سنہرا خواب
تاریخ گواہ ہے کہ انقلابات کا کارواں ہمیشہ جنگ وجدل، خون خرابے اور تباہی و بربادی کی خون آلودہ مسافتوں کے بعد۔۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب کسی قوم میں بیداری کی لہر پیدا ہوتی ہے اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مجبورو مقہور لوگوں میں بغاوت کی چنگاریاں شعلہ بننے لگیں وہ اپنی محرومیوں، مایوسیوں اور ناکامیوں کا انتقام لینے کی ٹھان لیں حکمرانوں کے جبروستم، ناانصافیوں اور استحصال سے تنگ آجائیں اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ظالم و جابر حکمرانوں اور امرا کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم لیے جوق در جوق سڑکوں پر آجائیں تو پھر نظام سلطنت درہم برہم ہوجاتا ہے۔
قانون کی ہر کتاب بند ہوجاتی ہے، انتظامی مشنری ناکارہ اور مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت جواب دے جاتی ہے، حاکموں کا ناطقہ بند کردیا جاتا ہے ان کے راہ فرار کے راستے مسدود کردیے جاتے ہیں، مذاکرات کی میزیں الٹ دی جاتی ہیں، محروم و محکوم عوام اپنے خون کے نذرانے دے کر تاریخ رقم کرتے ہیں، غیض و غضب میں بپھرے ہوئے لوگوں کا سمندر ظالم و جابر حکمرانوں کو ایسے عبرت ناک سے انجام دوچار کردیتا ہے کہ وہ انقلاب کی تاریخ کا مستند حوالہ بن جاتے ہیں۔انقلاب برپا کرنے والے جنونیوں کے سر میں ایک ہی سودا سمایا ہوتا ہے جسے شاعر مشرق نے یوں بیان کیا ہے:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
انقلاب ہیٹی سے لے کر انقلاب فرانس تک، انقلاب چین سے لے کر انقلاب روس تک اور انقلاب ایران سے لے کر حالیہ انقلاب مصر میں رقم ہونے والی لہو میں ڈوبی داستان تاریخ انقلاب کا حصہ ہیں۔ آج سے دو صدی قبل جب ہیٹی جیسے چھوٹے ملک کے عوام نے بغاوت کی تو تقریباً 5 لاکھ کی آبادی کے حامل ملک میں ایک لاکھ سے زائد انسان انقلاب کے لہو میں نہلا دیے گئے غربت، بھوک و افلاس سے تنگ آئے فرانسیسیوں نے جب شاہی محل کے سامنے احتجاج کیا تو ان کی نارسائی ، محرومی اور غربت کا یہ کہہ کر شہزادی نے مذاق اڑایا کہ اگر انھیں کھانے کو روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔
چوپائیوں کے ساتھ مل کر گھاس پھوس کھا کر شکم کی آگ کیوں نہیں بجھاتے۔ اس بیان نے گویا مجبور و مقہور عوام کے دلوں میں سلگتی چنگاریوں پر تیل چھڑک دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بغاوت کے پرچم لہرانے لگے، خون کے فوارے پھوٹنے لگے، لاشوں کے ڈھیر لگنے لگے ۔ انقلابیوں نے بابر بادشاہ اور اس کے حواریوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرایا۔ لاکھوں فرانسیسیوں نے اپنے لہو سے انقلاب کی داستان رقم کی اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں روس پر نکولس دوئم حکمراں تھا لوگوں کا جم غفیر اپنی محکومیوں، محرومیوں، مایوسیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کی داستان لیے اس کے محل کے سامنے جمع ہوگیا۔ فریادی فریاد کرتے رہے لیکن جابر و ظالم حاکم کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی وہ اپنے زعم حکمرانی اور طاقت و اختیارات کے سلطانی نشے میں ڈوبا رہا نتیجتاً باغیوں نے حاکم کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں تھام لیں اور کاروان انقلاب ظالم حکمراں کے محلات سے ٹکرا گیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق انقلاب روس میں 17 لاکھ افراد نے اپنے لہو کے تیل سے انقلاب کی شمعیں روشن کرکے تاریخ انقلاب میں ایک سنہرا باب رقم کردیا۔ چین میں برپا ہونے والا انقلاب اپنی منفرد تاریخ رکھتا ہے، چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں لاکھوں افراد نے ایک طویل ''لانگ مارچ'' کیا اور جبر و استبداد سے چینیوں کو نجات دلانے کے لیے اور ایک بہتر و باوقار مستقبل کی تعمیر کی امید لیے کارروان انقلاب چیئرمین ماؤ کی قیادت میں محو سفر رہا اور اپنی منزل مراد تک پہنچتے پہنچتے 30 لاکھ کے لگ بھگ انسان انقلاب چین کی خوراک بن گئے۔
شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے جبر و استبداد کے خلاف امام خمینی نے کارروان انقلاب کی قیادت کی محکوم و مجبور عوام نے بادشاہ ایران اور اس کے حاشیہ برداروں کو ایسے عبرتناک انجام سے دوچار کیا کہ اسے کہیں امان نہ ملی ہر چند کہ ہزاروں افراد نے ایرانی انقلاب میں اپنی جانیں قربان کیں لیکن ظالم و جابر بادشاہ سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلی۔ انقلاب مصر تو کل کی بات ہے جب تحریر اسکوائر پر لاکھوں کے مجمع نے رات و دن دھرنا دیے رکھا اور دو بدو مقابلے میں ہزاروں لوگ خون میں نہلا دیے گئے لیکن مصریوں نے اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھی بالآخر وہ اپنی منشا کے مطابق حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور حاکم مصر مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ انقلابات کا کارواں ہمیشہ جنگ وجدل، خون خرابے اور تباہی و بربادی کی خون آلودہ مسافتوں کے بعد منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ انقلاب کی عمارات تعمیر کرنا کھیل نہیں یہ انسانی لہو کے گارے اور لاشوں کی اینٹوں سے تعمیر ہوتی ہے جس میں آئندہ نسلیں آرام و سکون سے زندگی کے ایام گزارتی ہیں۔ انقلاب برپا کرنے والے رہنما و قائدین ایک واضح نظریے اور وژن کے حامل ہوتے ہیں ان کے مقاصد واضح اور قول و عمل شفاف آئینہ ہوتا ہے ان کے ارادوں کی مضبوطی اور الفاظ کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے ان کی انقلابی آوازیں محض جذباتی نعروں میں گونج کر ہوا میں تحلیل نہیں ہوجاتیں بلکہ عمل کے دھارے میں شامل ہوکر منزل تک پہنچنے کی نوید بن جاتی ہیں۔
ہمارے داعیان انقلاب و آزادی کو دعویٰ ہے کہ انھوں نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے بالخصوص انقلابات زمانہ کی تاریخ تو دونوں قائدین انقلاب نے گھول کر پی رکھی ہے۔ چالیس دن سے اسلام آباد کے ریڈزون میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اپنے ''ٹائیگرز'' اور ''مریدوں'' کے روبرو ''فائیواسٹار کنٹینر'' سے وقفے وقفے سے برآمد ہوکر انقلاب لانے اور نیا پاکستان بنانے کے ایسے ایسے بلندوبانگ دعوے کر رہے ہیں کہ اگر آپ ایک لمحے کو چشم تصور سے دیکھیں تو لگے گا کہ جیسے ہم جنت میں رہ رہے ہیں جہاں ہر طرف دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں جہاں نہ عذاب جاں بننے والی لوڈشیڈنگ ہے اور نہ غریبوں کا خون چوسنے والی مہنگائی ہے، نہ غربت و افلاس کے ہاتھوں جمہور ہوکر خودکشیاں کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اپنے گردے اور لخت جگر کو فروخت کرکے وڈیروں، جاگیرداروں کے قرضے اتارنے کا غم ہے، نہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہوتے اور جرائم پیشہ داداگیروں کا آلہ کار بننے کی مجبوری اور نہ ہی چپراسی کی نوکری حاصل کرنے کے لیے ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کا احساس شرمندگی ہے، نہ وہاں دہشت گردی، خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں جان گنوانے کا خوف ہے اور نہ ہی مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور لسانی و صوبائی تقسیم سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
نہ وہاں حکمراں محلات میں رہتے ہیں اور نہ غریب رعایا کی جھونپڑی سے بارشوں کا پانی ٹپکتا ہے نہ وہاں سیلاب آتے ہیں اور نہ زلزلے، نہ میرے عزیز ہم وطنو! کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور نہ انتخابات میں دھاندلی کا کوئی وجود اور نہ وہاں ''انقلابی'' اور ''آزادی'' مارچوں کے پیچھے ''اسکرپٹ رائٹر'' کا شوروغل سنائی دیتی ہے، نہ کوئی استعفے کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ کوئی میں نہ مانوں پر اڑتا ہے۔ الغرض ہر طرف راوی انقلاب چین ہی چین لکھتا اور یہی سکھ و چین ہماری 65 سالہ تاریخ کے انقلابیوں کا وہ ''سنہرا خواب'' ہے جس کی تعبیر ڈھونڈنا گویا ''جوئے شیر'' لانے کے مترادف ہے۔