یونس خان کی زبان سے اٹھنے والا طوفان کیا گل کھلائے گا
ایک نئے تنازع نے قومی کرکٹ کے دروازے پر دستک دے دی
SUKKUR:
''آ بیل مجھے مار'' پی سی بی کے معاملات دیکھ کر ہمیشہ یہی کہاوت یاد آتی ہے۔
معاملات کبھی سیدھے انداز سے چل ہی نہیں پاتے، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ حکام ازخود دوسری مصیبت کو دعوت دے دیتے ہیں،اس بار بھی میڈیا دھرنوں و دیگر معاملات کی کوریج میں لگا ہوا تھا کہ بورڈ نے اسے یونس خان کا مصالحہ دار تنازع پیش کر دیا جس پر اب اسپورٹس کے اینکرز و صحافی اور سابق کرکٹرز دل کھول کر تبصرے کر رہے ہیں، یہ معاملہ بورڈ کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس کر آگے بھی اسے خوب تنگ کرنے والا ہے اور اس کی مکمل ذمہ داری سلیکٹرز پر عائد ہوتی ہے، انھوں نے چیئرمین شہریارخان کو بھی اسی مشکل میں ڈال دیا جس کا کچھ عرصے قبل نجم سیٹھی سامنا کر چکے تھے، دیکھتے ہیں کہ بورڈ اب کیسے اس مسئلے سے باہرنکلتا ہے۔
اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یونس خان کی ون ڈے اسکواڈ میں بالکل جگہ نہیں بنتی تھی، وہ 6 سال سے اس طرز میں کوئی سنچری نہیں بنا سکے،آخری چند میچز میں توکارکردگی بالکل ٹیل اینڈرز جیسی رہی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے انھیں ٹیم کے ہمراہ سری لنکا بھیجا، یوں ان کی سابقہ کارکردگی پس پشت چلی گئی، اب اگر وہ اسکواڈ سے باہر ہوئے تو یہی کہا جائے گا کہ ایک میچ میں ناکام رہنے کے بعد ایسا کیا گیا کیونکہ وہ بھتیجے کی وفات کے سبب وطن واپس آگئے تھے،سلیکشن کمیٹی نے مسلسل ناکامیوں کے بعد انھیں پہلے کیوں منتخب کیا۔
اگر وہ ون ڈے کے اچھے پلیئر نہیں تھے تو انھیں باہر ہی رہنے دیا جاتا، اب ایک میچ کھلا کر دوبارہ یاد آیا کہ بھئی اس نے تو کافی عرصے سے مختصر طرز میں پرفارم نہیں کیا، یہ کیا بات ہوئی،پہلے بھی کہہ چکا کہ قومی اسکواڈ کا انتخاب کوئی مشکل کام نہیں،10،12 تو آٹومیٹک چوائس ہوتے ہیں، 3،4 کھلاڑیوں کو ہی چننا ہوتا ہے اور اس کام کیلیے سلیکٹرز کو لاکھوں روپے ملتے ہیں، اس کے باوجود سلیکشن میں غلطیاں ناقابل معافی ہیں،اگر یونس کو ٹیم سے باہر کرنا ہی تھا تو کم از کم ایک سیریز یا میچ اور کھلا دیتے آسٹریلیا کیخلاف بھی ناکام رہتے تو سلیکٹرز پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھاتا، اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف سلیکٹر کو یونس سے یقیناً کوئی ذاتی عناد ہے جو وہ مسلسل ان کے ساتھ ایسا سلوک اختیارکیے جا رہے ہیں۔
نجم سیٹھی اب چیئرمین نہیں رہے اس لیے میں یہ حقائق بھی بیان کر دیتا ہوں کہ یونس خان کے سینٹرل کنٹریکٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوا، اس وقت بھی معین خان نے انھیں بی کیٹیگری میں رکھ کر ایک تنازع چھیڑ دیا، سارا ملبہ چیئرمین بورڈ پر گرنے لگا حالانکہ ان کا معاملے سے براہ راست تعلق نہ تھا، اس حوالے سے بریفنگ میں معین خان نے چیئرمین سے خود کہا تھا کہ ''ہمارے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق شاہدآفریدی بھی بی کیٹیگری میں آرہے تھے مگر ایک تبدیلی کر کے انھیں اے میں لے آئے'' کاش وہ ایسا ہی یونس خان کے ساتھ بھی کر لیتے، پی سی بی میں ویسے ہی انتخاب عالم، ذاکر خان،عثمان واہلہ اور دیگر کئی لوگ برسوں سے چمٹے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
ایسے میں وہ کرکٹر جس کی وجہ سے آمدنی ہوتی ہے اسے کچھ مل جاتا تو کیا مضائقہ تھا،اس وقت جب نجم سیٹھی نے معین خان سے کہا کہ وہ یونس کے معاملے میں میڈیا کی تنقید سنبھال لیں گے تو انھوں نے ہاں میں جواب دیا مگر پھر اعلان ہوتے ہی اگلی فلائٹ سے واپس کراچی چلے گئے اور ساری تنقید کا جواب چیئرمین دیتے رہے، میں نے اس واقعے کا ڈھکے چھپے انداز میں پہلے تھوڑا ذکر کیا تھا اب مختصراً تمام حقائق بیان کرتا ہوں، چند ماہ قبل جب میرا لاہور جانا ہوا تو سابق چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی نے لنچ کی دعوت دی، مقررہ وقت میں جب ان کے دفتر پہنچا تو ہماری ون آن ون ملاقات شروع ہوئی،یونس خان کا ذکر آیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے انھیں اے کیٹیگری نہ دے کر بڑا غلط کیا، نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا،میری یونس سے بات ہو چکی، وہ بغیر سینٹرل کنٹریکٹ کے کھیلتا رہے گا۔
میں نے ان سے کہا کہ اس سے ایک خطرناک روایت شروع ہو جائے گی، پلیئرز کنٹریکٹ سے آزاد ہوں گے تو کسی معاملے میں روک ٹوک نہیں ہو سکے گی، وہ دنیا بھر میں کھیلتے پھریں گے اور جب دل چاہے ملکی نمائندگی سے انکار بھی کر سکیں گے، میں نے دلائل سے انھیں قائل کیا تو سیٹھی صاحب کے چہرے پر تھوڑی پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''اچھا آپ ہی بتائیں اس مسئلے کو کیسے حل کریں'' میں نے ان سے کہا کہ اتنے عظیم بیٹسمین کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے، آپ یہ کہیں کہ چیئرمین نے یونس خان تنازع کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے انھیں اے کییٹیگری دلا دی، ساتھ ہی انھیں اس کے طریقہ کار کا بھی آئیڈیا دیا، یہ سنتے ہی وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ''آپ نے تو اتنا بڑا مسئلہ فوراً ہی حل کرا دیا'' ، چیئرمین نے انٹرکام دے کر بورڈ کی 2 اہم شخصیات کو اپنے کمرے میں بلایا اور میری تجویز بتائی، سیٹھی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ''اس کا پریس ریلیز بھی آپ ہی بنا کر دیں'' چند منٹ بعد چینلز پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ''چیئرمین نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یونس خان کو اے کیٹیگری میں شامل کرا دیا''۔
یوں نجم سیٹھی نے انتہائی عمدگی سے ایک تنازع مزید بڑھنے سے قبل ہی ختم کرا دیا۔ میں پہلے بھی بتا چکا کہ یونس خان سے یقیناً ماضی میں میرا قریبی تعلق رہا مگر کافی عرصے سے اتنی دوریاں ہو چکیں کہ فون پر بات ہوئے بھی زمانہ بیت چکا، میں نے ان کیلیے صرف اس لیے آواز اٹھائی کہ وہ ملک کیلیے کئی کارنامے انجام دے چکے اور ایسے سلوک کے ہرگز مستحق نہ تھے،انھوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران رنز تو خوب بنائے مگر زیادہ دوست نہیں بنا سکے، ان کے رویے کی وجہ سے بعض قریبی افراد بھی دور ہوگئے جن میں معروف کرکٹرز بھی شامل ہیں، اس کا انھیں فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا، آج جب وہ مشکل میں ہیں تو ساتھ دینے کیلیے بہت کم لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ معین خان کو سابقہ غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار محتاط رہنا چاہیے تھا مگر وہ نجم سیٹھی کے بعد اب شہریار خان کو بھی مشکل میں ڈال گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین کو ماضی میں بھی یونس کے تنازع کی وجہ سے ہی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے، اب بھی کہیں مسئلہ مزید بڑھ گیا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹیم مینجمنٹ میں شامل سابق اسٹارز کی فوج کے اپنے کیریئر شایان شان انداز سے ختم نہیں ہوئے، ایسے میں انھیں نئی روایت ڈالتے ہوئے یونس کو باعزت رخصتی کا موقع دینا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا، سب اپنے وقت میں روتے ہوئے گئے مگر اب دوسروں کو ہنسی خوشی رخصت ہونے کا بھی چانس نہیں دے رہے، جیسے سری لنکا نے مہیلا جے وردنے کو آخری سیریز کھیلنے کا موقع دیا اور شایان شان انداز سے رخصت کیا کاش ہم بھی ایسا کرتے، یونس کو بتا دیا جاتا کہ یو اے ای میں آپ کی آخری سیریز ہے۔
بچت ہی کرنی تھی تو چند ہزار کی ایک شیلڈ دے کر گراؤنڈ کا چکر لگوا دیتے، یونس بھی خوش اور شائقین بھی مطمئن ہوتے کہ ان کے ہیرو کو اچھے انداز میں کھیل سے رخصت ہونے دیا گیا، مگر جان بوجھ کر رنگ میں بھنگ ڈالاگیا۔ یونس کو ڈراپ ہونے سے زیادہ افسوس معین خان کی اس بات کا ہے کہ وہ مستقبل کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں،ماضی میں میڈیا سے دور رہنے والے بیٹسمین جب نیشنل اسٹیڈیم میں سامنے آئے تو ان کے منہ سے انگارے نکل رہے تھے جو پی سی بی سے وابستہ بعض افراد کو لپیٹ میں لے کر ان کے کیریئر بھسم کر سکتے ہیں۔
بورڈ اب دوہری مشکل میں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متنازع امور پر لب کشائی کرنے کی وجہ سے یونس کو شوکاز نوٹس بھیجا جاتا مگر اس سے نیا محاذ کھلنے کا ڈر ہے،اس لیے اب تک صرف ایک پیار بھرا یاد دہانی کا خط بھیج کر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، ساتھ ہی حکام کی یہ بھی سوچ ہے کہ اگر کوئی قدم نہ اٹھایا تو کل کو دیگر پلیئرز بھی ایسے ہی سامنے آکر بیانات داغتے رہیں گے، بورڈ عجیب موڑ پرآ چکا، دیکھنا یہ ہے کہ اہم مسئلہ کیسے حل کیا جاتا ہے۔
ان دنوں کراچی میں قومی ٹی ٹوئنٹی کپ جاری ہے،میں تقریباً روزانہ ہی نیشنل اسٹیڈیم جاتا ہوں، وہاں کی حالت زاردیکھ کر بڑا افسوس ہوا،تمام تر تفصیلات گذشتہ دنوں ''ایکسپریس'' میں شائع ہو چکیں، اسٹیڈیم کے معاملات سے میں نے چیئرمین شہریارخان کو بھی آگاہ کیا جو بہتری کیلیے اقدامات کا یقین دلا چکے ہیں، مگر میں نے دیکھاکہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا، رپورٹ کی اشاعت کے بعد اپنا کچاچٹھا کھلنے پر ناراض بعض اسٹیڈیم آفیشلز مجھے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
ساتھ ہی انھیں یہ بھی زعم ہو گا کہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، انکلوژرز کی چھتیں ٹوٹ رہی ہوں، اسٹیڈیم میں جھاڑیاں اگ گئیں، الیکٹرونک اسکور بورڈ کا حال خراب ہو گیا، گراؤنڈ کے ساتھ پنکچر شاپ اور فرنیچر کا کارخانہ بن چکا، پارکنگ میں گہرے گڑھے موجود ہیں، جم کو اسٹور روم بنا دیا تو کیا ہوا، جتنے صفحات کالے کرنے ہیں کر لو کوئی ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتا، ایسے میں ایک صاحب نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ ''آپ نے تو نیشنل اسٹیڈیم کے اسٹاف کا فائدہ کرا دیا، اب یہ کروڑوں کا بجٹ منظور کرائیں گے اور پھر ان کی موجاں ہی موجاں''۔
ٹی ٹوئنٹی کپ میں ڈسپلن کا یہ حال ہے کہ ایونٹ کے دوران خود پی سی بی آفیشلز سینئر پلیئرز کی گراؤنڈ میں موبائل فون پر گفتگو کراتے رہے،ایک میچ میں ریفری ہی وقت پرنہیں پہنچ پائے، بیشتر وقت ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے رہنے والے ڈائریکٹر انتخاب عالم اکثر مین گیٹ پر کسی اعلیٰ شخصیت کو گاڑی تک چھوڑنے کیلیے آتے نظر آئے، مین آف دی میچ کی تقاریب میں بھی ان کا دیدار ہوا،ایونٹ کی تشہیر نہ ہونے کے برابر ہوئی جس کی وجہ سے شائقین میں دلچسپی پیدا نہ ہو سکی۔
سیمی فائنلز سے قبل تک بیشتر میچز میں اسٹیڈیم خالی رہا،ان دنوں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، ایسے میں ایونٹ کے دوران قومی ہیروز کو ایکشن میں دیکھنے کیلیے کراؤڈ کو اسٹیڈیم جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا، یہ بورڈ کیلیے لمحہ فکریہ ہے، بہت سے لوگوں کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ کراچی میں ایسا کوئی ٹورنامنٹ ہو رہا ہے، کھلاڑی خالی اسٹیڈیم میں چوکے چھکا لگا کر داد کو ترستے رہے جس طرح کراچی میں کوئی مسئلہ ہو تو پولیس کارکردگی دکھانے کیلیے خوب گرفتاریاں کرتی ہے، ویسے ہی بورڈ نے بھی مشکوک ایکشن کیخلاف آئی سی سی کے کریک ڈاؤن سے متاثر ہو کر تھوک کے حساب سے ایسے بولرز پکڑے، اس کیلیے انھوں نے کیا پیمانہ بنایا؟
کون سے آلات استعمال کیے کوئی نہیں جانتا،ان میں سے بیشتر بولرز کو قومی ٹیم کے قریب پھٹکنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا مگر کیریئر پر دھبا لگ گیا،یہ سب کئی برس سے کھیل رہے ہیں کیا پہلے حکام سو رہے تھے جو اب اچانک خیال آیا،اتنے سارے بولرز کا ایکشن اب کون ٹھیک کرے گا، ثقلین نے ایک سعید اجمل کیلیے دس لاکھ روپے لے لیے، ان سب کی تو کروڑوں میں پیکج ڈیل ہوسکتی ہے،بورڈ ویسے ہی کم آمدنی کا رونا روتا رہتا ہے اب اتنے ایکشنز کی جانچ اور انھیں درست کرانے کیلیے پیسہ کہاں سے لائے گا؟
سابق کرکٹرز کے بھی ان دنوں خوب مزے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، جونیئر چیف سلیکٹراور ساؤتھ کے مشیر کی حیثیت سے لاکھوں روپے بٹورنے والے باسط علی ٹی وی پر ڈومیسٹک میچز کی کمنٹری بھی کر رہے ہیں، جب اس بارے میں رپورٹ شائع کرنے کے اگلے دن اسٹیڈیم گیا تو کسی نے کہا کہ باسط آج بھی کمنٹری کر رہے ہیں، میں نے جواب دیا کہ بھائی اگر محض میڈیا رپورٹس سے معاملات ٹھیک ہونے لگتے تو ہمارا ملک آج جنت بن چکا ہوتا، یہاں جس کا جہاں زور چل رہا ہے چلنے دو، ہمارا کام نشاندہی کرنا ہے وہ کرتے رہیں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بعد میں بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں، چیئرمین شہریار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ 80 سال کی عمر میں دوسری بار برطرفی کا داغ ان کے شاندار کیریئر کو بدنما کر دے گا، سارے داغ اچھے نہیں ہوتے ہیں۔
skhaliq@express.com.pk
''آ بیل مجھے مار'' پی سی بی کے معاملات دیکھ کر ہمیشہ یہی کہاوت یاد آتی ہے۔
معاملات کبھی سیدھے انداز سے چل ہی نہیں پاتے، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ حکام ازخود دوسری مصیبت کو دعوت دے دیتے ہیں،اس بار بھی میڈیا دھرنوں و دیگر معاملات کی کوریج میں لگا ہوا تھا کہ بورڈ نے اسے یونس خان کا مصالحہ دار تنازع پیش کر دیا جس پر اب اسپورٹس کے اینکرز و صحافی اور سابق کرکٹرز دل کھول کر تبصرے کر رہے ہیں، یہ معاملہ بورڈ کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس کر آگے بھی اسے خوب تنگ کرنے والا ہے اور اس کی مکمل ذمہ داری سلیکٹرز پر عائد ہوتی ہے، انھوں نے چیئرمین شہریارخان کو بھی اسی مشکل میں ڈال دیا جس کا کچھ عرصے قبل نجم سیٹھی سامنا کر چکے تھے، دیکھتے ہیں کہ بورڈ اب کیسے اس مسئلے سے باہرنکلتا ہے۔
اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یونس خان کی ون ڈے اسکواڈ میں بالکل جگہ نہیں بنتی تھی، وہ 6 سال سے اس طرز میں کوئی سنچری نہیں بنا سکے،آخری چند میچز میں توکارکردگی بالکل ٹیل اینڈرز جیسی رہی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے انھیں ٹیم کے ہمراہ سری لنکا بھیجا، یوں ان کی سابقہ کارکردگی پس پشت چلی گئی، اب اگر وہ اسکواڈ سے باہر ہوئے تو یہی کہا جائے گا کہ ایک میچ میں ناکام رہنے کے بعد ایسا کیا گیا کیونکہ وہ بھتیجے کی وفات کے سبب وطن واپس آگئے تھے،سلیکشن کمیٹی نے مسلسل ناکامیوں کے بعد انھیں پہلے کیوں منتخب کیا۔
اگر وہ ون ڈے کے اچھے پلیئر نہیں تھے تو انھیں باہر ہی رہنے دیا جاتا، اب ایک میچ کھلا کر دوبارہ یاد آیا کہ بھئی اس نے تو کافی عرصے سے مختصر طرز میں پرفارم نہیں کیا، یہ کیا بات ہوئی،پہلے بھی کہہ چکا کہ قومی اسکواڈ کا انتخاب کوئی مشکل کام نہیں،10،12 تو آٹومیٹک چوائس ہوتے ہیں، 3،4 کھلاڑیوں کو ہی چننا ہوتا ہے اور اس کام کیلیے سلیکٹرز کو لاکھوں روپے ملتے ہیں، اس کے باوجود سلیکشن میں غلطیاں ناقابل معافی ہیں،اگر یونس کو ٹیم سے باہر کرنا ہی تھا تو کم از کم ایک سیریز یا میچ اور کھلا دیتے آسٹریلیا کیخلاف بھی ناکام رہتے تو سلیکٹرز پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھاتا، اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف سلیکٹر کو یونس سے یقیناً کوئی ذاتی عناد ہے جو وہ مسلسل ان کے ساتھ ایسا سلوک اختیارکیے جا رہے ہیں۔
نجم سیٹھی اب چیئرمین نہیں رہے اس لیے میں یہ حقائق بھی بیان کر دیتا ہوں کہ یونس خان کے سینٹرل کنٹریکٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوا، اس وقت بھی معین خان نے انھیں بی کیٹیگری میں رکھ کر ایک تنازع چھیڑ دیا، سارا ملبہ چیئرمین بورڈ پر گرنے لگا حالانکہ ان کا معاملے سے براہ راست تعلق نہ تھا، اس حوالے سے بریفنگ میں معین خان نے چیئرمین سے خود کہا تھا کہ ''ہمارے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق شاہدآفریدی بھی بی کیٹیگری میں آرہے تھے مگر ایک تبدیلی کر کے انھیں اے میں لے آئے'' کاش وہ ایسا ہی یونس خان کے ساتھ بھی کر لیتے، پی سی بی میں ویسے ہی انتخاب عالم، ذاکر خان،عثمان واہلہ اور دیگر کئی لوگ برسوں سے چمٹے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
ایسے میں وہ کرکٹر جس کی وجہ سے آمدنی ہوتی ہے اسے کچھ مل جاتا تو کیا مضائقہ تھا،اس وقت جب نجم سیٹھی نے معین خان سے کہا کہ وہ یونس کے معاملے میں میڈیا کی تنقید سنبھال لیں گے تو انھوں نے ہاں میں جواب دیا مگر پھر اعلان ہوتے ہی اگلی فلائٹ سے واپس کراچی چلے گئے اور ساری تنقید کا جواب چیئرمین دیتے رہے، میں نے اس واقعے کا ڈھکے چھپے انداز میں پہلے تھوڑا ذکر کیا تھا اب مختصراً تمام حقائق بیان کرتا ہوں، چند ماہ قبل جب میرا لاہور جانا ہوا تو سابق چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی نے لنچ کی دعوت دی، مقررہ وقت میں جب ان کے دفتر پہنچا تو ہماری ون آن ون ملاقات شروع ہوئی،یونس خان کا ذکر آیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے انھیں اے کیٹیگری نہ دے کر بڑا غلط کیا، نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا،میری یونس سے بات ہو چکی، وہ بغیر سینٹرل کنٹریکٹ کے کھیلتا رہے گا۔
میں نے ان سے کہا کہ اس سے ایک خطرناک روایت شروع ہو جائے گی، پلیئرز کنٹریکٹ سے آزاد ہوں گے تو کسی معاملے میں روک ٹوک نہیں ہو سکے گی، وہ دنیا بھر میں کھیلتے پھریں گے اور جب دل چاہے ملکی نمائندگی سے انکار بھی کر سکیں گے، میں نے دلائل سے انھیں قائل کیا تو سیٹھی صاحب کے چہرے پر تھوڑی پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''اچھا آپ ہی بتائیں اس مسئلے کو کیسے حل کریں'' میں نے ان سے کہا کہ اتنے عظیم بیٹسمین کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے، آپ یہ کہیں کہ چیئرمین نے یونس خان تنازع کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے انھیں اے کییٹیگری دلا دی، ساتھ ہی انھیں اس کے طریقہ کار کا بھی آئیڈیا دیا، یہ سنتے ہی وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ''آپ نے تو اتنا بڑا مسئلہ فوراً ہی حل کرا دیا'' ، چیئرمین نے انٹرکام دے کر بورڈ کی 2 اہم شخصیات کو اپنے کمرے میں بلایا اور میری تجویز بتائی، سیٹھی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ''اس کا پریس ریلیز بھی آپ ہی بنا کر دیں'' چند منٹ بعد چینلز پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ''چیئرمین نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یونس خان کو اے کیٹیگری میں شامل کرا دیا''۔
یوں نجم سیٹھی نے انتہائی عمدگی سے ایک تنازع مزید بڑھنے سے قبل ہی ختم کرا دیا۔ میں پہلے بھی بتا چکا کہ یونس خان سے یقیناً ماضی میں میرا قریبی تعلق رہا مگر کافی عرصے سے اتنی دوریاں ہو چکیں کہ فون پر بات ہوئے بھی زمانہ بیت چکا، میں نے ان کیلیے صرف اس لیے آواز اٹھائی کہ وہ ملک کیلیے کئی کارنامے انجام دے چکے اور ایسے سلوک کے ہرگز مستحق نہ تھے،انھوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران رنز تو خوب بنائے مگر زیادہ دوست نہیں بنا سکے، ان کے رویے کی وجہ سے بعض قریبی افراد بھی دور ہوگئے جن میں معروف کرکٹرز بھی شامل ہیں، اس کا انھیں فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا، آج جب وہ مشکل میں ہیں تو ساتھ دینے کیلیے بہت کم لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ معین خان کو سابقہ غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار محتاط رہنا چاہیے تھا مگر وہ نجم سیٹھی کے بعد اب شہریار خان کو بھی مشکل میں ڈال گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین کو ماضی میں بھی یونس کے تنازع کی وجہ سے ہی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے، اب بھی کہیں مسئلہ مزید بڑھ گیا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹیم مینجمنٹ میں شامل سابق اسٹارز کی فوج کے اپنے کیریئر شایان شان انداز سے ختم نہیں ہوئے، ایسے میں انھیں نئی روایت ڈالتے ہوئے یونس کو باعزت رخصتی کا موقع دینا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا، سب اپنے وقت میں روتے ہوئے گئے مگر اب دوسروں کو ہنسی خوشی رخصت ہونے کا بھی چانس نہیں دے رہے، جیسے سری لنکا نے مہیلا جے وردنے کو آخری سیریز کھیلنے کا موقع دیا اور شایان شان انداز سے رخصت کیا کاش ہم بھی ایسا کرتے، یونس کو بتا دیا جاتا کہ یو اے ای میں آپ کی آخری سیریز ہے۔
بچت ہی کرنی تھی تو چند ہزار کی ایک شیلڈ دے کر گراؤنڈ کا چکر لگوا دیتے، یونس بھی خوش اور شائقین بھی مطمئن ہوتے کہ ان کے ہیرو کو اچھے انداز میں کھیل سے رخصت ہونے دیا گیا، مگر جان بوجھ کر رنگ میں بھنگ ڈالاگیا۔ یونس کو ڈراپ ہونے سے زیادہ افسوس معین خان کی اس بات کا ہے کہ وہ مستقبل کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں،ماضی میں میڈیا سے دور رہنے والے بیٹسمین جب نیشنل اسٹیڈیم میں سامنے آئے تو ان کے منہ سے انگارے نکل رہے تھے جو پی سی بی سے وابستہ بعض افراد کو لپیٹ میں لے کر ان کے کیریئر بھسم کر سکتے ہیں۔
بورڈ اب دوہری مشکل میں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متنازع امور پر لب کشائی کرنے کی وجہ سے یونس کو شوکاز نوٹس بھیجا جاتا مگر اس سے نیا محاذ کھلنے کا ڈر ہے،اس لیے اب تک صرف ایک پیار بھرا یاد دہانی کا خط بھیج کر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، ساتھ ہی حکام کی یہ بھی سوچ ہے کہ اگر کوئی قدم نہ اٹھایا تو کل کو دیگر پلیئرز بھی ایسے ہی سامنے آکر بیانات داغتے رہیں گے، بورڈ عجیب موڑ پرآ چکا، دیکھنا یہ ہے کہ اہم مسئلہ کیسے حل کیا جاتا ہے۔
ان دنوں کراچی میں قومی ٹی ٹوئنٹی کپ جاری ہے،میں تقریباً روزانہ ہی نیشنل اسٹیڈیم جاتا ہوں، وہاں کی حالت زاردیکھ کر بڑا افسوس ہوا،تمام تر تفصیلات گذشتہ دنوں ''ایکسپریس'' میں شائع ہو چکیں، اسٹیڈیم کے معاملات سے میں نے چیئرمین شہریارخان کو بھی آگاہ کیا جو بہتری کیلیے اقدامات کا یقین دلا چکے ہیں، مگر میں نے دیکھاکہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا، رپورٹ کی اشاعت کے بعد اپنا کچاچٹھا کھلنے پر ناراض بعض اسٹیڈیم آفیشلز مجھے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
ساتھ ہی انھیں یہ بھی زعم ہو گا کہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، انکلوژرز کی چھتیں ٹوٹ رہی ہوں، اسٹیڈیم میں جھاڑیاں اگ گئیں، الیکٹرونک اسکور بورڈ کا حال خراب ہو گیا، گراؤنڈ کے ساتھ پنکچر شاپ اور فرنیچر کا کارخانہ بن چکا، پارکنگ میں گہرے گڑھے موجود ہیں، جم کو اسٹور روم بنا دیا تو کیا ہوا، جتنے صفحات کالے کرنے ہیں کر لو کوئی ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتا، ایسے میں ایک صاحب نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ ''آپ نے تو نیشنل اسٹیڈیم کے اسٹاف کا فائدہ کرا دیا، اب یہ کروڑوں کا بجٹ منظور کرائیں گے اور پھر ان کی موجاں ہی موجاں''۔
ٹی ٹوئنٹی کپ میں ڈسپلن کا یہ حال ہے کہ ایونٹ کے دوران خود پی سی بی آفیشلز سینئر پلیئرز کی گراؤنڈ میں موبائل فون پر گفتگو کراتے رہے،ایک میچ میں ریفری ہی وقت پرنہیں پہنچ پائے، بیشتر وقت ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے رہنے والے ڈائریکٹر انتخاب عالم اکثر مین گیٹ پر کسی اعلیٰ شخصیت کو گاڑی تک چھوڑنے کیلیے آتے نظر آئے، مین آف دی میچ کی تقاریب میں بھی ان کا دیدار ہوا،ایونٹ کی تشہیر نہ ہونے کے برابر ہوئی جس کی وجہ سے شائقین میں دلچسپی پیدا نہ ہو سکی۔
سیمی فائنلز سے قبل تک بیشتر میچز میں اسٹیڈیم خالی رہا،ان دنوں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، ایسے میں ایونٹ کے دوران قومی ہیروز کو ایکشن میں دیکھنے کیلیے کراؤڈ کو اسٹیڈیم جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا، یہ بورڈ کیلیے لمحہ فکریہ ہے، بہت سے لوگوں کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ کراچی میں ایسا کوئی ٹورنامنٹ ہو رہا ہے، کھلاڑی خالی اسٹیڈیم میں چوکے چھکا لگا کر داد کو ترستے رہے جس طرح کراچی میں کوئی مسئلہ ہو تو پولیس کارکردگی دکھانے کیلیے خوب گرفتاریاں کرتی ہے، ویسے ہی بورڈ نے بھی مشکوک ایکشن کیخلاف آئی سی سی کے کریک ڈاؤن سے متاثر ہو کر تھوک کے حساب سے ایسے بولرز پکڑے، اس کیلیے انھوں نے کیا پیمانہ بنایا؟
کون سے آلات استعمال کیے کوئی نہیں جانتا،ان میں سے بیشتر بولرز کو قومی ٹیم کے قریب پھٹکنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا مگر کیریئر پر دھبا لگ گیا،یہ سب کئی برس سے کھیل رہے ہیں کیا پہلے حکام سو رہے تھے جو اب اچانک خیال آیا،اتنے سارے بولرز کا ایکشن اب کون ٹھیک کرے گا، ثقلین نے ایک سعید اجمل کیلیے دس لاکھ روپے لے لیے، ان سب کی تو کروڑوں میں پیکج ڈیل ہوسکتی ہے،بورڈ ویسے ہی کم آمدنی کا رونا روتا رہتا ہے اب اتنے ایکشنز کی جانچ اور انھیں درست کرانے کیلیے پیسہ کہاں سے لائے گا؟
سابق کرکٹرز کے بھی ان دنوں خوب مزے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، جونیئر چیف سلیکٹراور ساؤتھ کے مشیر کی حیثیت سے لاکھوں روپے بٹورنے والے باسط علی ٹی وی پر ڈومیسٹک میچز کی کمنٹری بھی کر رہے ہیں، جب اس بارے میں رپورٹ شائع کرنے کے اگلے دن اسٹیڈیم گیا تو کسی نے کہا کہ باسط آج بھی کمنٹری کر رہے ہیں، میں نے جواب دیا کہ بھائی اگر محض میڈیا رپورٹس سے معاملات ٹھیک ہونے لگتے تو ہمارا ملک آج جنت بن چکا ہوتا، یہاں جس کا جہاں زور چل رہا ہے چلنے دو، ہمارا کام نشاندہی کرنا ہے وہ کرتے رہیں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بعد میں بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں، چیئرمین شہریار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ 80 سال کی عمر میں دوسری بار برطرفی کا داغ ان کے شاندار کیریئر کو بدنما کر دے گا، سارے داغ اچھے نہیں ہوتے ہیں۔
skhaliq@express.com.pk