امریکا نے مستقبل کی جنگی حکمت عملی کیلئے ویڈیو گیمز کے خالق کی خدمات حاصل کرلیں

اب جب کہ امریکا داعش کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ امریکا میں ہی داعش کے کئی وفادار موجود ہوں،خالق ویڈیو گیم


گیم میں 2025 میں چین اور امریکا میں جنگ کو روایتی ہتھیاروں سے ہٹ کر جدید ترین انداز میں لڑتے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو فائل

ویڈیو گیمز اب صرف گیمز نہیں رہیں بلکہ اس نے حقیقی زندگی کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے اور بالخصوص جنگ پر بننے والی گیمز جہاں بچوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا عنصر رکھتے ہیں وہیں جنگوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی توجہ کا بھی مرکز بن گئے ہیں اسی لیے مستقبل میں جنگی حکمت عملی بنانے والے امریکی ٹینک نے ویڈیو گیم تخلیق کرنے والے ماسٹر مائنڈ کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل نے ویڈیو گیم ''کال آف ڈیوٹی'' کے خالق ڈیو انتھونی کو مستقبل میں امریکا کی جنگی حکمت عملی بنانے میں مدد دینے کے لئے منتخب کیا ہے اوران کے اس وڈیوگیم نے امریکا میں دھوم مچا رکھی ہے اور لاکھوں ڈالر کما چکی ہے، اسی ویڈیو گیم کو دیکھ کر اٹلانٹک کونسل کے کے اہم رکن اسٹیون گرانڈمین کو یہ خیال آیا اور اس خیال کو مزید تقویت اس وقت ملی جب اس نے اپنے بیٹے کو کال آف ڈیوٹی''بلیک آپس 2'' کھیلتے دیکھا وہ اس گیم کی سوچ اور تھیم سے بہت متاثر ہوئے، اس گیم میں 2025 میں چین اور امریکا میں جنگ کو روایتی ہتھیاروں سے ہٹ کر جدید ترین انداز میں لڑتے دکھایا گیا ہے، یہ تھنک ٹینک کچھ روز میں مستقبل کی جنگی حکمت عملی کے حوالے سے''دی آرٹ آف فیوچر وار پراجیکٹ'' کا آغاز کرنے والا ہے۔

ویڈیو گیم کے خالق انتھونی کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ بلیک آپس2 مستقبل کی جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے، اس گیم کی تیاری میں نمایاں لوگوں نے حصہ لیا۔ جس میں بیٹ مین کے لیے کام کرنے والے اسکرین رائٹر ڈیوڈ گوئر، ڈرون جنگوں کا تخلیق کار پیٹر سنگر اور امریکی میرین افسر اولیور نارتھ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی کتابوں اور فلموں کے ذریعے امریکا کو مستقبل کے انوکھے خطروں سے آگاہ کیا جا رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اس کے لیے تیاری نہیں کر رہا، اٹلانٹک کونسل نے انتھونی کے انتخاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہےکہ نیشنل سیکورٹی کے فیصلے کرنے والے دنیا میں بدلتے نئے جنگی انداز کے مطابق خود کو تیار نہیں کر پاتے اس لیے نئی آوازوں کی ضرورت ہے جو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی اور تخلیقی سوچ رکھتے ہوں، رائٹرز، پروڈیوسرز اور آرٹسٹ اس تخلیقی دنیا میں ایسے تجربات سے گزرتے ہیں جو اس کے مطابق حکمت عملی تشکیل دے سکتے ہیں۔

انتھونی کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ دہشت گرد نائن الیون طرز کا حملہ دوبارہ کریں بلکہ وہ روایتی انداز سے ہٹ کر نئی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں، اب جب کہ امریکا داعش کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ امریکا میں ہی 100 داعش کے وفادار موجود ہوں اور ممکن ہے کہ وہ سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنائیں اور ایک اور 9/11 سامنے آجائے۔ لیکن افسوس ہے کہ امریکی رہنما اپنے سر ریت میں دبائیں بیٹھیں ہیں کہ کہ اب دوبارہ ایسا واقعہ امریکی سرزمین پر نہیں ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔