چار طرفہ یلغار

عمران کے سن گیارہ کے سرد موسم کے جلسے نے خواب کے چکنا چور ہونے کا خطرہ پیدا کردیا ۔۔۔۔۔۔۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate September 29, 2014
[email protected]

عمران خان کے دھرنوں اور جلسوں نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ پچھہتر لاکھ ووٹ اور بڑے بڑے شہروں میں مقبولیت نے جمے جمائے سیاستدانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔لاہور اور پشاور کے بعد کراچی میں عوامی مقبولیت کے ثبوت نے تھری ان ون کی کیفیت کا سماں باندھ دیا۔ نواز شریف، فضل الرحمن اور الطاف حسین کو ایک مقام پر لاکر رکھ دیا ہے۔

سن گیارہ میں لاہور کے جلسے کے بعد میاں برادران نے ایک ردعمل کا اظہار کیا۔ سن تیرہ کے انتخابی نتائج کے بعد عمران کو صوبائی حکومت سے محروم کرنے کے لیے ایک مزاحمت مولانا کی جانب سے ہوئی تھی۔ سن چودہ کے ستمبر میں دوسرے جلسے پر تحریک انصاف کو مہمان کہہ کر مدافعت کا اظہار الطاف حسین کی جانب سے ہوا۔ سندھیوں میں مقبولیت ملی تو چوتھا جوابی حملہ بلاول کی جانب سے ہونے کی امید ہے۔ یوں عمران خان کی تحریک انصاف چار طرفہ حملوں کو کس طرح سہہ پائے گی؟اگر ایک ہتھیار ہوا تو یلغار جھیل پائے گی۔

اس کشمکش کو پہچاننے کے لیے ہمیں شیر، کتاب، پتنگ اور تیر کا ماضی جاننا ہوگا۔ بلا رنز اگل پائے گا یا نہیں؟ مستقبل کے اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں چاروں قوتوں کے ماضی کا نظارہ کرنا ہوگا۔ نواز شریف 81 میں صوبائی وزیر بنے۔ چار سال بعد غیر جماعتی انتخابات کی بدولت پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ ٹریکٹر کا انتخابی نشان ملا تو زندہ دلوں کو لاہور کی سڑکوں پر جگہ جگہ ہل چلانے والے انجن دکھائی دیے۔ ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے'' والے تاریخی بیان نے میاں برادران کو پاکستانی سیاست میں اونچی پرواز کے لیے بال و پر مہیا کر دیے۔

اپریل 26 کا شاندار استقبال اور ڈھائی برسوں بعد بے نظیر کے لیے وزارت عظمیٰ کا تاج بھی شریفوں سے تخت پنجاب نہ لے سکا۔ نوے کے انتخابات کی دو تہائی اکثریت کا سبب پنجاب کا نواز شریف پر اعتماد تھا۔ تین برسوں بعد تخت لاہور شریفوں کے ہاتھوں سرکا لیکن اس نے پیپلزپارٹی کا بننا منظور نہ کیا۔ 97 کی دو تہائی اکثریت نے میاں برادران کو پاکستان کی مقبول و طاقتور ترین جوڑی بنا دیا۔ صدی کے خاتمے سے پہلے مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی، جلاوطنی، واپسی اور پھر پنجاب میں حکومت۔ پھر خواہش کہ تیرہ سال پہلے والی جوڑی کی بحالی۔

عمران کے سن گیارہ کے سرد موسم کے جلسے نے خواب کے چکنا چور ہونے کا خطرہ پیدا کردیا، ڈیڑھ سال کی کوششوں کی بدولت میاں برادران خواب کی تعبیر پانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ کچھ پاگئے جو کچھ ان کے پاس مشرف کی آمد سے پہلے تھا۔ بہت کچھ حاصل تو ہوا لیکن عمران کے دھرنے اور جلسوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اب نہ جانے کیا ہو لیکن یہ طے ہے کہ آنے والے انتخابات میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن سب سے حقیقت پسند سیاستدان مانے جاتے ہیں۔ عمران کی مقبولیت جے یو آئی کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ صوبے میں حکومت کرنے والے سیاستدان پریشان ہوگئے۔

الزامات کی بھرمار بھی پٹھانوں کو کپتان سے دور نہ کرسکی۔ لاہور اور پشاور میں دن بدن مقبول ہونے والے کپتان نے میاں و مولانا کو یکجا ہونے پر مجبور کردیا۔ دھرنوں اور جلسوں کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن یہ طے ہے کہ اب رائے ونڈ اور ڈیرہ سے گونجنے والی یکساں قسم کی آوازیں عمران کے خلاف ہوں گی۔ الطاف حسین نے جامعہ کراچی میں 78 میں طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔ چھ سال بعد ایم کیو ایم نے جنم لیا۔ جدوجہد کو پہلا عشرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کراچی و حیدرآباد کے میئرز الطاف حسین کی پارٹی کے تھے۔ اب تک کے سات انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندگی ایم کیو ایم کے حصے میں آئی۔

دونوں صدیوں کے تیرہ تیرہ برسوں میں کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ تھی۔ ایسے میں سن تیرہ کے انتخابات آگئے۔ قومی اسمبلی میں بلے کے انتخابی نشان پر لڑنے والوں نے ایک اور صوبائی انتخابات میں دو سیٹیں جیتیں۔ یہ تو کوئی ہندسے قابل ذکر نہ تھے لیکن آٹھ لاکھ ووٹوں نے سب کو چونکا دیا۔ نہ کراچی میں انتخابی مہم اور نہ نمایاں امیدوار۔ نہ کوئی تجربہ اور نہ عمدہ تنظیم۔ ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد سے پچیس ہزار ووٹوں نے ''نائن زیرو'' کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ کہیں شہر قائد کروٹ تو نہیں لے رہا۔

وہ کراچی جو پہلے بیس سال مسلم لیگ، اگلے دو عشرے جماعت اسلامی اور اب پچیس سال ایم کیو ایم کو دے چکا ہے۔ کچھ ہو نہ ہو یہ بات طے ہے کہ اگلے انتخابات میں پتنگ اور بلے کے درمیان کراچی کی قیادت کے حصول کے لیے زوردار مقابلہ ہوگا۔ نواز شریف، فضل الرحمن اور الطاف حسین کے مضبوط قلعوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے عمران اب چوتھے قلعے کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔ اندرون سندھ گزشتہ چار عشروں سے نوڈیرو کو اپنا ''سیاسی قبلہ'' بنائے ہوئے ہے۔ سندھی ٹوپی اور اجرک اوڑھے ووٹر ''جئے بھٹو'' کا نعرہ لگا کر تیر پر نشان لگانے کے سوا اور کچھ سوچنے کی تاریخ نہیں رکھتا۔

سندھی پہلے بھٹو اور اس کے بعد اس کی بیٹی اور پھر داماد و نواسے پر اعتماد کرتا رہا ہے۔ کیا اب لاڑکانہ، دادو، سکھر، ٹھٹھہ اور میرپورخاص کے علاوہ لیاری کے لوگ کوئی دوسرا محبوب دل میں بسائیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔ پچھلے بیس برسوں میں سندھیوں کی مڈل کلاس نے جنم لیا ہے۔ پڑھی لکھی، آزاد اور دنیا سے آگاہ نئی نسل۔ وہ کچھ سوچ رہی ہے؟ بھٹو و بے نظیر کی شہادتوں کے بعد ووٹ دینا تاریخ کا حصہ ہے۔ اب سندھی عقیدت کے صحرا سے نکل کر حقیقت کے جزیرے پر اتریں گے؟ اگر شاہ لطیف کی دھرتی پر عمران کو کسی بڑے جلسے میں سندھی ٹوپی اور اجرک پہنا دی گئی تو؟

کپتان چار طرفہ گھیرے میں آجائیں گے۔ عمران کیا لاڑکانے سے چلنے والے تیر، کراچی سے اڑنے والی پتنگ، ڈیرہ سے آنے والی کتاب اور رائے ونڈ سے دھاڑنے والے شیر کی للکار سہہ سکیں گے؟ بنی گالا سے ایک کام ہوا تو یلغار کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا عمران صرف عوامی مقبولیت کی بنیاد پر چار بڑی قوتوں کا مقابلہ کرسکیں گے؟ ایک کام نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ لاہور کے سرمائے، کراچی کی اعلیٰ تنظیم، ڈیرہ سے فتوے اور لاڑکانہ کی عقیدت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ صرف عمدہ خیالات، خوب صورت تقریروں، شاندار نعروں اور بے داغ ماضی نمٹ سکتے ہیں چار مختلف سیاسی پارٹیوں سے؟ منظم پارٹی اور تربیت یافتہ کارکنان ہی جھیل سکتے ہیں آنے والی چار طرفہ یلغار۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔