مزید صوبوں کا قیام
صوبہ بنانا کوئی معیوب بات یا غیرآئینی نہیں ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی جتنی اکائیاں بنیں گی انتظامی امور اُتنے ہی اچھے چلیں گے
پاکستان بھر میں نئے صوبوں کے حوالے سے بازگشت ایک بار پھر نہ صرف سنائی دے رہی ہے بلکہ الیکٹرونک میڈیا پر بحث ومباحثے کا سلسلہ بھی زور شور سے جاری ہے۔ ہزارے وال صوبہ ہو ، سرائیکی صوبہ ہو، بہاول پو ر جنوبی پنجاب صوبہ ہو یا سندھ میں نئے صوبوں کا مسئلہ زیر بحث ہو ، یہ سب پاکستان کے آئین کا حصّہ ہیں جو لوگ اس کے حامی نہیں ہیں وہ عناصر برسوں سے اسٹبلشمنٹ کے آ لہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔
ایسے عناصر کو چاہیے کہ پہلے پاکستان کے آئین کو ختم کردیں ورنہ جو حضرات صوبے کے حوالے سے تحریک چلا رہے ہیں ان کے مؤقف کو دلائل کی روشنی میں سنیں اور ان کے مسائل کے مستقل حل کے لیے اقدامات کریں تاکہ عوام میں جو احساس محرومی جنم لے رہا ہے ، اس کے سدباب کے لیے اقدامات کریں ورنہ ایسے مفاد پرست عناصر کوکوئی حق نہیں کہ وہ نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت کریں جب تک انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا اُس وقت تک نہ امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر انتظامی معاملات چلانے کے لیے شہری یا دیہی سطح پر وہاں کے مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے لیکن 67 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاسکا بلکہ تعصب و لسانیت کی بنیاد پر شہر کراچی پر قبضہ کر نے کے لیے انتظامی معاملات چلانے کے لیے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا جمہوریت کا راگ الاپنے والے نام نہاد عناصر کو میدان عمل میں آکر مضبوط و مستحکم پاکستان کے لیے نئے صوبوں کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر نئے صوبوں کی مخالفت کی گئی تو یہ بات آئینے کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ وہ پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے اگر ایسا عمل کیا گیا تو عوام ایسے عناصر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسترد کردیں گے ۔ملک میں دیگر صوبوں سمیت سندھ میں نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ پنجاب کے بعد پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے۔ ملک کے مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی رہتی کوئی کہتا ہے لسانی بنیاد پر صوبے نہیں بننے چاہئیں، یہ اچھی بات ہے لیکن کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ پاکستان کے موجودہ صوبے کیا لسانی بنیاد پر قائم نہیں؟ سندھ، پنجاب، بلوچستان کیا لسانیت کی عکاسی نہیں کرتے ہاں ایک صوبہ سرحد تھا جس کا نام غیر لسانی تھا لیکن اسے بھی اب پختونخواہ کا نام دے کر لسانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔
صوبہ بنانا کوئی معیوب بات یا غیرآئینی نہیں ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی جتنی اکائیاں بنیں گی انتظامی امور اُتنے ہی اچھے چلیں گے۔ بھارت کی مثال سامنے ہے جب وہ آزاد ہوا تھا اس وقت کتنے صوبے تھے اور اب کتنے صوبے ہیں۔ بھارتی پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن کسی بھی مذہبی و لسانی جماعت کی طرف سے کوئی شورو غل نہیں ہوا لیکن ہمارے ملک میں سیاست دان اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ معاملے کو اُلجھا کر اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگے رہتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ کا صحیح حل نہیں پیش کر رہا ہے۔ انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے۔ چلیں سیاستدانوں کی بات کو مان لیتے ہیں کہ لسانی بنیاد پرصوبے نہیں بننے چاہئیں تو لسانی بنیاد پر بنے ہوئے پاکستان کے چاروں صوبوں کے نام فوراً تبدیل کر دینے چاہئیں کیونکہ اس سے لسانیت کو ہوا ملتی ہے جو کہ وفاق کو کمزور کرنے کی علامت ہے۔
قرارداد پاکستان 1940 میں نئے صوبوں کا قیام قوانین میں موجود ہے اور اس قوانین کی نفی کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ عوام کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام عمل میں لاکر ملک کو مزید مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور عوام میں بڑھتا ہوا احساس محرومی ختم کیا جا سکتا ہے جو کہ خوشحال پاکستان کا ضامن ہے۔ لہٰذا پاکستان کے اندرونی معاملات کو سلجھانے کا سب سے بہترین ذریعہ نئے صوبوں کا قیام ہے سرائیکی، ہزارے وال اور ملک کے دیگر عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے لیے نئے صوبوں کے قیام کے لیے حکومت وقت فیصلہ کرکے اس ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھول سکتی ہے۔
مثال کے طور پر بھارت کی آزادی کے بعد ہی انتظامی سطح پر بہتری لانے کے لیے نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا گیا اسی طرح ایران، افغانستان اور دنیا کے تمام ممالک میں آبادی کے تناسب سے نئے انتظامی یونٹ قائم کیے گئے لیکن اُن ممالک میں کسی بھی قسم کی یعنی نہ مذہبی سطح پر اور نہ ہی سیاسی سطح پر کوئی مخالفت کی گئی لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے کسی بھی جماعت کی طرف سے نئے صوبوں کی تجویز پیش کی جائے تو اُس پر واویلا نہیں مچایا جاتا لیکن اگر سندھ کی دوسری بڑی جماعت نئے انتظامی یونٹ بنانے کے حوالے سے اگر کوئی تجویز پیش کرے تو اُس پر نہ صرف اعتراضات کیے جاتے ہیں بلکہ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں جیسے الفاظ کی باز گشت سنائی دیتی ہے ؟ اگر سندھ کے عوام کا جائزہ لیا جائے جو اندرون سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اُن کی حالت زار نہایت ہی مخدوش نظر آتی ہے۔ لہٰذا سندھ میں مزید انتظامی بہتری کی مخالفت کرنے والے سیاسی نابالغ ہیں۔ اگر سندھ میں وڈیرہ و جاگیردارانہ سوچ کی عکاسی کرنے والوں سے سندھ کے عوام کو نجات دلا دی جائے تو اُن کی حالت زار سالوں میں نہیں بلکہ چند مہینوں میں ہی بدل جائے گی۔برسوں سے قابض وڈیرہ جاگیردارانہ نظام نے ملک کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے اس کا واحد حل نئے صوبوں کا قیام ہے جو کہ صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔
صوبوں کے قیام میں رکاوٹ بننے والے دراصل جاگیردارانہ نظام کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے ملک کو ابتری کی طرف لے جانے والے اور عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے والے یہی عناصر ہیں۔ لہٰذا ناعاقبت اندیشوں کو عقل کے ناخن لینا چاہئیں کیونکہ گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک میں جو زہر پھیل رہا ہے اس کے اثرات کو ختم کر نے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ انتظامی اُمور کو بہتر بنانے کی غرض سے اگر پاکستان میں مزید صوبے بنا دیے جائیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اسے لسانیت کا رنگ دینے کی ضرورت ہے۔
انتظامی مشینری تیار ہے صرف کمشنرز کی جگہ گورنر اور وزیر اعلیٰ و اسمبلیوں کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے اس سے انتظامی امور چلانے میں بڑی آسانی پیدا ہو گی۔ جمہوریت مستحکم ہو گی جب امریکا کی بہت ساری ریاستیں ملکر ایک مضبوط وفاق بنا سکتی ہیں تو پاکستان کے درجنوں ڈویژن ملکر وفاق کو مستحکم کیوں نہیں کر سکتے؟ صرف مستحکم ارادے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔