مہاجر و پختونوں کو سندھ میں مسائل
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم سب کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہم سب ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں باہمی میل ملاپ اور۔۔۔
KARACHI:
پاکستان میں امن سبوتاژ کرنے کی جن سازشوں کا سلسلہ کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں جاری ہے اس تناظر میں جب ہم کراچی سمیت پورے پاکستان میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں مختلف قومیتوں کے درمیان ملک دشمن عناصر کی بھیانک سازش کی ایک ایک کڑی کھلتی نظر آتی ہے۔ ان کڑیوں کو ملک دشمن عناصر کی سہ جہتی حکمت عملی کہا جاتا ہے۔
(1) آئسولیشن (ISOLATION) یعنی کسی مخصوص قوم کو دیگر تمام قومیتوں اور طبقات سے کاٹ کر علیحدہ کردیا جائے۔(2) کرمنلائزیشن (CRIMNALIZATION) یعنی قانون پسند شہری کے بجائے کسی مخصوص قوم کے فرد کو عادی مجرم اور ان کی نمائندہ جماعت کو حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک سیاسی جماعت کے بجائے مجرموں اور دہشت گردوں کا گروہ بنا کر پیش کیا جائے اور ان کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ (3) ڈی مورالائزیشن (DEMORALIZATION) یعنی کسی مخصوص عوام و کارکنان کو کسی مخصوص جماعت سے بددل اور بدظن کیا جائے اور ان میں مایوسی پیدا کی جائے۔
پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ آزادی کے بعد سے عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور ان جاگیردار، وڈیروں، خوانین، سرمایہ داروں اور سرداروں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کا خواب انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے اکابرین برصغیر نے دیکھا تھا۔ کاروباری و مزدور طبقے نے معاشی صورتحال اور بدامنی کے باعث بھی ہجرت کو ترجیح دی۔
سب سے زیادہ سندھ میں اردو بولنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہوئی، چونکہ مہاجرین اپنے تعلیمی قابلیت کی بنا پر مساوی حقوق کے حامل تھے لیکن انگریزوں کی غلامی سے مستفید ہونے والے جاگیردار اور وڈیروں کو بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ اگر جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا گیا تو مراعات یافتہ طبقہ کا نام نہاد حق حکمرانی اورغلامی کے نتیجے میں ملنے والی جائیدادوں اور خزانوں سے محروم ہوکر انھیں بھی عام پاکستانی کی طرح ٹیکس اور اپنی جاہ و حشمت کا حساب کتاب دینا ہوگا۔ تعلیمی اداروں، صنعتوں اور بینکوں کو نیشنلائز اور سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے روزگار اور دہرا نظام تعلیم رکھ کر اعلیٰ تعلیم سے محرومی، لسانی فسادات کی بنیاد رکھ کر سب سے پہلے دیہی و شہری تفریق کا نفرت انگیز بیج بودیا۔
مخصوص قوتوں نے سب سے پہلے آئسولیشن پر عمل درآمد کرتے ہوئے فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات کے دور میں پختون اور مہاجروں کے درمیان لسانی فسادات کرائے، جسے بڑی شدومد کے ساتھ آج تک کرائے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں۔
اب آئیسولیشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز، کرمنلائزیشن کے دوسرے نقطے پر عمل کرکے شروع کردیا گیا، یہ مرحلہ انتہائی خطرناک اور قیمتی جانوں کے عظیم سانحات کا موجب بنا۔ کرمنلائزیشن کی حکمت عملی کے تحت اردو اور پشتو بولنے والوں کو اس قدر متنفر کیے جانے کا سلسلہ شروع کردیا گیاکہ سرکاری زیر اثر میڈیا نے تصویر کا وہی رخ دنیا کے سامنے دکھایا جس سے اچھے اچھے لوگوں کے دلوں میں مہاجروں اور پختونوں کے خلاف منفی تاثر جڑ پکڑنے لگا اور ہر جرم کا ذمے دار مہاجر و پختون کو ٹھہرائے جانے کی کوشش کی جانے لگی اور جس نے بھی حقیقت تلاش کرنے کی سعی کی اس کی شخصیت کو غدار اور قوم کا دشمن بنا کر داغ دار کردیا گیا۔
مہاجر یا پختون کا نام آتے ہی دیگر قومیتوں میں اصل حقائق کو جاننے کا جذبہ پیدا ہونے کے بجائے اس قدر حوصلہ شکنی کی گئی کہ معاشرتی، خاندانی دباؤ کے تحت باشعور عوام کی خاموش اکثریت نے خاموش رہنے کو ترجیح دی، پختون سمیت دیگر قومیتوں کے تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقے میں طے شدہ منصوبے کے مطابق مہاجر اور پختون عوام کو ملک کی دیگر قومیتوں سے آئسولیٹ کرنے کے لیے کرمنلائزیشن کا ایک ایسا منظم منصوبہ جاری رکھا گیا جس کی جڑیں ناپختہ اذہان میں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور اس کا فطری نتیجہ متعدد ایسے واقعات کے رونما ہونے پر نکلا جس سے انسانیت شرمسار ہوئی۔
آزاد و خودمختار مملکت کے حصول کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والوں کو اینٹی پاکستان بنا کر پیش کیا جانے لگا اور ہر قوم سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قومیتوں کو باہم دست و گریبان کردیا گیا کہ ہاتھ چھڑانے والے کم اور آگ لگانے والے زیادہ ہوتے چلے گئے۔ کرمنلائزیشن پالیسی کے تحت ہر اردو بولنے والے کو جرائم پیشہ اور پختون کو طالبان سمجھا جانے لگا۔ نفرتوں کی اس خلیج کو نئی نسل میں اس قدر بڑھا دیا گیا کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز مشکل تر ہونے لگی۔
ڈی مورالائزیشن یعنی مخصوص عوام اور کارکنان کو بددل، بدظن اور مایوسی پیدا کرنے کے اس عمل میں ان گروپوں کو استعمال کیا جارہا ہے جو خدمت کے نام پر عوام کے حقوق سلب کرتے رہے۔ تینوں نکات کی منصوبہ بندی کا بنیادی مقصد صرف اور صرف جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ، سرداری اور خوانین کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ہم سب کو مل کر ان سازشوں کو ملکی سالمیت اور آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ناکام بنانا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم سب کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہم سب ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں باہمی میل ملاپ اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ ہمارا رہن سہن، کاروبار، وابستگیاں اور مفادات مشترکہ ہیں۔ بسیں، رکشہ، ٹیکسی، اگر زیادہ تر پختونوں، پنجابیوں، بلوچوں اور سرائیکیوں کی ہیں تو بیٹھنے والے زیادہ تر اردو بولنے والے ہیں۔
چائے اور کپڑے کی دکانیں پنجابی، پشتونوں اور دیگر قومیتوں کی زیادہ ہیں تو ان سے مستفید افراد کا تعلق اردو بولنے والوں سے ہے۔ فیکڑیاں، مل، کارخانے اگر دوسری قومیتوں کی ہیں تو اس میں مزدور پیشہ اور دفتری عملہ اردو بولنے والوں کا ہے۔ غرض یہ ہے کہ ہم سب لازم و ملزوم ہیں۔ کسی قوم کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہے کہ اسے جبری اور استبدادی قوت سے دبا کر دیوار سے لگادیا جائے گا۔ ہم سب کو متحد ہو کر اپنی قوم اور مملکت کی بقا کی خاطر ملک دشمن عناصر کی سہ جہتی حکمت عملی کو عملی طور پر ناکام بنانا ہوگا۔ ورنہ تاریخ میں ایسی قوموں کا اب صرف ذکر کتابوں میں ہی ملتا ہے جنھیں اپنی طاقت پر گھمنڈ اور طرز حکمرانی پر غرور تھا۔ جبر اور استعماری قوتیں جب بھی اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہیں تو کمزور سے کمزور ناتواں جسم میں بھی جان آجاتی ہے۔
ہمیں اس گرداب سے خود کو باہر نکالنا ہوگا۔ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے باہم دست و گریباں رہیں۔ ہمیں اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے درمیان کوئی عداوت، کوئی دشمنی، کوئی بغض نہیں ہے۔ یہ ایک باہم سازش ہے جسے باہمی اتفاق و اتحاد سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے۔
صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جس جس قوم میں نااتفاقی پیدا ہوتی چلی گئی ان پر ایسے ظالم لوگوں کو مسلط کردیا گیا جسے فرعونیت اور یزیدیت کے نام سے آج اور تاقیامت یاد کیا جاتا رہے گا۔ لسانی فریب اور ملک دشمن عناصر کی سہ جہتی حکمت عملی کو ہم صرف اپنی یکجہتی حکمت عملی سے ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔ یکجہتی اور باہمی بھائی چارے کے لیے لسانی نفرتوں کا خاتمہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرلیں اور عوام کو ان کا حق دے دیا جائے۔