اختر مرزا کا ارژنگ
ان کا آبائی تعلق سیالکوٹ کے اس محلے سے ہے جو علامہ اقبالؔ کے آبائی مکان کے نواح میں واقع ہے
HYDERABAD:
پہلا کیمرہ برصغیر میں کب پہنچا اس کا تو کوئی قابل اعتبار ریکارڈ موجود نہیں لیکن یہ طے ہے کہ یہ واقعہ 1857ء کی جنگ آزادی کے دنوں کا ہے کہ مرزا غالب کی دو تین عکسی تصاویر سمیت تمام قدیم تصاویر کا زمانہ اسی کے لگ بھگ ہے۔ اب اس ٹیکنالوجی میں کئی انقلابات آئے ہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور موبائل فونز میں نصب کیمروں نے تو حد کر دی ہے۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی سے لے کر 1947ء کے لیے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں میں جن افراد نے کارہائے نمایاں ادا کیے ان میں سے بیشتر کی کیمرے سے لی ہوئی تصاویر موجود ہیں لیکن اس سے قبل کے ہزاروں برسوں میں جو مشاہیر گزرے ہیں ان کی بیشتر تصویریں مصوروں کے تصورات کی تخلیق کردہ ہیں یہی حال مجسمہ سازوں کا بھی ہے۔ دنیا بھر میں گوتم بدھ کے مجسموں میں سے بیشتر گوتم تو کیا ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔
جہاں تک ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا تعلق ہے تو ان کی جو تصویریں ان کے زمانے یا اس کے کچھ عرصہ بعد کے دنوں میں مصوروں نے بنائیں ان میں تو ان کے اصل خدوخال کی معقول حد تک موجودگی ممکن ہو سکتی ہے البتہ مرزا غالبؔ کی عکسی تصاویر کے بعد سے صورت حال بدل گئی ہے اور اب بیشتر مشاہیر کی بہت سی تصاویر محفوظ اور موجود ہیں۔ مجھے کئی اور احباب کے علاوہ لطف اللہ خان، خاطر غزنوی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ذوقی فوٹو گرافر کی Collections کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
اسی فہرست میں ایک اور بہت اہم اضافہ اختر مرزا صاحب نے کیا ہے جس کی اضافی خوبی یہ ہے کہ نہ صرف اس ارژنگ کو کتابی صورت میں محفوظ کر دیا گیا ہے بلکہ ان شخصیات سے متعلق، معلومات، یادیں، یادداشتیں، ملاقاتوں کے احوال اور متفرق نوعیت کے تاثرات بھی شامل اشاعت کر دیے گئے ہیں کتاب کا نام انھوں نے ''میراث ادب اردو ریاست'' رکھا ہے۔
اختر مرزا نے یہ کام کیوں اور کیسے شروع کیا اور اس شوق کی تکمیل میں کن کن مراحل اور تجربات سے گزرے اس کا کچھ احوال تو اس کتاب کے ابتدائیے میں درج ہے لیکن زیادہ تفصیل مختلف شخصیات سے ملاقاتوں کے بیان اور ان کی تصویریں بنانے کے منظر اور پس منظر میں آتی چلی گئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف کی کیمرے سے محبت کا آغاز بہت چھوٹی عمر میں ہی ہو گیا تھا اور گزشتہ تقریباً چالیس برسوں میں انھوں نے مظاہر فطرت کے بعد سب سے زیادہ توجہ ادبی برادری سے متعلق افراد کی تصویر کشی پر مرکوز رکھی ہے۔
ان کا آبائی تعلق سیالکوٹ کے اس محلے سے ہے جو علامہ اقبالؔ کے آبائی مکان کے نواح میں واقع ہے اور اس نسبت سے اس گھر اور خاندان کے افراد سے ان کا رابطہ نسبتاً گہرا بھی ہے اور وسیع اور مسلسل بھی یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے تقریباً 133 ابتدائی صفحات کا تعلق علامہ صاحب کے افراد خاندان، احباب اور ان سے متعلق چند مشاہیر اور ان کی تصویروں اور تحریروں سے وابستہ ہے۔
اس حصے میں ڈاکٹر جاوید اقبال، حفیظؔ جالندھری، ڈاکٹر اسرار احمد، فتح محمد ملک اور ڈاکٹر محمد اکرم اکرام کے پورٹریٹ خاصے کی چیزیں ہیں۔ ان کے بعد جن اہم شخصیات کے پورٹریٹ، تصاویر اور اختر مرزا کی ان کے بارے میں مختلف النوع تحریریں شامل کی گئی ہیں ان کی تعداد 65 ہے چونکہ ان میں سے کسی نام کو حذف یا کچھ ناموں کو شارٹ لسٹ کرنا بوجوہ مناسب نہیں۔ اس لیے میں ترتیب وار ان کے اسمائے گرامی درج کر دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ مصنف/ فوٹو گرافر نے کس محنت اور تگ و دو سے اس ارژنگ کو ہمہ رنگ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست علامہ اقبالؔ والے حصے کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔
سردار شوکت حیات خان، سردار محمد اقبال، چوہدری اعتزاز احسن، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمن، اشفاق احمد، اے حمید، انتظار حسین، احمد فراز، افتخار عارف، جمیل الدین عالی، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، پرتو روہیلہ، ڈاکٹر وزیر آغا، بانو قدسیہ، زہرہ نگاہ، طارق علی خان، شہزاد احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر جمیل جالبی، نواب افتخار احمد خان عدنی، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر انور سجاد، راحت نوید مسعود، خالد حسن، ثریا خورشید، پروفیسر رالف رسل، مستنصر حسین تارڑ، مظفر وارثی، رحمت اللہ رعد، خالد احمد، بشریٰ رحمن، کشور ناہید، سلیمہ ہاشمی، منیزہ ہاشمی، تہمینہ درانی، عائشہ جلال، کنور مہندر سنگھ بیدی، ارد شیر کاؤس جی، احمد راہی، گل جی، جالی آرٹسٹ، سعید اختر، ڈاکٹر انور سدید، سبط الحسن ضیغم، محمد منشا یاد، محمد طفیل، شوکت صدیقی، آزر زوبی، مرزا اسد اللہ خان غالب، لطف اللہ خان، عبداللہ ملک، رضا میر، سعادت حسن منٹو اور اہل خانہ، شوکت حسین رضوی، ضیا محی الدین، ڈاکٹر سلیم اختر، محمد اجمل نیازی سید مسعود الحسن فیضی، چاچا ایف ای چوہدری، جاوید اختر، دلیپ کمار۔
اس طرح کے اجتماع کے لیے شاید انگریزی لفظ GALAXY موزوں ترین ہے۔اختر مرزا کی بطور فوٹو گرافر فنی دسترس پر تو اس فن کے ماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں کہ مجھ سمیت بقیہ لوگ تو صرف اس جمالیاتی تاثر کا ہی اظہار کر سکتے ہیں جو ان تصاویر کو دیکھ کر مرتب ہوتا ہے جو بلا شبہ بہت خوشگوار اور تعریفی نوعیت کا ہے البتہ ان تصاویر کے ساتھ جو تحریریں شامل کی گئی ہیں ان پر یقینا بات ہو سکتی ہے جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ یہ تحریریں نہ تو مقالے ہیں نہ شخصی مضامین، نہ انٹرویو نہ یادداشتیں اور نہ سنی سنائی باتیں بلکہ ان سب کا ملغوبہ ہیں کہ ایک ہی تحریر میں آپ کو بعض اوقات مندرجہ بالا سارے رنگ مل جاتے ہیں جب کہ بیشتر تحریروں میں ان سے حسب ضرورت استفادہ کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر اسلوب کے لحاظ سے یہ ایک دلچسپ کتاب ہے کہ اکثر مقامات پر اس میں ناظر اور منظر ایک ہوجاتے ہیں۔ طبیعت کے اعتبار سے اختر مرزا دوست دار اور کھلے ڈلے انسان ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان میں ایک مخصوص کھرا پن بھی ہے۔ چنانچہ ان کی عقیدت عام طور پر کہیں بھی مبالغے میں تبدیل نہیں ہوتی۔ کتاب کے موضوع کی مطابقت سے اس کا انداز تنقیدی نہیں لیکن ہم اس کو سراسر توصیفی بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کسی شخصیت کی خوبیوں کو اُجاگر تو کیا گیا ہے مگر اس پر زبردستی چاندی کے ورق نہیں لگائے گئے اور دوسروں کی آرا کو بہت ایمانداری سے درج کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ کئی مقامات پر ''خوف فساد خلق'' کا اندیشہ بھی تھا اپنے ایک ممدوح سردار شوکت حیات اور ان کی بیگم مسرت سے پنڈت نہرو کی ایک گفتگو کا احوال اس کی ایک بہترین مثال ہے، لکھتے ہیں:
''ایک بار میں اور میری بیگم نئی دہلی میں پنڈت نہرو کے گھر ڈنر پر مدعو تھے، نہرو نے مجھ سے پوچھا ''شوکت، پاکستان میں لوگ میرے متعلق کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں؟'' میں نے کہا ''پنڈت جی، پرائم منسٹر، کیا آپ اپنے دوستوں کا ردعمل جاننا چاہتے ہیں یا عام لوگوں کا!'' اس نے کہا بلا شبہ میں صرف دوستوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ میں نے کہا آپ کے دوستوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کو ایک عظیم وزیر اعظم مل گیا ہے جب کہ ایشیا ایک عظیم تر لیڈر سے محروم ہو گیا ہے جو ایشیا کو اکٹھا کر سکتا تھا۔
''کیوں'' اس نے کہا، میں نے جواب دیا'' پنڈت جی آپ ہندو متحدہ خاندانی سسٹم پر یقین رکھتے ہیں فرض کریں آپ کے والد مر جاتے ہیں اور آپ کا چھوٹا بھائی اصرار کرتا ہے کہ اسے حصے میں ایک فالتو غسل خانہ چاہیے جو اس کے کمرے سے ملحق ہے، تو کیا اس مطالبے کی بنا پر آپ خاندانی سسٹم کو توڑ کر الگ ہو جائیں گے'' انھوں نے کہا، تمہارا اشارہ کشمیر کی جانب ہے جب کہ کشمیر میرا جذباتی مسئلہ ہے'' اس بات پر مسرت نے مڑ کر کہا ''محض اس لیے پنڈت جی کہ آپ خود کشمیر کی تیسری نسل ہیں'' اس نے جواب دیا، ''ہاں'' میری بیوی نے پھر کہا ''تو میں بھی تیسری نسل کی کشمیری ہوں میں بھی اتنا ہی کشمیر سے محبت کرتی ہوں جتنا آپ کرتے ہو۔'' پھر نہرو نے ایک بودی دلیل کا سہارا لیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا ''اگر میں کشمیر چھوڑ دیتا ہوں تو آبادی میرے خلاف ہو جائے گی اور میں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی حفاظت نہیں کر سکوں گا، لہٰذا اس فیصلے کو بدل دینا خطرناک ہے''
نواب افتخار احمد خان عدنی (جو شیفتہ کے پڑ پوتے تھے) کا ذکر اس کتاب میں کئی جگہ آیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند برس قبل جب اختر مرزا مجھ سے ملنے کے لیے میرے اردو سائنس بورڈ والے دفتر میں آئے تھے تو اس روز بھی عدنی صاحب ان کے ہمراہ تھے۔ عدنی صاحب کے ایک صاحبزادے جوانی میں فوت ہو گئے۔ اس حوالے سے اختر مرزا کی تحریر کا ایک اقتباس دیکھئے۔
''نواب صاحب مسلسل فکر مند دکھائی دیے لہٰذا میں بھی خاموش بیٹھا رہا چند لمحے گزرتے تو ایک لمبی آہ بھرتے اور پھر آسمان پر بے آب بادلوں کی طرف دیکھ کر چپ ہو رہتے تھوڑی دیر بعد اجازت چاہی تو کہنے لگے ''آپ بیٹھے رہیے اتنی جلدی بھی کیا ہے''۔۔۔ میرے لاہور واپس آ جانے کے دو ہفتے بعد خبر ملی کہ خالد فوت ہو گئے ہیں۔ میں نے دوسرے روز نواب صاحب کو فون کیا میرے چند ہمدردانہ کلمات کے بعد فرمانے لگے۔
''بھائی میں نے اپنے لیے جو قبر کھدوا رکھی تھی اس میں خالد کو دفنا آیا ہوں''
یہ ارژنگ نما کتاب'' میراث ادب، اردو ریاست'' اپنی نوعیت اور معیار کے اعتبار سے پڑھنے کے بعد لائبریری میں رکھنے کے قابل ہے کہ اس نوع کی تخلیقات ادب اور تاریخ کا ایک ایسا نادر مجموعہ ہوتی ہیں جن کی تعداد کم از کم ہمارے ادب کی حد تک بہت کم ہے۔