اشارہ کرتا۔ شراب کے نشے میں وہ خوب ناچا کرتا تھا۔ قہقہوں کی گونج اور جنید کے حراستی قتل کی خوشی میں ایسا تاثر دیا جارہا رہا تھا کہ جیسے کوئی بڑی جنگ جیتی گئی ہو۔
اجے رائے کو حکم ہوا کہ ڈسکو ڈانس کی تیاری کی جائے۔ شہر میں کرفیو پر برابر عمل ہو رہا تھا۔ بس تھانے میں موسیقی، رقص، قہقہے اور خوشی کے ماحول سے کرفیو کی تھوڑی بہت خلاف ورزی ہو رہی تھی۔
تریپاٹھی سر، اجے نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا، 'مجھے لگتا ہے کہ میں رقص نہیں کر پاوٴں گا۔'
مسٹر اجے، تریپھاٹی سر نے ذرا غصے کے انداز سے کہا، 'کیا تم اپنے ہوش میں ہو؟'
اجے تو ہوش میں تھا۔ لیکن تریپاٹھی سر شراب کے نشے میں چور۔
بہرحال، کچھ ہمت باندھنے کے بعد اجے نے کہا، 'تریپاٹھی سر، جب لوگ احتجاج کرتے، نعرے بلند کرتے، اور یہاں تک کہ ہم پر پتھراوٴ بھی کرتے، گالیاں دیتے، کہیں نہ کہیں انہیں ہم سے اور اس نظام سے انصاف کی امید ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب یہ لوگ شاید مان چکے ہیں کہ پولیس کا کام صرف انہیں مارنے کا ہے، انہیں احتجاج نہیں کرنا اور انصاف کی امید بھی نہیں رکھنی۔'
مسٹر اجے، تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
بس اتنا ہی، تریپاٹھی سر، 'مجھے لگتا ہے ہم یہ جنگ ہار چکے ہیں۔'
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔