ماورائے آئین
آج کی اپوزیشن کا سب سے بڑا نعرہ یہ ہے کہ ہم ماورائے آئین کسی تبدیلی کو کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔
ہماری سیاسی تاریخ میں1977 کی تحریک جمہوریت کے نام پر ایک ایسا کلنک ہے جس نے ہماری جمہوری تاریخ کے چہرے کو ہمیشہ کے لیے بدصورت بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج جو اکابرین جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کے دعوے کر رہے ہیں یہ اکابرین 1977کی تحریک کی وہ باقیات ہیں جو 1977 کی تحریک کے حقائق سے یا تو ناواقف ہیں یا واقفیت رکھنے کے باوجود دانستہ طور پر اسے پس پشت ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آج کی اپوزیشن کا سب سے بڑا نعرہ یہ ہے کہ ہم ماورائے آئین کسی تبدیلی کو کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جمہوری معاشروں میں بلاشبہ اس قسم کے نعرے اور دعوے بہت وزن رکھتے ہیں لیکن جس ملک میں کبھی جمہوریت کا نام و نشان نہ رہا ہو ایسے ملک میں اس قسم کے نعرے انتہائی مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے 1977 کی تحریک کو سمجھنا ضروری ہے تا کہ اس ملک کے عوام کو یہ اندازہ ہو سکے کہ 1977 میں جمہوریت کے نام پر کتنا بڑا فراڈ ہو چکا ہے اور آج کتنا بڑا فراڈ ہو رہا ہے۔
1977کی تحریک کا اسپانسر امریکا تھا۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایک جوہری طاقت بن جائے۔ بھٹو صاحب جوہری ہتھیار یعنی ایٹم بم بنانے کے لیے جس تسلسل کے ساتھ پیش رفت کر رہے تھے، امریکا اس سے بہت پریشان تھا۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جیسے کسی مسلم ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آ جائیں اور ان کے غلط استعمال کا خطرہ پیدا ہو۔
اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین، کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے تھے اس پس منظر میں کسی مسلم ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آ جائیں اور کوئی مسلم ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے تو کسی مرحلے پر اس کے استعمال کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان محاذ آرائی کا جو خطرناک سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا یہ محاذ آرائی کسی وقت ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
یہی وہ خطرات تھے جس کا ازالہ کرنے کے لیے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان آئے تھے کہ بھٹو کو ایٹمی میدان میں پیش رفت سے روکیں۔ لیکن بھٹو نے کسنجر کی بات ماننے اور ایٹم بم بنانے کی کوششوں سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ بھٹو کا یہ انکار بین الاقوامی دادا کے لیے ایسی گستاخی تھا کہ بھٹو کو اس گستاخی کی سخت سزا دینا ضروری تھا۔ سو ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ تمہیں اس گستاخی کی سزا میں نشان عبرت بنا دیں گے۔ بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ کی اس دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ اگر ہمیں گھاس بھی کھانا پڑے تو کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
یہ وہ اصل پس منظر تھا جس میں 9 ستاروں کی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کی بظاہر جو وجہ بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ بھٹو نے پنجاب کی چند سیٹوں پر دھاندلی کروائی ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے تھے کہ بھٹو کی پارٹی مجموعی طور پر انتخابات جیت چکی تھی لیکن چونکہ بھٹو کو نشان عبرت بنانا امریکا کے لیے ضروری تھا سو امریکا نے 9 ستاروں کی اس تحریک پر ڈالروں کی اتنی شدید بارش کی کہ ہر سیاسی جماعت، ہر مذہبی جماعت کا دامن ڈالروں سے بھر گیا اور کارکنوں کی جیبوں میں بھی ڈالر آ گئے۔
یہ ڈالر تحریک کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن امریکا نے 9 ستاروں کو ماورائے آئین بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا ٹاسک دے دیا اور اس انتہائی غیر جمہوری تحریک کی قیادت نے جلاؤ گھیراؤ کا وہ سلسلہ شروع کیا جو آخرکار ضیا الحق کی فوجی مداخلت اور بھٹو حکومت کے خاتمے پر جا کر رکا۔ امریکا کی رگ حیوانیت کو بھٹو حکومت کے خاتمے پر بھی تسکین نہ ہوئی اور اسے پھانسی پر لٹکا کر کسنجر نے اپنی ''نشان عبرت'' بنانے کی دھمکی کو سچ کر دکھایا اور یہ سب ماورائے آئین ہوا۔
نیرنگی سیاست ملاحظہ ہو کہ جس امریکا اور اس کے ایجنٹوں نے 1977میں ماورائے آئین ایک انتہائی متشدد تحریک چلا کر بھٹو کی جمہوریت کا خاتمہ کیا اسی تحریک کی سجادہ نشین باقیات آج اس حکومت کے خلاف ماورائے آئین کسی تحریک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے خلاف خود ان جمہوریت کے پاسبانوں کو بھی یہ شکایت ہے کہ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
1977 میں موجودہ جمہوریت نوازوں کے آبا نے ایک انتخابات جیتی ہوئی جماعت کے خلاف ماورائے آئین تحریک چلائی تھی، آج ان کی چھوڑی ہوئی یہ باقیات حکومت کے خلاف آئین کے اندر رہنے والی دھرنا تحریک پر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس دھاندلی کی پیداوار حکومت کو بچانے کا ''آئینی کردار'' ادا کر رہی ہے۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1977 کی ''جمہوری تحریک'' اور آج کی جمہوریت بچاؤ تحریک کی قیادت جمہوریت سے کس قدر مخلص ہے؟ بھٹو حکومت کے خلاف چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کو برداشت نہ کرنے اور بھٹو کی حکومت کو ماورائے آئین جا کر ختم کرنے والے جمہوری اکابرین نے نہ صرف ضیا الحق کے مارشل لا کو خوشدلی سے قبول کیا بلکہ مقام شرم بلکہ مقام عبرت ہے کہ یہ جمہوری اوتار اس فوجی حکومت میں شامل ہوگئے۔
1977 کے سیاسی اور جمہوری اوتاروں کی جمہوریت پسندی کا اندازہ ان کی ضیا الحق کی فوجی حکومت میں شمولیت سے لگایا جا سکتا ہے اور 2014کی جمہوریت بچاؤ تحریک کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے جمہوریت بچاؤ تحریک کے اکابرین میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو 2013کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو قبول نہ کرتا ہو سب کو دھاندلی کی شکایت بھی ہے اور یہ سب دھاندلی کے محافظ بھی بنے ہوئے ہیں۔
1977کی ماورائے آئین تحریک ماورائے اخلاق اس لیے بن گئی کہ تحریک کے اکابرین ضیا الحق کی حکومت میں شامل ہو گئے اور ڈالروں کا استعمال آئین کے اندر رہتے ہوئے کرتے رہے اور2014کے جمہوریت بچاؤ اکابرین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ مسئلہ جمہوریت بچاؤ کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ''مال بچاؤ'' کا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسی مال بچاؤ تحریک نے اجتماع ضدین کو اس طرح ایک کر کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مثال نہیں ملتی۔
ہمارے جمہوری لوٹ مار کا کلچر اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اہل سیاست کا 95 فیصد حصہ اس کلچر میں رنگا ہوا ہے اور جمہوری بچاؤ یا مال بچاؤ کے علاوہ اس نواز الیون کا دوسرا مقصد یہ کہا جا رہا ہے کہ اس تاریخی اتحاد کے ذریعے مال بچاؤ تحریک کے اکابرین تیسری قوت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی طرف بری نظر نہ ڈالیں ہم سب جمہوریت کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں، لیکن انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ہماری دعا ہے کہ عمران اور قادری سے ماورائے آئین کوئی حرکت سرزد نہ ہو۔
آج کی اپوزیشن کا سب سے بڑا نعرہ یہ ہے کہ ہم ماورائے آئین کسی تبدیلی کو کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جمہوری معاشروں میں بلاشبہ اس قسم کے نعرے اور دعوے بہت وزن رکھتے ہیں لیکن جس ملک میں کبھی جمہوریت کا نام و نشان نہ رہا ہو ایسے ملک میں اس قسم کے نعرے انتہائی مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے 1977 کی تحریک کو سمجھنا ضروری ہے تا کہ اس ملک کے عوام کو یہ اندازہ ہو سکے کہ 1977 میں جمہوریت کے نام پر کتنا بڑا فراڈ ہو چکا ہے اور آج کتنا بڑا فراڈ ہو رہا ہے۔
1977کی تحریک کا اسپانسر امریکا تھا۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایک جوہری طاقت بن جائے۔ بھٹو صاحب جوہری ہتھیار یعنی ایٹم بم بنانے کے لیے جس تسلسل کے ساتھ پیش رفت کر رہے تھے، امریکا اس سے بہت پریشان تھا۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جیسے کسی مسلم ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آ جائیں اور ان کے غلط استعمال کا خطرہ پیدا ہو۔
اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین، کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے تھے اس پس منظر میں کسی مسلم ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آ جائیں اور کوئی مسلم ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے تو کسی مرحلے پر اس کے استعمال کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان محاذ آرائی کا جو خطرناک سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا یہ محاذ آرائی کسی وقت ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
یہی وہ خطرات تھے جس کا ازالہ کرنے کے لیے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان آئے تھے کہ بھٹو کو ایٹمی میدان میں پیش رفت سے روکیں۔ لیکن بھٹو نے کسنجر کی بات ماننے اور ایٹم بم بنانے کی کوششوں سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ بھٹو کا یہ انکار بین الاقوامی دادا کے لیے ایسی گستاخی تھا کہ بھٹو کو اس گستاخی کی سخت سزا دینا ضروری تھا۔ سو ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ تمہیں اس گستاخی کی سزا میں نشان عبرت بنا دیں گے۔ بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ کی اس دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ اگر ہمیں گھاس بھی کھانا پڑے تو کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
یہ وہ اصل پس منظر تھا جس میں 9 ستاروں کی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کی بظاہر جو وجہ بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ بھٹو نے پنجاب کی چند سیٹوں پر دھاندلی کروائی ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے تھے کہ بھٹو کی پارٹی مجموعی طور پر انتخابات جیت چکی تھی لیکن چونکہ بھٹو کو نشان عبرت بنانا امریکا کے لیے ضروری تھا سو امریکا نے 9 ستاروں کی اس تحریک پر ڈالروں کی اتنی شدید بارش کی کہ ہر سیاسی جماعت، ہر مذہبی جماعت کا دامن ڈالروں سے بھر گیا اور کارکنوں کی جیبوں میں بھی ڈالر آ گئے۔
یہ ڈالر تحریک کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن امریکا نے 9 ستاروں کو ماورائے آئین بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا ٹاسک دے دیا اور اس انتہائی غیر جمہوری تحریک کی قیادت نے جلاؤ گھیراؤ کا وہ سلسلہ شروع کیا جو آخرکار ضیا الحق کی فوجی مداخلت اور بھٹو حکومت کے خاتمے پر جا کر رکا۔ امریکا کی رگ حیوانیت کو بھٹو حکومت کے خاتمے پر بھی تسکین نہ ہوئی اور اسے پھانسی پر لٹکا کر کسنجر نے اپنی ''نشان عبرت'' بنانے کی دھمکی کو سچ کر دکھایا اور یہ سب ماورائے آئین ہوا۔
نیرنگی سیاست ملاحظہ ہو کہ جس امریکا اور اس کے ایجنٹوں نے 1977میں ماورائے آئین ایک انتہائی متشدد تحریک چلا کر بھٹو کی جمہوریت کا خاتمہ کیا اسی تحریک کی سجادہ نشین باقیات آج اس حکومت کے خلاف ماورائے آئین کسی تحریک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے خلاف خود ان جمہوریت کے پاسبانوں کو بھی یہ شکایت ہے کہ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
1977 میں موجودہ جمہوریت نوازوں کے آبا نے ایک انتخابات جیتی ہوئی جماعت کے خلاف ماورائے آئین تحریک چلائی تھی، آج ان کی چھوڑی ہوئی یہ باقیات حکومت کے خلاف آئین کے اندر رہنے والی دھرنا تحریک پر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس دھاندلی کی پیداوار حکومت کو بچانے کا ''آئینی کردار'' ادا کر رہی ہے۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1977 کی ''جمہوری تحریک'' اور آج کی جمہوریت بچاؤ تحریک کی قیادت جمہوریت سے کس قدر مخلص ہے؟ بھٹو حکومت کے خلاف چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کو برداشت نہ کرنے اور بھٹو کی حکومت کو ماورائے آئین جا کر ختم کرنے والے جمہوری اکابرین نے نہ صرف ضیا الحق کے مارشل لا کو خوشدلی سے قبول کیا بلکہ مقام شرم بلکہ مقام عبرت ہے کہ یہ جمہوری اوتار اس فوجی حکومت میں شامل ہوگئے۔
1977 کے سیاسی اور جمہوری اوتاروں کی جمہوریت پسندی کا اندازہ ان کی ضیا الحق کی فوجی حکومت میں شمولیت سے لگایا جا سکتا ہے اور 2014کی جمہوریت بچاؤ تحریک کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کے جمہوریت بچاؤ تحریک کے اکابرین میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو 2013کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو قبول نہ کرتا ہو سب کو دھاندلی کی شکایت بھی ہے اور یہ سب دھاندلی کے محافظ بھی بنے ہوئے ہیں۔
1977کی ماورائے آئین تحریک ماورائے اخلاق اس لیے بن گئی کہ تحریک کے اکابرین ضیا الحق کی حکومت میں شامل ہو گئے اور ڈالروں کا استعمال آئین کے اندر رہتے ہوئے کرتے رہے اور2014کے جمہوریت بچاؤ اکابرین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ مسئلہ جمہوریت بچاؤ کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ''مال بچاؤ'' کا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسی مال بچاؤ تحریک نے اجتماع ضدین کو اس طرح ایک کر کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مثال نہیں ملتی۔
ہمارے جمہوری لوٹ مار کا کلچر اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اہل سیاست کا 95 فیصد حصہ اس کلچر میں رنگا ہوا ہے اور جمہوری بچاؤ یا مال بچاؤ کے علاوہ اس نواز الیون کا دوسرا مقصد یہ کہا جا رہا ہے کہ اس تاریخی اتحاد کے ذریعے مال بچاؤ تحریک کے اکابرین تیسری قوت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی طرف بری نظر نہ ڈالیں ہم سب جمہوریت کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں، لیکن انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ہماری دعا ہے کہ عمران اور قادری سے ماورائے آئین کوئی حرکت سرزد نہ ہو۔