لیاری فلمی میلہ
لیاری کے نوجوانوں میں صلاحیت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ لیاری کراچی میں نہیں بلکہ کراچی لیاری میں ہے۔
SUKKUR:
لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو یہ عالمی اعزاز حاصل ہے کہ جب اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا میں سماجی سطح پر کام کا آغاز کیا تو انھوں نے سب سے پہلے لیاری کا انتخاب کیا۔ جس کے تحت ''لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ'' کی بنیاد پڑی ۔ جس کے پہلے صدر الحاج نورالدین منتخب ہوئے یہ 1954 کی بات ہے۔ جس کے بعد سماجی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان دنوں اس ادارے کے صدر عبدالرحیم موسوی ہیں ۔
وومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن بھی لیاری کا سرگرم سماجی ادارہ ہے جس کی چیئرپرسن صبیحہ شاہ ہیں ۔ یہ دونوں سماجی شخصیت ایک دوسرے کے جیون ساتھی ہیں ۔ ہمیشہ لیاری کی اور لیاری کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے نظر آتے ہیں ۔ایک دن موسوی صاحب کا فون آیا کہنے لگے کہ لیاری کی فلمی دنیا کے متعلق آپ کا ایک مضمون درکار ہے، لیاری فلم فیسٹیول کے لیے۔ میں نے حامی بھر لی اور ان کا مدعا پورا کردیا۔ پھر ''فلم تبدیلی کا مظہر ہے'' کے عنوان سے شہر کراچی کے ایک بڑے اور خوب صورت ہال میں چار روزہ ''لیاری فلم فیسٹیول 2014'' آغاز ہوگیا جس کا مقصد کراچی بالخصوص لیاری کے نوجوان فلم سازوں کی سماجی موضوعات پر بنائی ہوئی مختصر دورانیہ کی فلموں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔فیسٹیول کا افتتاح لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی نے کیا۔ اس موقعے پر انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی فنی صلاحیتوں کو دیکھنے کے بعد اطمینان ہوا ہے کہ پاکستان میں فلموں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
لیاری کے نوجوانوں میں صلاحیت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ لیاری کراچی میں نہیں بلکہ کراچی لیاری میں ہے۔ لیجنڈ اداکار ندیم بھی لیاری کے نوجوان فنکاروں اور فلم میکرز سے بہت متاثر ہوئے انھوں نے کہا کہ ان نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے آگے چل کر یہ ملک و قوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ صبیحہ شاہ نے کہا کہ فلموں کا چناؤ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایسی فلموں کا انتخاب کیا جائے جن کے ذریعے معاشرے میں امن و بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیا جاسکے اور اس طرح کے اقدامات معاشرے میں یقینا مثبت تبدیلی لانے کا سبب بن سکیں گے۔
عبدالرحیم موسوی نے کہا کہ لیاری زرخیز علاقہ ہے یہاں خداداد صلاحیتیں پائی جاتی ہیں یہاں کے نوجوان ہیرا ہیں جنھیں تراشنے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے فلم میکرز غلام حیدر صدیقی، عابد نوید، عارف بہلم، ممتاز رضا، وحید مراد (مرحوم) کی بیگم سلمیٰ مراد ، یار محمد شاہ، احسان شاہ، عدیل ولی ، ایم زوہیب حسن، مرزیا جعفری، فہیم، حاصل بزنجو، عمران ثاقب، عبید، مزمل شاہ جی حسن اور بلوچ اتحاد تحریک کے چیئرمین عابد حسین بروہی نے خطاب کیا۔ تقریب میں لیاری کی ممتاز شخصیات اور فنکاروں کے علاوہ سماجی حلقوں کی بڑی تعداد نے اس چار روزہ فلمی میلے میں شرکت کی۔ اس فلمی میلے میں 40 فلموں کی نمائش کی گئی ۔
جن میں پانچ سے 15 منٹ تک کے مختصر دورانیے کی بیس، 5 سے 15 منٹ تک کے دورانیے کی 12 دستاویزی اور 45 سے 60 منٹ تک کے دورانیے کی 7 فیچر فلمیں دکھائی گئیں ۔ فلم فیسٹیول کے چاروں دن تمام فلموں کے لیے ہال پوری طرح بھرا رہا جب کہ فلم بینوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی ۔ فیسٹیول کے آخری روز جس کے مہمان خصوصی اداکار ندیم بیگ تھے ۔ منتخب 22 فلموں کو ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ اس فلم فیسٹیول کے انعقاد میں کراچی یوتھ انسیٹی ایٹو (kyi) اور نوساچ فلم اکیڈمی کا خاص تعاون رہا ۔
لیاری شروع ہی سے پاکستان اور سندھ کی فلم سازی، ہدایت کاری، فنکارانہ اور فلم ہنرمندی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے، لیاری نے فلمی صنعت کو اداکار بھی دیے ہیں اور تکنیک کاری بھی۔ لیاری کے ان نوجوانوں نے صرف اس تسلسل کو جوڑا ہے جو ٹوٹ گیا ہے۔ بلوچی فلم کی تاریخ 40 سال پرانی ہے جب پہلی بلوچی سینماٹوگرافک فلم ''ہمل و ماگنج'' فلمائی گئی تھی جو لیاری کے نوجوانوں پر مشتمل تھی لیکن یہ فلم ریلیز ہونے سے قبل عوامی سطح پر متنازعہ رہی اور ہمیشہ کے لیے ڈبے میں بند ہوگئی۔ ایک عرصے تک بلوچی ڈرامے اسٹیج کیے جاتے رہے ہیں جنھیں عوامی سطح پر پسند کیا جاتا رہا ہے پھر یہ سلسلہ متروک ہوگیا ۔ پی ٹی وی پر بلوچی ثقافت پر مبنی اردو زبان میں ڈرامے ٹیلی کاسٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور بہت سے ڈرامے مقبول عام ہوئے خاص طور پر ڈرامہ سیریل ''دشت'' اور ''شاہ تاج'' نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے جنھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
جب وی سی آر کا زمانہ شروع ہوا تو بلوچی فنکاروں نے اس میڈیا کا سہارا لیا۔ بلوچی اداکار، ہدایت کار، پروڈیوسر، رائٹر وعکاس ولی رئیس گزشتہ تین دہائیوں سے بلوچی ویڈیو نام سے وابستہ ہیں انھوں نے کئی بلوچی ویڈیو فلمیں، شارٹ موویز اور بلوچی ویڈیو ڈرامے بنائیں۔ اسی طرح دانش بلوچ بیک وقت بلوچی ویڈیوز فلموں، بلوچی و اردو زبان کے اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی کے اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ہدایتکار اور پروڈیوسر ہیں۔ ان دونوں بلوچ فنکاروں نے مل کر 1991 میں پہلی بلوچی ویڈیو فلم ''شیخ چلی'' اور دوسری بلوچی ویڈیو فلم ''کندک نالوٹی'' یعنی (ہنسنا منع ہے) بنائیں گے۔ دانش بلوچ نے 1992 میں پہلی مرتبہ بلوچی ویڈیو گیت مالا کی بنیاد ڈالی جسے لوگوں نے پسند کیا۔ وقار بلوچ جس کا اصل نام الٰہی بخش ہے بلوچی ویڈیو فلم کے مزاحیہ ہیرو اداکار و گلوکار کے طور پر مقبول ہیں انھوں نے لاتعداد بلوچی ویڈیو فلموں میں اداکاری و گلوکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ اس کی جوڑی دانش بلوچ کے ساتھ مقبول رہی ہے (جنھیں بلوچی رنگیلا اور منور ظریف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا)۔
ان دونوں فنکاروں نے مل کر 1994 میں تیسری بلوچی ویڈیو فلم ''دبئی کسی نبئی'' یعنی (دبئی کسی کا نہیں ہوسکتا) بنائی۔ یہ فلم توقعات سے بڑھ کر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ آج بھی لوگ دانش بلوچ اور وقار بلوچ اور دیگر بلوچی فنکاروں کو جنھوں نے اس ویڈیو فلم میں کام کیا ہے اسی فلم کے حوالے سے انھیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ یہ فلم 1995 میں ٹائم ویڈیو نے ریلیز کی تھی ۔
اس کے بعد بہت ساری بلوچی ویڈیوز فلمیں اور گیت مالائیں بنائی گئیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔احسان شاہ ابھرتے ہوئے ایک ذہین نوجوان ہیں، ان کی دستاویزی فلم ''آسمان'' کو گذشتہ دنوں ایوارڈ دیا گیا، وہ فوٹوگرافی فیسٹیول سے بھی انعام یافتہ ہیں، بلوچی زبان کے فروغ اور فلم کے ذریعے بلوچ کلچر کو آگے بڑھانے میں احسان شاہ اپنی ٹیم کے ساتھ تن دہی سے کام کررہے ہیں ۔ وہ فلم ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کی جستجو میں ہیں ۔ بلاشبہ بلوچی ویڈیوز فلموں، ڈراموں کے دیگر معروف فنکاروں میں درمحمد افریقی، زبیر ٹھاکر، ساغر صدیقی، یوسف جان، غلام رسول بابا اور بے شمار نام ہیں جو بلوچی ویڈیوز فلموں کے ستارے ہیں۔
شروع دنوں میں فلم شائقین بلوچی ویڈیو فلموں میں مردانہ رقص دیکھنا پسند کرتے تھے بعد میں اس رجحان سے بوریت محسوس کی گئی اس لیے یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔ شائقین معیاری فلمیں پسند کرتے ہیں۔ کراچی اور اس کے مضافاتی علاقے، اندرون سندھ، بلوچستان، ایران، عرب امارات اور یورپی ممالک میں بلوچ قوم آباد ہے جو بلوچی ویڈیو فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے بلوچی ویڈیو فلمیں بننا تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔
اب شارٹ موویز کا سلسلہ عروج پا رہا ہے جو نوجوانوں میں پسند کیا جا رہا ہے۔ لیاری فلم فیسٹیول اسی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کیا گیا تھا جسے اہل لیاری نے سراہا ہے۔ امید ہے حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔یہ لیاری کا وہ ثقافتی اور تخلیقی چہرہ ہے جسے ملکی اور بین الاقومی سطح پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو یہ عالمی اعزاز حاصل ہے کہ جب اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا میں سماجی سطح پر کام کا آغاز کیا تو انھوں نے سب سے پہلے لیاری کا انتخاب کیا۔ جس کے تحت ''لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ'' کی بنیاد پڑی ۔ جس کے پہلے صدر الحاج نورالدین منتخب ہوئے یہ 1954 کی بات ہے۔ جس کے بعد سماجی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان دنوں اس ادارے کے صدر عبدالرحیم موسوی ہیں ۔
وومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن بھی لیاری کا سرگرم سماجی ادارہ ہے جس کی چیئرپرسن صبیحہ شاہ ہیں ۔ یہ دونوں سماجی شخصیت ایک دوسرے کے جیون ساتھی ہیں ۔ ہمیشہ لیاری کی اور لیاری کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے نظر آتے ہیں ۔ایک دن موسوی صاحب کا فون آیا کہنے لگے کہ لیاری کی فلمی دنیا کے متعلق آپ کا ایک مضمون درکار ہے، لیاری فلم فیسٹیول کے لیے۔ میں نے حامی بھر لی اور ان کا مدعا پورا کردیا۔ پھر ''فلم تبدیلی کا مظہر ہے'' کے عنوان سے شہر کراچی کے ایک بڑے اور خوب صورت ہال میں چار روزہ ''لیاری فلم فیسٹیول 2014'' آغاز ہوگیا جس کا مقصد کراچی بالخصوص لیاری کے نوجوان فلم سازوں کی سماجی موضوعات پر بنائی ہوئی مختصر دورانیہ کی فلموں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔فیسٹیول کا افتتاح لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی نے کیا۔ اس موقعے پر انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی فنی صلاحیتوں کو دیکھنے کے بعد اطمینان ہوا ہے کہ پاکستان میں فلموں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
لیاری کے نوجوانوں میں صلاحیت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ لیاری کراچی میں نہیں بلکہ کراچی لیاری میں ہے۔ لیجنڈ اداکار ندیم بھی لیاری کے نوجوان فنکاروں اور فلم میکرز سے بہت متاثر ہوئے انھوں نے کہا کہ ان نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے آگے چل کر یہ ملک و قوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ صبیحہ شاہ نے کہا کہ فلموں کا چناؤ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایسی فلموں کا انتخاب کیا جائے جن کے ذریعے معاشرے میں امن و بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیا جاسکے اور اس طرح کے اقدامات معاشرے میں یقینا مثبت تبدیلی لانے کا سبب بن سکیں گے۔
عبدالرحیم موسوی نے کہا کہ لیاری زرخیز علاقہ ہے یہاں خداداد صلاحیتیں پائی جاتی ہیں یہاں کے نوجوان ہیرا ہیں جنھیں تراشنے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے فلم میکرز غلام حیدر صدیقی، عابد نوید، عارف بہلم، ممتاز رضا، وحید مراد (مرحوم) کی بیگم سلمیٰ مراد ، یار محمد شاہ، احسان شاہ، عدیل ولی ، ایم زوہیب حسن، مرزیا جعفری، فہیم، حاصل بزنجو، عمران ثاقب، عبید، مزمل شاہ جی حسن اور بلوچ اتحاد تحریک کے چیئرمین عابد حسین بروہی نے خطاب کیا۔ تقریب میں لیاری کی ممتاز شخصیات اور فنکاروں کے علاوہ سماجی حلقوں کی بڑی تعداد نے اس چار روزہ فلمی میلے میں شرکت کی۔ اس فلمی میلے میں 40 فلموں کی نمائش کی گئی ۔
جن میں پانچ سے 15 منٹ تک کے مختصر دورانیے کی بیس، 5 سے 15 منٹ تک کے دورانیے کی 12 دستاویزی اور 45 سے 60 منٹ تک کے دورانیے کی 7 فیچر فلمیں دکھائی گئیں ۔ فلم فیسٹیول کے چاروں دن تمام فلموں کے لیے ہال پوری طرح بھرا رہا جب کہ فلم بینوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی ۔ فیسٹیول کے آخری روز جس کے مہمان خصوصی اداکار ندیم بیگ تھے ۔ منتخب 22 فلموں کو ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ اس فلم فیسٹیول کے انعقاد میں کراچی یوتھ انسیٹی ایٹو (kyi) اور نوساچ فلم اکیڈمی کا خاص تعاون رہا ۔
لیاری شروع ہی سے پاکستان اور سندھ کی فلم سازی، ہدایت کاری، فنکارانہ اور فلم ہنرمندی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے، لیاری نے فلمی صنعت کو اداکار بھی دیے ہیں اور تکنیک کاری بھی۔ لیاری کے ان نوجوانوں نے صرف اس تسلسل کو جوڑا ہے جو ٹوٹ گیا ہے۔ بلوچی فلم کی تاریخ 40 سال پرانی ہے جب پہلی بلوچی سینماٹوگرافک فلم ''ہمل و ماگنج'' فلمائی گئی تھی جو لیاری کے نوجوانوں پر مشتمل تھی لیکن یہ فلم ریلیز ہونے سے قبل عوامی سطح پر متنازعہ رہی اور ہمیشہ کے لیے ڈبے میں بند ہوگئی۔ ایک عرصے تک بلوچی ڈرامے اسٹیج کیے جاتے رہے ہیں جنھیں عوامی سطح پر پسند کیا جاتا رہا ہے پھر یہ سلسلہ متروک ہوگیا ۔ پی ٹی وی پر بلوچی ثقافت پر مبنی اردو زبان میں ڈرامے ٹیلی کاسٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور بہت سے ڈرامے مقبول عام ہوئے خاص طور پر ڈرامہ سیریل ''دشت'' اور ''شاہ تاج'' نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے جنھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
جب وی سی آر کا زمانہ شروع ہوا تو بلوچی فنکاروں نے اس میڈیا کا سہارا لیا۔ بلوچی اداکار، ہدایت کار، پروڈیوسر، رائٹر وعکاس ولی رئیس گزشتہ تین دہائیوں سے بلوچی ویڈیو نام سے وابستہ ہیں انھوں نے کئی بلوچی ویڈیو فلمیں، شارٹ موویز اور بلوچی ویڈیو ڈرامے بنائیں۔ اسی طرح دانش بلوچ بیک وقت بلوچی ویڈیوز فلموں، بلوچی و اردو زبان کے اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی کے اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ہدایتکار اور پروڈیوسر ہیں۔ ان دونوں بلوچ فنکاروں نے مل کر 1991 میں پہلی بلوچی ویڈیو فلم ''شیخ چلی'' اور دوسری بلوچی ویڈیو فلم ''کندک نالوٹی'' یعنی (ہنسنا منع ہے) بنائیں گے۔ دانش بلوچ نے 1992 میں پہلی مرتبہ بلوچی ویڈیو گیت مالا کی بنیاد ڈالی جسے لوگوں نے پسند کیا۔ وقار بلوچ جس کا اصل نام الٰہی بخش ہے بلوچی ویڈیو فلم کے مزاحیہ ہیرو اداکار و گلوکار کے طور پر مقبول ہیں انھوں نے لاتعداد بلوچی ویڈیو فلموں میں اداکاری و گلوکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ اس کی جوڑی دانش بلوچ کے ساتھ مقبول رہی ہے (جنھیں بلوچی رنگیلا اور منور ظریف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا)۔
ان دونوں فنکاروں نے مل کر 1994 میں تیسری بلوچی ویڈیو فلم ''دبئی کسی نبئی'' یعنی (دبئی کسی کا نہیں ہوسکتا) بنائی۔ یہ فلم توقعات سے بڑھ کر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ آج بھی لوگ دانش بلوچ اور وقار بلوچ اور دیگر بلوچی فنکاروں کو جنھوں نے اس ویڈیو فلم میں کام کیا ہے اسی فلم کے حوالے سے انھیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ یہ فلم 1995 میں ٹائم ویڈیو نے ریلیز کی تھی ۔
اس کے بعد بہت ساری بلوچی ویڈیوز فلمیں اور گیت مالائیں بنائی گئیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔احسان شاہ ابھرتے ہوئے ایک ذہین نوجوان ہیں، ان کی دستاویزی فلم ''آسمان'' کو گذشتہ دنوں ایوارڈ دیا گیا، وہ فوٹوگرافی فیسٹیول سے بھی انعام یافتہ ہیں، بلوچی زبان کے فروغ اور فلم کے ذریعے بلوچ کلچر کو آگے بڑھانے میں احسان شاہ اپنی ٹیم کے ساتھ تن دہی سے کام کررہے ہیں ۔ وہ فلم ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کی جستجو میں ہیں ۔ بلاشبہ بلوچی ویڈیوز فلموں، ڈراموں کے دیگر معروف فنکاروں میں درمحمد افریقی، زبیر ٹھاکر، ساغر صدیقی، یوسف جان، غلام رسول بابا اور بے شمار نام ہیں جو بلوچی ویڈیوز فلموں کے ستارے ہیں۔
شروع دنوں میں فلم شائقین بلوچی ویڈیو فلموں میں مردانہ رقص دیکھنا پسند کرتے تھے بعد میں اس رجحان سے بوریت محسوس کی گئی اس لیے یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔ شائقین معیاری فلمیں پسند کرتے ہیں۔ کراچی اور اس کے مضافاتی علاقے، اندرون سندھ، بلوچستان، ایران، عرب امارات اور یورپی ممالک میں بلوچ قوم آباد ہے جو بلوچی ویڈیو فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ لیکن مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے بلوچی ویڈیو فلمیں بننا تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔
اب شارٹ موویز کا سلسلہ عروج پا رہا ہے جو نوجوانوں میں پسند کیا جا رہا ہے۔ لیاری فلم فیسٹیول اسی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کیا گیا تھا جسے اہل لیاری نے سراہا ہے۔ امید ہے حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔یہ لیاری کا وہ ثقافتی اور تخلیقی چہرہ ہے جسے ملکی اور بین الاقومی سطح پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔