چوبیس فونز کی بدولت
کچھ سال پہلے ایپل کمپنی نے رول نکالا تھا کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر آپ کوئی بھی نیا آئی پیڈ یا آئی فون نہیں خرید سکتے۔۔۔
کچھ دن پہلے ایپل کمپنی کا آئی فون ریلیز ہوا، تمام دنیا میں دھوم مچ گئی مگر وہ جگہ جہاں آئی فون کے سب سے زیادہ چاہنے والے ہیں وہ امریکا نہیں بلکہ چائنا ہے، جی ہاں چائنا ہی وہ ملک ہے جہاں لوگ آئی فون لینے کے لیے اپنی Kidneys بیچ دیتے ہیں اور اگر کسی کا آئی فون کھو جائے تو وہ اس کے غم میں خودکشی کرنے تک سے نہیں چوکتے۔
چائنا جہاں دنیا کے دو بلین لوگ رہتے ہیں، یہ وہ جگہ ہے جہاں کی مارکیٹ کسی بھی بزنس کے کے لیے دنیا کی بہترین مارکیٹ ثابت ہوسکتی ہے وہیں بیشتر بڑی کمپنیاں چائنا میں بزنس کرنے سے ڈرتی ہیں۔گوگل، فیس بک اور یو ٹیوب ان کچھ کمپنیوں میں سے ہیں جو چائنا میں اپنا کاروبار بند کرچکی ہیں، وجہ ہے چائنا والوں کا کسی بھی چیز کو فوراً کاپی کرلینا، چاہے وہ پروڈکٹ ہو یا کوئی ویب سائٹ۔
جہاں ایپل کے آئی فون چائنا میں سب سے زیادہ مشہور ہیں وہیں آئی فون کی ریلیز وہاں امریکا کے چھ مہینے بعد کی جاتی ہے، اسی لیے آئی فون کی اسمگلنگ اس وقت چائنا میں ملینز آف ڈالرز کا بزنس ہے، چائنا سے سب سے قریب جگہ جہاں امریکا کے ساتھ ہی آئی فون ریلیز ہوتا ہے وہ ہے ہانگ کانگ لیکن وہاں ایپل کے صرف چار اسٹورز ہیں جہاں اسٹاک محدود ہوتا ہے، مانگ کو پورا کرنے کے لیے اسمگلرز آسٹریلیا، امریکا اور انگلینڈ کا رخ کرتے ہیں۔
امریکا کے ایپل اسٹورز میں یہ ایک حیران کن مسئلہ بن چکا ہے کہ جب بھی کوئی نیا آئی فون یا آئی پیڈ ریلیز کیا جاتا ہے تو امریکن اسٹورز کے باہر سیکڑوں چائنیز لوگ لائن لگالیتے ہیں۔ کیوں کہ امریکا میں دو فون فی کسٹمر ہے، اس لیے ہر شخص صرف دو فون ہی خرید پاتا ہے۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب اس شخص کو اسٹور کے اندر جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ کیش میں دو فونز خریدتا ہے، باہر نکل کر وہ کھڑے شخص کو رسید کے ساتھ وہ دونوں فون دے دیتا ہے اور پھر لائن میں لگ جاتا ہے۔
ہر شہر میں اسٹور کے باہر یہ چائنیز بڑی تعداد میں کھڑے رہتے ہیں اور بار بار جاکر کیش پر یہ فون خریدتے ہیں، امریکا کے مقامی لوگ اس چیز سے بہت تنگ ہیں جو لوگ ایپل اسٹورز کے آس پاس رہتے ہیں وہ ان کی پھیلائی گندگی پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ کسی اور کو یہ آئی فون نہیں مل پاتے، کیوں کہ چائنیز تمام فون خرید لیتے ہیں۔ایپل کمپنی کے رولز کے مطابق کوئی بھی کسی کو آئی فون خریدنے سے اس لیے منع نہیں کرسکتا کہ وہ کسی مخصوص قوم سے تعلق رکھتا ہے یعنی اگر چائنیز ہے۔ ہر اسٹور کے ملازم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں بول پارہا ہے اور بار بار کیش دے کر فون خرید رہا ہے وہ فون کے ساتھ کیا کرے گا۔
کچھ سال پہلے ایپل کمپنی نے رول نکالا تھا کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر آپ کوئی بھی نیا آئی پیڈ یا آئی فون نہیں خرید سکتے ہیں لیکن اس پر کئی ایسے لوگوں نے قانونی دعوے دائر کردیے جن کے پاس کریڈٹ کارڈ تو نہیں تھے لیکن وہ کیش پر یہ آئٹم خریدنا چاہتے تھے، اسی لیے وہ رول ختم کردیاگیا، ایپل کے تمام فونز چائنا میں ہی بنتے ہیں، بہت ہائی سیکیورٹی کے انتظامات کی وجہ سے آئی فونز کو ان فیکٹریوں سے نکالنا ممکن نہیں ہے اسی لیے جس دن چائنا سے فون امریکا پہنچتے ہیں اس کے اگلے ہی دن کی فلائٹ سے وہ واپس چائنا اسمگل ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں چائنا سے زیادہ موبائل کنکشنز ہیں اور ساتھ ہی فیس بک اور گوگل ہم سے ناراض بھی نہیں ہیں، یوٹیوب سے تو ہم نے خود ہی منہ پھیرا ہوا ہے ورنہ یوٹیوب کو ہمیں دنیا بھر کی ویڈیوز دکھانے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن پھر بھی ہم آئی فون کے لیے چائنا جتنے پاگل نہیں ہیں، نہ ہی ہمارے یہاں آئی فون کے لیے کوئی گردہ بیچ رہا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خودکشی کررہا ہے پھر بھی ہمارے یہاں آئی فون بے حد مقبول ہے، چائنا جتنا تو نہیں لیکن ہمارے یہاں بھی آئی فون کی اسمگلنگ کی خبریں آرہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکٹرونک مارکیٹ میں آئی فون ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کا بک رہا ہے۔
کچھ دن پہلیہمارے ایک اہم ادارے کے عملے سے اسمگلنگ کے چوبیس آئی فون اور ڈھائی ملین روپے لاگت کی فارن کرنسی بھی برآمد ہوئی۔یہ آئی فونزادارے کی خواتین کے سامان میں پائے گئے، کسٹم حکام کے مطابق انھیں اطلاع ملی تھی کہ نئے آئی فونز اسمگل کیے جا رہے ہیں جس کے بعد ان کی اچھی طرح تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا اور چوبیس فون ضبط کرلیے گئے۔کہا جا رہا ہے کہ عملے کے ان اراکین کے خلاف کارروائی کی جائے جو اسمارٹ فونز لاتے پکڑے گئے ہیں۔
یہ ایک ہفتے میں دوسرا واقعہ تھا، اس سے پہلے عملے سے چونتیس (34) آئی فونز، تین آئی پیڈ اور پانچ ہزار پونڈ برآمد کیے گئے تھے۔ ہم بھی انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوگئے جہاں چائنا ہفتے میں چوبیس ہزار فون اسمگل کررہا ہے وہیں اگر آپ ''آئی فون اسمگلنگ'' انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو ہمارا نام بھی اس کے آس پاس آجاتا ہے وہ بھی صرف چوبیس فونز کی بدولت۔