وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

یوں دیکھا جائے تو کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی کشمیر کا مسئلہ زندگی موت کے مسئلے کی طرح اہم ہے۔

یوں دیکھا جائے تو کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی کشمیر کا مسئلہ زندگی موت کے مسئلے کی طرح اہم ہے۔ فوٹو؛ اے ایف پی/فائل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھارت کے ساتھ سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات منسوخ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھ دہائیوں بعد بھی کشمیری آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ہونے کے منتظر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کرنا عالمی برادری کی ذمے داری ہے۔ چھ دہائیاں پہلے اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے قرارداد منظور کی تھی کشمیری آج بھی اس وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

کشمیر کا تنازع خود بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا جہاں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی کہ وادی کشمیر میں عوام کی رائے معلوم کی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بھارت نے وہاں فوج بھیج کر قبضہ کر لیا۔ جب کہ مجاہدین نے کشمیر کے ایک حصے کو آزاد کرا لیا ہے جو آزاد کشمیر کے کہلاتا ہے۔ بھارت نے اپنے مقبوضہ علاقے میں جعلی قسم کا نام نہاد الیکشن کروا کے اعلان کر دیا کہ کشمیریوں نے بھارت کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت ایک خصوصی درجہ دیتے ہوئے بھارت میں شامل کر لیا۔ لیکن اس جعل سازی کو کشمیری حریت پسندوں نے مسترد کر دیا اور وہاں آزادی کی تحریک شروع ہو گئی۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک آج تک جاری ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بھاری تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے لیکن بھارت نے آج تک اقوام متحدہ کی نگرانی میں پورے کشمیر میں استصواب رائے کرانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے تقریباً تمام دریا اسی مقبوضہ وادی سے نکل کر آتے ہیں جن کی راہ میں بھارت کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں حائل کی جاتی ہیں اور پاکستان کی زراعت اور معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کئی متنازعہ آبی منصوبے بنا رہا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی کشمیر کا مسئلہ زندگی موت کے مسئلے کی طرح اہم ہے۔ اسی وجہ سے اس کی بھارت کے ساتھ جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اسی بنا پر شملہ سمجھوتے میں بھارت نے یہ شرط رکھوائی کہ پاکستان اس مسئلے کو کسی بین الاقوامی فورم پر نہ اٹھائے بلکہ اسے صرف دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی طے کیا جائے۔ یہ ایک ایسی شرط تھی جو گزشتہ پنتالیس سال سے قطعاً بے نتیجہ رہی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے دونوں دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ ان میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب بھی بھارت نے سیکریٹری سطح پر مذاکرات کا عمل معطل کر رکھا ہے۔

بعض حلقوں کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر بھارتی لابی کی طرف سے یہ دباو ڈالا گیا کہ وہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کریں مگر وزیر اعظم اس قدر اہم مسئلے سے اغماض نہ برت سکے اور جنرل اسمبلی سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ کشمیریوں کی کئی نسلیں کشمیر پر قبضہ میں ہی رہ کر زندگیاں گزار رہی ہیں۔ انھوں نے کہا اس تنازعے کے حل کے لیے ہم نے اقوام متحدہ کے ساتھ اعلان لاہور کے تحت دوطرفہ مذاکرات سے بھی کوششیں کیں لیکن کسی حل پر نہیں پہنچ سکے، اب یہ عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے تیار ہے۔


ہماری وکالت اور حمایت آج بھی کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کی حمایت کی تاہم انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل میں مزید مستقل نشستیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سلامتی کونسل نمائندہ، مساویانہ، قابل اعتماد اور شفاف ہو۔ واضح رہے کہ خاصے عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ امریکا اور اس کی حامی طاقتیں اس آڑ میں بھارت کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق دلانا چاہتی ہیں۔ اصولی طور پر بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ طرز عمل کو دیکھتے ہوئے اس کو اس قدر اہم حیثیت ہر گز نہیں ملنی چاہیے ورنہ تو وہ اپنے قرب وجوار کے ممالک کا ناطقہ بند کر دے گا۔

اس وقت بھارت کے اپنے کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات سے الگ ہو کر بھی دیکھیں تو بنگلہ دیش' سری لنکا اور نیپال بھی بھارت سے خوش نہیں ہیں۔ اس خطے میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے بھی بھارت کا کردار پراسرار ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ ہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہم نے بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ افغانستان کے حوالے سے نواز شریف نے کہا ہم برابری کی سطح پر افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حامی ہیں۔

دہشت گردی کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو بھارت نے اپنے ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر عائد کیا لیکن عملاً بھارت کے افغانستان کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے بھارت نے اس پر کبھی آواز بلند نہیں کی۔ وزیر اعظم نے پاکستان میں توانائی بحران کے حل کے لیے سول نیوکلیئر تعاون کا تقاضا کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب پاکستان اپنی توانائی کی اشد ضروریات پوری کرنے کی خاطر اپنے برادر پڑوسی ملک ایران سے گیس خریدنے کی بات کرتا ہے تو اسے عالمی پابندیوں کی دھمکی دی جاتی ہے لیکن اگر پاکستان امریکا سے سول نیوکلیئر تعاون کی بات کرے تو اسے سنی ان سنی کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی وہ اس خطے کی صورت حال کی صحیح عکاسی بھی کرتی ہے اور امریکا کے طرزعمل کو بھی سامنے لاتی ہے۔

بلاشبہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کا کوئی حل سامنے نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس دیرینہ تنازع کو حل کیسے کیا جائے۔ اس کا جواب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی تقریر میں دے دیا ہے کہ عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔ اصولی طور پر تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں کی حامل طاقتوں کو جاندار اور متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر امریکا' برطانیہ' فرانس' روس اور چین متفقہ فیصلہ کر کے بھارت پر دباؤ ڈالیں تو یہ تنازع انتہائی مختصر وقت میں حل ہو سکتا ہے۔

اگر یہ تنازع حل ہو جاتا ہے تو پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل ارکان میں اضافے پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہو گا اور امریکا پاکستان کے ساتھ سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی بآسانی کر سکے گا کیونکہ اس پر بھارت کو اعتراض نہیں ہو گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی بات سنے اور جنوبی ایشیا کے اس قدیم تنازع کو مزید طوالت اختیار نہ کرنے دے۔ دنیا کو معلوم ہے کہ جب تک یہ تنازع موجود ہے جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story