بے اعتباری کے موسم میں

ہمارے بچے ہم سے کیا سیکھ رہے ہیں، ہم ان کے اندر کیا منتقل کر رہے ہیں ۔۔۔

ہمارے اساتذہ ہمیں صرف نصابی کتب نہیں پڑھایا کرتے تھے بلکہ ہماری تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے، زندگی کے زریں اصول، دلچسپ تاریخی واقعات، حکایات، اشعار اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں وہ ہمیں کامیاب زندگی کے اصول و قواعد بھی سکھاتے، سمجھاتے اور یوں ہم شعور و آگہی کی روشن شمع کی روشنی میں آگے بڑھنے اور زندگی کے تلخ و شیریں واقعات سے سمجھوتہ کرنے کا ہنر جان گئے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

بے اعتباری کے اس موسم میں قابلیت، تقرر، مطالعہ، خلوص، پیشے سے شرط وفاداری سب کچھ شک و شبہ کی نذر ہوچکا ہے، اب نہ ہی وہ اساتذہ ہیں اور نہ ہی شاگرد۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ تبدیلیوں کا موسم ہے، ہر سمت انقلاب کا موضوع زیربحث ہے، سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ غریب عوام نہیں جانتے۔ انھوں نے اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کردیا ہے کہ اﷲ کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔ درست ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا ہے کہ وہ صحیح و غلط سمت کا تعین کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم یافتہ طبقے کی شرح فیصد میں اضافہ ہو۔ تعلیم کے لیے صرف کشادہ عمارتیں ہی کافی نہیں ہوتی ہیں بلکہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو تربیت یافتہ ہوں، نصاب جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، پرسکون ماحول بھی ضروری ہے، روشن ذہن روشن راستوں کا تعین کرتے ہیں اور روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہوتے ہیں، بصورت دیگر کشتی کے بیچ بھنور میں ڈوبنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

جی تو بات ہو رہی تھی اساتذہ کی۔ ہمارے ایک محترم استاد فرماتے تھے کہ برائی کو ہمیشہ برا کہو۔ معاشرے اور ذات میں پائی جانے والی برائیوں کی نشاندہی ضرور کرو۔ ان کے خاتمے کے لیے کوشش بھی کرو۔ لیکن اس کوشش کے لیے برائی کا راستہ مت اپناؤ۔ برائی کو برائی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ برائی کے خاتمے کے لیے بہتر اور اچھا راستہ اپنانا چاہیے۔ نفرت کبھی نفرت سے ختم نہیں ہوتی، محبت نفرت کی موت ہے۔ استاد، نصاب اور تعلیم کی باتیں کرتے کرتے یہ محبت و نفرت کے جذبے کہاں سے درمیان میں آگئے۔ دونوں کبھی ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔

ایک جذبہ دوسرے جذبے کو ختم کردیتا ہے۔ اگر ہمارے درمیان محبت رہے تو حسد و رقابت کا جذبہ کبھی بھی ہمارے درمیان نہیں پنپ سکتا۔ حسد خاک کردیتی ہے، رقابت ہماری دشمن ہے۔ بے شک ہمیں زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے، لیکن تعمیری نقطہ نظر سے۔ نفرت ہمارے اندر پائی جانے والی تمام خوبیوں کو قتل کردیتی ہے۔ قتل۔ اسی لفظ سے خوف سا آنے لگتا ہے۔ صبح کا اخبار پڑھ کر، یا پھر ٹی وی کھول کر، اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، عالم، خاندان کے واحد سرپرست۔ یہ کسی فرد واحد کی موت نہیں ہوتی خاندان کو ادارہ کی موت ہوتی ہے۔

روشن چراغ یوں ہی بجھتے رہے تو ایک دن اندھیرے ہمیں ڈس لیں گے۔ پھر کیا ہوگا کبھی سوچا ہے؟ہاں واقعی کیا آپ نے اور ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم زباں و بیاں کے کس معیار پر آگئے ہیں۔ زباں و لہجے کی شائستگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر معیاری الفاظ کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ اور خاص طور پر جب یہ انداز بیاں پڑھے لکھے لوگوں میں نظر آتا ہے تو شرمندگی سی ہوتی ہے کہ اب معاملہ آپ سے تم اور تم سے تو تک پہنچتا جا رہا ہے۔

گفتگو، لباس، نشست و برخاست، خاندانی شرافت کا پتا دیتی تھیں۔ لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے۔ تبدیلی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں اور شرافت اب غیر شریفانہ ہوتی جا رہی ہے۔

دھیما دھیما لہجہ کہیں کھوتا جا رہا ہے۔ تندوتیز جملے، چیخ و پکار، شور وغل، بحث و مباحثہ سب گفتگو کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ تحریریں بھی یہی رنگ ڈھنگ اپنا لیں گی تو کیا ہوگا؟


ہمارے بچے ہم سے کیا سیکھ رہے ہیں، ہم ان کے اندر کیا منتقل کر رہے ہیں۔ قول و فعل کا تضاد، ہمارے کردار و عمل میں تضاد ہے اور اسی تضاد کی وجہ سے اب ہماری گفتگو یا تقاریر پراثر نہیں۔ ہم اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ''کیا واقعی ایسا ہے یا ایسا ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟'' یہ سوال شکوک و شبہات میں مبتلا رکھتا ہے۔

شک افواہ یا سنی سنائی بات جب ہم آگے بڑھانے لگتے ہیں تو فساد و انتشار پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے ہاتھ صاف نہیں دوسروں کو ہاتھ ملتے دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں۔ مسکراتی تو اماں بھی ہیں، جب ہم کو لکھتے دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کاغذ پر کاغذ سیاہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ویسے اماں کی بات صحیح بھی ہے۔ پہلے لفظوں میں جادو ہوتا تھا جوکہ سر چڑھ کر بولتا تھا۔ مگر اب ایسا کہاں رہ گیا ہے۔

اب تو وہ لوگ سر چڑھ کر بول رہے ہیں جن سے امید نہ تھی، بے چارے عوام کس کھیت کی مولی ہیں۔ ویسے بولنے کا کیا ہے۔ زبان کا کام ہی بولنا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ فیض نے کہا تھا ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'' اور اب تو لوگ اتنا بول رہے ہیں کہ کہنا پڑے گا کہ کوئی نئی بات کرو۔

ہائے نئے اور پرانے کے کھیل میں ہم الجھ کر رہ گئے ہیں، خیر پہلے بھی کون سے سلجھے ہوئے تھے۔ ڈور کا سرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہانپ ہانپ جاتے ہیں لیکن الجھی ڈور سلجھتی ہی نہیں ہے۔ ہم سلجھانے کی کوشش میں خود الجھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو غصہ آنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر۔ لیکن صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری قوم غصے میں رہنے لگی ہے۔ سکون، تسلی، صبر و تحمل، برداشت اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ سب طیش میں ہیں۔ غلط یا صحیح کوئی تعلق نہیں بس غصہ اتارنا ہے۔ کسی پر بھی۔ جو سامنے آگیا برس پڑے۔

برسنے پر یاد آیا کہ شاعر بے چارہ کہتا رہ گیا کہ ''اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں'' لیکن اب ابر کرم برسے یا نہ برسے دھوپ ہو یا چھاؤں۔ گانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ابر کرم کی دعا کیوں کریں۔ اب تو آنے والے جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ویسے ہم بھی کبھی غلط بات کرجاتے ہیں۔ گانے بھی ضرورت ہیں ورنہ بندہ بور ہوجائے۔ یکسانیت تھکا دے۔ جب کبھی دل چاہتا ہے۔ کوئی غزل سن لیتے ہیں، دل بہلانے کے لیے، دل ہے کہ بہلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بس ایک ہی صدا ہے میں نہ مانوں ۔ خیر چھوڑیں کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا ہمیں کیا۔

دماغ کہتا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ اب دیکھیں ناں کہ ہم اگر دوسروں کے معاملات پر نظر رکھیں گے تو وہ لوگ ہمارے معاملات پر نظر ضرور رکھیں گے بلکہ مداخلت بھی کریں گے۔ پھر ہمیں برا لگے گا۔ خیر اپنے لوگوں کی باتوں کا کیا برا ماننا، اپنے تو سب کچھ جانتے ہیں، ویسے غیر بھی ہمیں خوب پہچان گئے ہیں۔ خیر غیر اب غیر کہاں رہے جب وہ ہمارے درمیان داخل ہوگئے تو اپنوں اور غیر کی پہچان ختم ہوگئی۔ کون اپنا ہے کون پرایا۔یہی تو نوحہ ہے کہ اپنے غیر بن گئے اور غیر اپنے کیا واقعی ایسا ہے؟

کیا زمانہ آگیا ہے کہ اپنے اپنے نہ رہے، سب ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ طعنہ زنی کا موسم ٹھہر سا گیا ہے، اپنے کو پارسا اور دوسرے کو گناہ گار سمجھنے کی روایت پڑتی جا رہی ہے۔ کاش آئینہ دیکھنے کی روایت بھی پڑ جائے۔ پڑی جب اپنے عیبوں پر نظر جہاں میں کوئی برا نہ رہا۔ دوسروں کا احتساب کرنے سے پہلے اگر ہم خود اپنا بھی احتساب کرلیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوداحتسابی کی روایت کی ابتدا کون کرے گا۔ آپ، میں یا وہ؟ یا پھر کوئی بھی نہیں۔ اگر ایسا ہے تو آئینہ ٹوٹ جائے گا اور ہم اپنا اصل چہرہ کبھی بھی نہ دیکھ سکیں گے۔ ہاں کبھی بھی نہیں۔
Load Next Story