مہلت زیادہ نہیں

ایشین بینک نے بھی اپنی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اس بحران کو جلد از جلد۔۔۔۔

اسٹیٹ بینک نے متنبہ کیا ہے کہ سیاسی بحران اور سیلاب معیشت کے لیے خطرہ ہیں اور اس سے ملک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ سیلاب کے باعث قیمتوں پر دبائو آ رہا ہے اور فوڈ سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ نے بھی کہا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال اور سیاسی بحران کا معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ طویل ہوتا ہوا سیاسی بحران اندرون و بیرون ملک ہر کسی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ موڈیز پہلے ہی وارننگ دے چکا ہے کہ بحران کی طوالت پاکستان کی ریٹنگ گرا سکتی ہے۔

ایشین بینک نے بھی اپنی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اس بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے ورنہ دوسری صورت میں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی بحران جوں کا توں ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے دھرنا جاری رہے گا۔ اب تو ان دھرنوں میں اکتوبر کے دوسرے تیسرے ہفتے میں ان کے دونوں بیٹے بھی شامل ہو جائیں گے۔ جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے نام پر وقت ضایع اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے کیونکہ سیاسی جرگے کے پاس ان کے مطالبات ماننے کا اختیار ہی نہیں ہے بلکہ بقول ان کے یہ اختیار شریف فیملی کے اندر ہے۔

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی اس صورت حال پر رنجیدہ ہیں کہ اگر انھوں نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران سے کچھ منوایا بھی تو اسے وزیر اعظم نواز شریف نے ماننے سے انکار کر دیا۔ گورنر صاحب پاکستانی عوام کی حالت زار پر رنجیدہ ہیں کہ عوام کرپشن، بھوک، بدحالی، بے روزگاری اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ بھوک اور غربت نے خواتین کو اپنی عزتوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں پر نہ صرف قبضے ہو رہے ہیں بلکہ کسی کارروائی کی صورت میں ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ قانون بالکل بے بس ہے۔

انھوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ پچھلے 15 ماہ انھوں نے بڑے کرب میں گزارے ہیں کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستانی عوام کی حالت زار کے حوالے سے یہ تمام وہی باتیں ہیں جو ہر روز شام کو عمران اور قادری صاحب دہراتے ہیں۔ گورنر صاحب حکومت کے قریبی و خاص آدمی ہیں۔ انھوں نے پاکستانی عوام کے جن آلام و مصائب کا ذکر کیا ان کی سچائی سے عام آدمی بھی باخبر ہے۔ ان کی باتوں میں کوئی مبالغہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دھرنوں میں ایک ہی تقریر ہے جو ہزار مرتبہ دہرائی جا چکی ہے۔

ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو ایک ہی (سبق) بات کو اتنی مرتبہ دہرائے کہ ذہن نشین ہوجائے۔ یہ بار بار دہرایا ہوا سبق ہی ہے جس کے اثرات طیارے اور وی آئی پی کلچر کے خلاف مزاحمت کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اب پاکستانی عوام کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ آئین کیا ہے اور اس کے ابتدائی چالیس آرٹیکلز جن کا تعلق عوام کے حقوق سے ہے۔ ایک سازش کے تحت طویل مدت سے کیوں معطل رکھے گئے ہیں جب کہ ارکان پارلیمنٹ اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں میں بمشکل دس فیصد اضافہ ہوتا ہے جب عوام کے نمایندوں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ارکان پارلیمنٹ کی عزت میں کچھ اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کے الٹ ہی ہوا ہے۔ میرا عوام سے براہ راست رابطہ ہے۔ مجھے ٹیلیفون پاکستان کے تمام صوبوں ہر علاقے اور ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں کہ ہمیں اس جمہوریت سے نفرت ہے۔ ہمیں اس جمہوریت نے کیا دیا ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی غریبوں پر مشتمل ہے لیکن گیلپ سروے کچھ اور ہی کہانی بتا رہا ہوتا ہے۔ غیر مقبول ہوتے حکمرانوں کو اس سروے کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ وہ مقبولیت کی بلندیوں کا سفر کر رہے ہیں۔

سروے میں شریک افراد ساڑھے تین ہزار سے کم ہوتے ہیں اور ان مٹھی بھر افراد کی رائے 20 کروڑ عوام کی نمایندگی کرتی ہوئی دکھائی جاتی ہے۔ ہے نا کمال کی بات۔ کیا ان سروے کرنے والوں کو پتہ ہے کہ ایک سیکیورٹی گارڈ جس کی تنخواہ 8 ہزار ہے۔ اگر اس کا بجلی کا بل ساڑھے پانچ ہزار آ جائے تو وہ کہاں سے اس بل کو ادا کرے گا۔ وہ کہتا ہے کہ میری تنخواہ اتنی کم ہے کہ مجھے لوگ قرضہ دیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ میرا اوور ٹائم دس روپے گھنٹہ ہے اس طرح چار گھنٹے مزید کام کر کے چالیس روپے کماتا ہوں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو اس دور میں مزدوروں کا جو استحصال ہو رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔


بڑھتی ہوئی مہنگائی، مہنگی بجلی اور انتہائی قلیل تنخواہ نے غریب کے سامنے بس ایک خودکشی کا ہی راستہ چھوڑا ہے۔ لاہور اور اس کے گرد و نواح کی فیکٹریوں میں آٹھ گھنٹے مزدوری کا معاوضہ 5 سے 6 ہزار دیا جاتا ہے۔ 8 ہزار اس وقت ملتے ہیں جب مزدور بارہ گھنٹے کام کرے۔ کوئی چھٹی نہیں۔ اگر چھٹی کی جائے تو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ باامر مجبوری زیادہ چھٹیاں کی جائیں تو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ مجھے اس طرح کے بے شمار ٹیلیفون ہر ہفتے آتے ہیں جس میں وہ جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

قصور جمہوریت کا نہیں ان حکمرانوں کا ہے جو امیر سے امیر تر ہوئے جاتے ہیں جب کہ غریبوں کے فاقے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو غریب اب بھی ملک و قوم کے لیے پیٹ پر دو پتھر باندھنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ حکمران بھی اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھ لیں لیکن یہاں تو عجب ماجرا ہے۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ نام جمہوریت کا ہے لیکن اطوار شاہانہ ہیں۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی کا نام ہے' یہ سول آمریت نہیں ہونی چاہیے۔

گھر کے بھیدی بتاتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر زیادہ سے زیادہ دو درجن افراد نے اس ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ سارا ملک ان کی مٹھی میں ہے۔ ایک پتا بھی ان کی مرضی کے خلاف ہل نہیں سکتا۔ ان مٹھی بھر افراد کے سامنے اسمبلی سینیٹ اور دیگر تمام ادارے بے دست و پا ہیں۔ جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اتنی توفیق بھی نہیں کہ اس ظلم کے خلاف کوئی تحریک ہی چلا سکیں۔ شاید یہ ملی بھگت یا خاموش رضا مندی ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے یہ پیٹ بھرے کیا جانیں کہ مسلسل فاقے کیا ہوتے ہیں۔ انھیں تو بس ہرا ہی نظر آتا ہے۔ لمبی لمبی کتابی باتیں کرنا بقراطی جھاڑنا، فلسفے بگھارنا بہت آسان لیکن فاقے کاٹنا بہت مشکل۔

حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف پانچ فیصد بڑے زمینداروں کے قبضے میں 65 فیصد زرعی اراضی ہے جب کہ 67 فیصد زرعی گھرانوں کے پاس کوئی زرعی زمین ہی نہیں۔ اتنی بڑی تعداد بڑے زمینداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ ان بڑے زمینداروں کے زرعی غلام ہیں۔ یہ زرعی غلام اپنی مرضی سے انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدوار نہیں چن سکتے۔ سچ یہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام میں کسان ہاری کی حیثیت زمینداروں کے مویشیوں سے بھی کمتر ہوتی ہے۔

کیا جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر پاکستان میں شفاف دھاندلی سے پاک انتخابات ہو سکتے ہیں۔ یقینی طور پر نہیں۔ یہ رپورٹ کئی دہائیاں پرانی نہیں بلکہ اسی مہینے ستمبر میں جاری کی گئی جو پاکستان کی تازہ ترین سماجی معاشی سیاسی صورتحال کی المناک عکاسی کرتی ہے۔ 800 خاندان جمہوریت کا لبادہ اوڑھے تمام وسائل پیداوار پر قابض ہو کر غریب عوام کا پچھلے 67 سالوں سے اس طرح خون چوس رہے ہیں کہ گیارہ کروڑ عوام خط غربت (خط فاقہ) سے نیچے گر گئے ہیں۔ ان کی رسی ضرور دراز ہے مگر قدرت کی طرف سے ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے... مہلت زیادہ نہیں۔

2 اکتوبر سے 11 اکتوبر تک ''موسم'' کی تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔

سیل فون:0346-4527997
Load Next Story